ایران کا دورہ
ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ وہ تہذیبی لحاظ سے اس قدر توانا ہے کہ اس کے مشاہدے اور مطالعے کے لیے کئی ماہ درکار ہیں، تین سال قبل ایران جانے کا موقع ملاتو ہمارے پاس صرف تین روز تھے، اس لیے گہری تشنگی کا احساس لیے لَوٹنا پڑا۔ ایران کے ہرشہر میں تاریخ کے گہرے نقوش ثبت ہیں جنھیں دیکھتے ہی آپ کے سامنے تاریخ کے اوراق کھل جاتے ہیں، اور اُس خاص دور کے ساتھ ایک رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ دل میں ان تاریخی نقوش کا نظّارہ کرنے کی شدید خواہش موجود تھی اور دوستوں کے ساتھ اس کا اظہار بھی کر تا رہتا تھا۔
ECO کی جانب سے اِس سال کے اوائل میں حضرتِ اقبال ؒ اور شیخ سعدیؒ کے فلسفے اور فکر پر تہران میں منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کی دعوت ملی تو میں نے اسے ایک اعزاز سمجھ کر قبول کر لیا۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ 1964میں پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون کے لیے RCD کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی تھی جو کئی سال تک قائم رہنے کے بعد غیر فعال ہو گئی۔ 1985 میں اسےEconomic Coopeation organization (ECO) کے نام سے بحال کیا گیا۔ اُدھر 1992 میں سینٹرل ایشیا کے ممالک روس کے آہنی پنجے سے آزاد ہوئے تو انھیں بھی اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اب یہ دس ممالک کی تنظیم ہے جس کا ہیڈ کوارٹر تہران میں ہے، علاقائی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے اس کا ایک علیحدہ سے کلچرل ونگ ہے جس کی صدارت باری باری مختلف ممالک کے حصے میں آتی ہے۔ اِس وقت ایران کے ڈاکٹر منتظر مظاہری اس کے صدر ہیں۔
سیمینار کے انعقاد میں چونکہ پاکستانی سفارتخانے کا تعاون بھی شامل تھا اس لیے پاکستانی سفارتخانے کے متعلقہ افسران مجھ سے رابطے میں رہے، انھی سے معلوم ہوا کہ ایک ایرانی فضائی کمپنی (ماہان ایئر لائینز) کی لاہور سے تہران تک براہِ راست پرواز بھی شروع ہو چکی ہے، لہٰذا اسی میں نشست بک کرائی گئی۔ اُدھر عزیزم محمد صفدر ( جو انکم ٹیکس کے انتہائی نیک نام افسر ہیں، ڈی جی پاسپورٹ بھی رہے ہیں اور میرے لیے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں) کو معلوم ہوا تو انھوں نے میرے پہنچنے سے پہلے ہی تہران کے بعد شیراز اور اصفہان کے دورے کا تفصیلی پروگرام ترتیب دے دیا۔
ایران میں پاکستان کی سفیر محترمہ رفعت مسعود ایک منجھی ہوئی سفارت کار ہیں، کئی ملکوں میں پاکستان کی نمایندگی کر چکی ہیں، فارسی بڑی روانی سے بولتی ہیں اس لیے ایران میں سفیر ِپاکستان کے طور پر ان کا انتخاب بہت مناسب اور صحیح فیصلہ ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اور خصوصاً وزارتِ خارجہ کو ہمیشہ سعودی عرب اور ایران میں بالترتیب عربی اور فارسی روانی سے بولنے کی استطاعت رکھنے والے افراد کو ہی سفیرِ پاکستان تعینات کر نا چائیے۔ اور ایک مستقل پالیسی کے طور پر اِس پر سختی سے عملدرآمد کرنا چائیے۔
کسی بھی ملک کی زبان جاننے اور بولنے سے آپ کے لیے اُس پورے معاشرے کے دروازے کُھل جاتے ہیں اور آپ وہاں کے عوام و خواص کے دلوں میں جھانک بھی سکتے ہیں، اور دلوں میں اُتر بھی سکتے ہیں۔ اِس سے آپ کے بیشمار ذاتی تعلقات اور دوستیاں بنتی ہیں۔ ملکوں اور قوموں کے تعلقات میں آج بھی ذاتی تعلقات اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ چند سال پہلے بھارت نے عربی پر عبور رکھنے والے ایک سفارتکار کو سعودی عرب میں سفیر تعینا ت کیا جس نے زبان دانی کے زور پر وہاں شاہی خاندان کے اندر اپنا رسوخ قائم کر لیا جس کے نتیجے میں وہ بھارت کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو گیا۔
سیمنار ای سی او کلچرل انسٹیٹیوٹ کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس میں سفیر ِپاکستان کے علاوہ کئی ممالک کے سفراء، اسکالرز، دانشوروں، ماہرینِ تعلیم اور اقبال کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سفیرِ پاکستان اور جناب منتطرمظاہری کے تعارفی کلمات کے بعد اصل موضوع پر تقاریر کے لیے کئی اسکالرز کو دعوت دی گئی جنھوں نے فارسی زبان میں عمدہ تقریر یں کیں، ان کی تقاریر اقبالؒ کے فارسی میں کہے گئے اشعار سے مزین تھیں۔ (یاد رہے کہ علامہ ا قبالؒ کی چار کتابیں اردو میں ہیں، جن کی ہر نظم اور ہر شعر کمال کا ہے اور شاعری کی سات کتابیں فارسی میں ہیں، جن کا معیار اردو سے بھی بلند ہے) مجھے علامّہ اقبالؒ کو نسل اسلام آباد کے چیئرمین کے طور پر دعوتِ خطاب دی گئی، میری تقریر انگریزی میں تھی جس میں موضوع کے مطابق اقبالؒ کے اردو اشعار پڑھے گئے اور ان کا انگریزی میں ترجمہ سنایا گیا۔
اشعار کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ شعر کے اصل مفہوم اور روح کو سمجھنے یا سمجھانے کی ایک نا کا م کوشش ہوتی ہے، اس کے باوجود تقریب کے اختتام پر بہت سے ایرانی اسکالرز ملے اور اقبال کے اردو شعروں پر سر دُھنتے رہے، وہیں تہران یونیورسٹی میں شعبئہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر علی بایات بڑے تپاک سے ملے، انھوں نے راقم کی تقریر کی تحسین کی اور تہران یونیورسٹی میں خطاب کی دعوت دی۔ زیادہ تر اسکالرز نے راقم سے ملاقات کے دوران اس بات کو خصوصی طور پر سراہا کہ "آپ نے اپنے خطاب کو اقبالؒ کے فلسفہء خودی تک محدود نہیں رکھا بلکہ فکرِ اقبال کے اہم ترین موضوعات کا بھی کا ذکر کیا ہے۔
مایوسی اور ناامیدی میں گرفتار مسلمانوں کو اپنی اہمیّت اور اعلیٰ مقام کا احساس دلانے، احساسِ کمتری سے نکا لنے، مغربی تہذیب کی چکا چوند کے سحر میں گرفتار ہونے سے بچانے، علم اور تحقیق پر توجہ دینے اور مسلمانوں کے عالمگیر اتحاد پر اقبالؒ کا پیغام سنانا ضروری تھا جو آپ نے خوب کیا ہے۔ اِن موضوعات پر آپ سے اقبالؒ کے اُردو شعر سنکر لطف آ گیا ہے اور رو ح مسّر ت و انبساط سے سرشار ہو گئی ہے"۔ مختلف دانشور کلامِ اقبال ؒ کی تروتازگی کا بھی باربار ذکر کرتے رہے اور کہتے رہے کہ " لگتا ہے یہ شعر آج کہے گئے ہیں اور آج کے حالات کے لیے ہی لکھّے گئے ہیں"۔
تمام دانشوروں کا اس پر اتفاق تھا کہ بلاشبہ اقبالؒ جدید مسلم دنیا کے سب سے بڑے تھنکر اور شاعر ہیں اور جس طرح ایران کے سپریم لیڈر جناب سید علی خامینائی (جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو مریدِ اقبالؒ کہتے ہیں) نے بار بار کہا ہے اور جناب ڈاکٹر علی شریعتی بارہا لکھ چکے ہیں کہ جدید مسلم دنیا کو لاحق امراض سے نجات کے لیے ہمیں ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے بتائے ہوئے علاج کی جانب ہی رجوع کرنا ہو گا۔ اور انھی کے دیے ہوئے نسخوں کو استعمال کرنا ہو گا، اسی سے ہم صحت یاب ہوںگے اور اسی سے ہمار ے مسائل حل ہوںگے۔
چائے کے دوران راقم نے ای سی او کے حکّام اور ایرانی دانشوروں کے سامنے تجویز رکھی کہ کیا ہی اچھا ہو اگر تہران میں بھی لاہور کے ایوانِ اقبالؒ کی طرز پر کوئی ایوان یا بہت بڑا دارہ قائم کیا جائے جو ای سی او ممالک میں پیغامِ اقبالؒ کی ترویج اور اشاعت کا موثر ذریعہ بن سکے۔ تمام حاضرین نے اس تجویز سے اتفاّق کیا اور اسے حکومت ایران تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ راقم نے سفیرِ پاکستان کو یہ تجویز بھی دی کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے تہران مشہد اور قُم جانے والے پاکستانی حضرات میں سے اہلِ ثروت کو قائل کریں کہ وہ مشہد کے علاوہ تہران، شیراز اور اصفہان میں پاکستانی ریستوران قائم کریں، جس طرح وہ یورپ میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہاں کے گورے اور گوریاں پاکستان کے چٹخارے دار (Spicy)کھانوں کے رسیا ہو گئے ہیں اسی طرح کچھ ہی عرصے میں ایرانی خواتین و حضرات بھی پاکستانی کھانے کھا کر انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ میڈم رفعت مسعود نے اس تجویز سے پوری طرح اتفاق کیا۔
تہران میں کئی ایرانی خواتین و حضرات سے ایران پر امریکا کے ممکنہ حملے پر بات کی تو کسی نے بھی پریشانی یا تشویش کا اظہار نہ کیا۔ ایرانی ایک بہادر اور غیرت مند قوم ہے۔ امریکا اور یورپ کی جانب سے ایران پر پابندیوں سے عام آدمی کی زندگی بلاشبہ بہت متاثر ہوئی ہے، مقامی کرنسی بہت ارزاں ہو گئی ہے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے مگر ایرانی قوم ان سب مشکلات کا بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کم ہوئی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر جناب علی خامینہ ای صاحب (اللہ تعالیٰ انھیں لمبی عمر اور اچھی صحت عطافرمائیں) کے دل میں پاکستان کے لیے خاص محبّت اور گرمجوشی ہے، انھی کی ہدایت پر پچھلے سال ہمارے یومِ آزادی (14اگست) پر پورے تہران کو پاکستا نی پرچموں سے سجادیا گیا تھا۔ (جاری ہے)