بھارتی مسلمانوں کی پکار اور اس کا حل
اگر ہم قرآن کو خالقِ کائنات کی آخری کتاب مانتے ہیں توقرآن کی ان آیات پر توجہ کیوں نہیں دیتے، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا ہے، "تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو، جو کمزور پا کر دبا لیے گئے اور جو فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال، اس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔"
آج ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ بے بس کوئی نہیں، جو مدد کے لیے مسلسل پکار رہے ہیں مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ مذکورہ بالا آیات کے متعلق محترم جاوید غامدی صاحب سمیت تمام جیّدعلماء متفق ہیں کہ یہ تمام زمانوں کے لیے ہے اور مذکورہ آیات میں ایسی صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہٹلر کے بعد اگر کسی نے عملی طور پر فاشزم نافذ کیا ہے تووہ مودی ہے جس نے بھارت میں مسلمانوں کے لیے سانس لینا مشکل بنا دیا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بنیادی مسئلہ اب معاشی یا تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ بقاء (survival) اور جانی تحفظ ہے۔ بھارت کی فاشسٹ حکومت مسلمانوں کی نسل کشی(genocide) کے ایجنڈے پر پوری تند ہی سے کام کر رہی ہے اور ارون دھتی رائے کے بقول انڈیا کی انتظامیہ، پولیس عدلیہ اور فوج اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے میں مودی حکومت کا مکمل طور پر ساتھ دے رہی ہے۔
مسلمانوں کے لیے اب پیغام یہ ہے کہ انڈیا میں رہنا ہے تو اپنا دین، عقیدہ اور مسلم شناخت چھوڑدو، ہندو بن جاؤ یا لادین ہونے کا اعلان کردو(جس طرح فلمی شاعر جاوید اختر لادین ہونے کا اعلان کرکے قابلِ قبول بننے کی کوشش کر رہا ہے) اگراپنی مسلم شناخت قائم رکھنی ہے تو انڈیا سے نکل جاؤ،۔
ہر روز سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا میں اب مسلمانوں کو جمعہ اور عید کی نماز پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہے، اللہ، محمدؐ اور اسلام کا نام نہیں لیا جاسکتا، بیٹیاں اب حجاب کے ساتھ کالجوں میں نہیں جاسکتیں، ہائیکورٹ کے ججوں نے مسلمان بیٹیوں کو ان کا بنیادی حق دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کے جج اور سول سرونٹس بھی ہندو توا کے نظریے پر عمل پیرا ہیں۔
مسلمان جس ہندوستان کے حاکم ہوتے تھے اور جس ہندوستان کی تعمیر و ترّقی میں مسلمانوں کی بے مثال خدمات ہیں وہ ہندوستان اب اُن کے لیے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں نے کتنی جلیل القدرشخصیات پیدا کیں۔
سیاست ہو یا صحافت، مذہب ہو یا ثقافت، ہر میدان میں مسلمان گھرانوں سے ایسی معروف شخصیات اُبھریں کہ جن کے نام کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا رہا۔ مگر پچھلے ستر سالوں میں بھارتی مسلمانوں کو ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہاں کے غیرجانبدار اور لبرل صحافیوں کے بقول اب بھارت میں سماجی طور پر مسلمانوں کی حیثیت دلتوں سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔
اُن پرسرکاری نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے انھوں نے اپنے اسلامی نام تک تبدیل کرلیے ہیں۔ خوف کے مارے انھوں نے نام کے ساتھ محمد لکھنا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اللہ کے بجائے اُوپر والاکہتے ہیں۔
پچھلے ستر سالوں میں بھارت میں تین بڑی شخصیات ملکی سطح پر معروف رہیں۔ آزادی کے فوراً بعد مولانا ابو الکلام آزاد سب سے نمایاں تھے، (مسلمان ہونے کے باوجودانھوں نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ قیامِ پاکستان کی پُرزور مخالفت کی اور گاندھی کے سیاسی نظریے کی پیروی کی) وہ بھارت کے وزیرِ تعلیم رہے۔
ان کے بعد سب سے معروف شخصیت دلیپ کمار کی تھی جو پورے بھارت میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ مقتدر حلقوں میں بھی اثرو رسوخ رکھتے تھے اور مسلمانوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لتا منگیشکر برصغیر کی سب سے بڑی گلوکارہ تھیں مگر سیاسی، ثقافتی اور سماجی اعتبار سے دلیپ کمار کا مقام لتا منگیشکر سے کہیں بلند تھا۔ مگرمسلمان ہونے کے باعث وہ لتا کی طرح state funeral کے حقدار قرار نہ پاسکے، ان کی اور لتا کی آخری رسومات میں اس واضح فرق کو سب نے محسوس کیا۔
مذہبی شخصیات میں مولانا حمید الدین فراہی ؒ اور مولانا ابوالحسن ندوی ؒکے بعدمولانا وحیدالّدین خانؒ بہت معروف تھے مگر انھوں نے کبھی بھارتی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش نہ کی۔ انھوں نے اسلام کی اُس طرح تشریح کی جو بی جے پی کی حکومت کے لیے قابلِ قبول تھی۔ انھوں نے کشمیر اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کبھی بات نہیں کی۔ ان کے بی جے پی کی قیادت سے دوستانہ مراسم رہے، وہ بھارت کے سب سے بڑے ایوارڈ کے حقدار قرار پائے۔
آجکل بھارت کی فلمی دنیا کے خانوں کے پاس دولت اور شہرت تو ہے مگر وہ دلیپ کمار جیسی باوقار شخصیت اورسماجی مرتبے کے حامل نہیں ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنے آپ کو قابلِ قبول بنانے اور آر ایس ایس کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے ہندو عورتوں سے شادیاں کی ہیں، گھر میں پوجا پاٹ کا بندوبست بھی کر رکھا ہے مگر پھر بھی آئے دن وہ تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں کہ ان کے نام مسلمانوں والے ہیں۔
میڈیا پر پابندیوں کے باوجود بھارت کی سنگین ترین صورتِ حال کی خبریں باہر نکل آتی ہیں، جن کے مطابق بے شمار دیہات سے مسلمانوں کو زبردستی نکال دیا گیا ہے، ان کے مکانوں اور زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے اور انھیں جھونپڑیوں اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔
دراصل بی جے پی کی سیاست کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت اور polarisation پر ہے، اس کا وہ اقرار بھی کرتے ہیں۔ 2004کے انتخابات میں شکست کے بعد انھوں نے مسلم دشمنی کو اپنی سیاست کی بنیاد بنالیا جو ان کی کامیابی کی علامت بن گئی، وہ مختلف موقعوں پر مختلف نعرے استعمال کرتے رہے، کبھی گائے ذبح کرنے پر مسلمانوں کو تشدد کرکے قتل کرتے رہے۔
کبھی بابری مسجد اور دوسری تاریخی مساجد مسمار کرکے، کبھی مسلمان حکمرانوں کی یادگاریں ختم کرکے اور اُن کے نام تبدیل کرکے، کبھی ہندوستانی مسلمانوں پر پاکستان سے روابط کے الزامات لگا کر، کبھی لوجہاد اور اب حجاب کے خلاف مہم چلا کر وہ اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی فریاد کون سنے گا؟ وہ سب سے پہلے پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران تو صرف تقریریں بیچتے ہیں، اندر کی خبر یہ ہے کہ انھوں نے کشمیر کو برفانی اسٹور میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جب وہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں تو بھارت کے مسلمانوں کا درد کیا محسوس کریں گے۔
اگر پاکستان متحرک ہوتا تو ترکی، ایران اور افغانستان کے طالبان کو بھی ہمنوا بنا سکتا تھااور مڈل ایسٹ میں بھی کچھ ہلچل پیدا کی جاسکتی تھی، مگر اب تو مدعی ہی سست ہوچکا ہے، اس لیے دوسرے کیسے چُست ہوں گے۔
اپوزیشن بھی بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انتہائی تجربہ کار اور محب وطن سفارتکاروں جناب عبدالباسط اور جناب عاقل ندیم کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت ہوئی ہے، میں ان سے متفق ہوں کہ انڈیا کے مسلمان کوئی معمولی اقلیت نہیں، ان کی تعداد بیس کروڑ ہے جنھیں ختم کرنا فاشسٹ حکمرانوں کے لیے آسان نہیں مگر زندہ رہنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی مدد آپ کرنی پڑے گی، اس ضمن میں وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو منظّم اور متحد کریں، کانگریس پر انحصار ختم کرکے اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی تشکیل دیں۔
اس وقت وہ بکھرے ہوئے ہیں، وہ کوشش کریں کہ ہر شہر میں مسلمانوں کی آبادی ایک جگہ concentrate ہو، تاکہ وہ اپنے زیادہ نمایندے منتحب کرسکیں۔ جس طرح یورپ میں رہنے والے کشمیری متحرّک ہیں، اسی طرح بیرون ممالک رہنے والے انڈین مسلمان بھی متحرک ہوں اور وہاں کے بااثر حلقوں کو بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں sensitise کریں۔ اس ضمن میں پاکستانی diaspora (تارکینِ وطن) کا فرض ہے کہ ان کی پوری مدد کرے۔
انھیں اپنے سے بہت کم آبادی والے سکھوں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح اتحاد اور جرأت سے انھوں نے مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں تحفظ، فتح اور نصرت عطا فرمائیں۔