بلوچستان ڈوب رہا ہے،اسے بچالیں
کسی اور موضوع پر کالم لکھ رہا تھا مگر بلوچستان میں قیامت خیز سیلاب سے انسانی بستیوں کی تباہی دیکھی تو قلم ہاتھ سے چھوٹ گیا اور دل کٹ کرر ہ گیا۔ کچے گھروں کے مکین امراء سے زیادہ آسودہ اور پرمسرت زندگی گذارتے ہیں۔
بلوچستان کے بھائیوں کے گھر کچے ہی سہی مگر وہ اپنے گھروں میں بڑی اطمینان بخش زندگی گذاررہے تھے کہ بادلوں نے سارا پانی ایک ہی علاقے میں نچوڑ دیا جس سے ندیاں اور نالے بپھر گئے اور پھر اس بلا کے آگے کچھ بھی نہ ٹھہر سکا۔ بپھرا ہوا سیلابی طوفان ان کی جمع شدہ خوراک، مال مویشی، مکانوں کی چھتیں اور پھولوں جیسے بچے تک بہا کر لے گیا۔ سیکڑوں بستیوں کے مکین زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہو کر آسمان کے نیچے آ گئے۔
سوشل میڈیا پر ایک انتہائی المناک وڈیو بار بار نظروں کے سامنے آئی ہے، بلوچستان یا ڈی جی خان کے کسی گاؤں میں ایک گھر کے بچے بھی سیلاب میں بہہ گئے، صرف گھر کا سربراہ بچ سکا، وہ کنارے پر پہنچ کر انتہائی بے بسی کی حالت میں بار بار دہائی دے رہا ہے کہ "ہے کوئی جو میرے بچوں کو بچالے" غم و الم سے چور ایک بے بس انسان کی پکار دیکھنے اور سننے والا ہر ذی روح تڑپ اٹھا ہوگا۔ ہر گاؤں اور ہر بستی سے یاس والم میں ڈوبی ہوئی اسی طرح کی آوازیں بلند ہورہی ہیں، مگر ہے کوئی کان دھرنے والا؟ خالقِ کائنات سے التجا ہے کہ وہ اپنے ان بے سہارا بندوں کے دکھوں کا مداوا کریں اور ان کے مصائب کم کرنے میں ان کی مدد فرمائیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جب بلوچستان میں انسان اور مکان ڈوب رہے تھے تو اس وقت انھیں بچانے کے لیے بروقت کوئی بھی نہ پہنچ سکا، نہ حکومتی اہلکار، نہ ہیلی کاپٹر اور کشتیاں، نہ کوئی این جی او اور نہ ہی بڑے بڑے ناموں والے فلاحی ادارے۔ وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ کی حیثیت سے افسروں کی میرٹ پر تعیناتیاں کرنے کی شہرت رکھتے تھے مگر لگتا ہے اس بار اتحادی ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئے ہیں اور انھیں Compromises کرنے پڑ رہے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو اسلام آباد کی طرف سے بلوچستان کے لیے سب سے اچھا تحفہ تین اہم ترین عہدوں پر انتہائی ایماندار افسروں کی تقرّری ہے۔
چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹری (ڈوپلیمنٹ) اور آئی جی پولیس انتہائی ایماندار بھی ہوں اور مخلوقِ خدا سے ہمدردی رکھنے والے بھی ہوں۔ میں نے بلوچستان میں سروس کی ہے ایک بار ایک نیک نام چیف سیکریٹری لہڑی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے صاف صاف بتادیا کہ مرکزی حکومت اس بدقسمت صوبے کی ترقی کے لیے جو فنڈز دیتی ہے وہ گراؤنڈ پر 25% بھی استعمال نہیں ہوتے، 75% حکمران، سیاستدان اور افسران کھا جاتے ہیں۔
اس لیے ایماندار اور خوفِ خدا رکھنے والے افسران بلوچستان کے باشندوں کے لیے ایک نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ رزقِ حلال کھانے والے افسر ہوں گے تو تب حکومتوں کی امداد حقداروں تک پہنچ سکے گی۔ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ کل بلوچستان کے جن سیلاب زدہ علاقوں میں وزیرِاعظم پہنچے وہاں بھی صوبائی انتظامیہ متاثرین کے لیے خوراک پہنچانے میں ناکام رہی اور نام نہاد میڈیکل کیمپ بھی صرف جعلی کارروائی کے لیے لگائے گئے ہیں، بدترین آفت کے دنوں میں بے حسی اور بدترین گورننس کا یہ حال ہے تو عام حالات میں کیا ہوگا۔
یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم پیش بندی کی صلاحیّت سے کیوں محروم ہیں، اس طرح کی آفات کا اندازہ لگا کر ہم ان سے نمٹنے کے انتظامات پہلے کیوں نہیں کرلیتے؟ کیا صوبائی حکومت کے متعلقہ محکمے نشیبی بستیوں کو ایک ایک کشتی اور تیرنے کے لیے چند ٹیوبیں فراہم نہیں کرسکتیں؟ اس طرح کے ہر گاؤں میں ایک مشترکہ عمارت (ایسی عمارت اسکول یا مسجد ہی ہو سکتی ہے) اونچی بنیاد پر کیوں تعمیر نہیں کرتے تاکہ ایسے موقعوں پر لوگ وہاں پناہ لے سکیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریسکیو 1122 جیسے محکموں کو زیادہ وسائل فراہم کیے جانے چاہئیں۔
ان محکموں میں تیراک بھی بھرتی ہونے چاہئیں اور ان کے پاس آفات سے بچاؤ کے مکمل وسائل بھی ہونے چاہئیں۔ چاہے بلا تنخواہ ہوں مگر ہر گاؤں کا نمبردار اور چوکیدار بھی مقرّر کیا جانا چاہیے تاکہ گاؤں کا سربراہ ہونے کے ناتے وہ بستی کی پوری آبادی کے جانی اور مالی تحفظ کو اپنی ذمّے داری سمجھے۔ لوکل باڈیز کے اداروں اور مقامی حکومتوں کے قیام میں رکاوٹیں ڈالنا مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور ہر پارٹی کا ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اگر با اختیار مقامی حکومتیں ہوتیں تو ہر گاؤں میں منتخب نمایندے ہوتے جو ایسی ناگہانی صورتِ حال میں بڑا موثر کردار ادا کر سکتے تھے۔
بلاتاخیر مقامی حکومتیں قائم کی جائیں اور انھیں با اختیار بنایا جائے۔ ہماری قوم میں صبر اور قناعت کا بے حد فقدان ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی امدادی سامان کا ٹرک لے کر پہنچا بھی ہے تو اس کے پہنچتے ہی اس پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا گیا ہے۔ موقع پر بستی کے بڑے یا بااثر لوگ موجود ہوں جو ان کی قطار بنوائیں تاکہ آرام اور سکون کے ساتھ سب اپنے حصے کا سامان لے سکیں۔
چند سال پہلے جب میں گوجرانوالہ ڈویژن کا ڈی آئی جی تھا تو ہم نے امدادی سامان کے کئی ٹرک مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کے سیلاب زدگان کے لیے بھیجے تھے۔ مگر میں نے ٹرکوں کے ساتھ پولیس کے محافظ بھیجے تھے اور وہاں کے ڈی پی اوز سے کہہ کر پولیس کی نگرانی میں سامان تقسیم کروایا تھا اور کہیں کوئی بدنظمی نہیں ہوئی تھی۔
یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیاں سیاست بازی میں اس قدر مشغول ہیں کہ ان کے پاس بلوچستان کے مصائب زدہ بہنوں اور بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا نہ وقت ہے اور نہ ہی انھیں اس سے کوئی دلچسپی ہے، سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی یہ بے حسی انتہائی تکلیف دہ ہے، پہلے یہ ہوتا تھا کہ آس پاس کے صاحبِ ثروت لوگ اپنے آفت زدہ بھائیوں اور بہنوں کے لیے کھانا پکوا کر بھجوایا کرتے تھے، مگر ایسی کوئی امدادی سرگرمی بھی نظر نہیں آئی۔
اس ملک میں سیکڑوں ارب پتی اور ہزاروں کروڑ پتی حضرات ہیں، انھیں بھی انسانی ہمدردی کے تحت اﷲ کے دیے ہوئے مال میں سے دل کھول کر اپنے دکھی بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان پورے ملک کی قیادت کے دعویدار ہیں، ابھی تک ان کی طرف سے امداد یا ہمدردی کا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا۔ ا سی طرح پنجاب کے نئے وزیرِاعلیٰ بھی اب خیر سے ارب پتی ہیں، انھیں بھی اپنی دولت میں سے فوری طور پر کچھ امداد بلوچستان بھیجنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے قائدین خصوصاً میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز پر لازم ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ بلوچستان اور ڈی جی خان کے سیلاب زدگان کی مالی مدد کریں۔
اسی طرح کامرس اور انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی فوری طور پر امداد بھیجیں۔ ملک کا ہر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری خود خوراک اور ادویات کے ٹرک تیار کر کے بھجوائے اور بلوچستان میں پولیس حکّام سے رابطہ کر لے تاکہ تقسیم درست طور پر ہو اور کوئی بدنظمی پیدا نہ ہو۔ میں بلوچستان کے فرض شناس آئی جی عبدالخالق شیخ سے کہوں گا کہ وہ ضلعی پولیس افسران کو سختی سے ہدایت جاری کریں کہ وہ باہر سے آنے والی امداد اپنی نگرانی میں تقسیم کرائیں، اور اس چیز کو یقینی بنائیں کہ کہیں بددیانتی ناانصافی یا گھپلا نہ ہو۔
اوورسیز پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ صرف سیاست بازی نہ کرتے رہیں اور سیاسی چندے دینے کے بجائے سیلاب زدہ بھائیوں کے لیے امداد بھیجیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ کسی ایک پارٹی کا ورکر بن کر نہیں صرف پاکستانی اور پاکستان کا سفیر بن کر رہیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سیلاب زدگان کی امداد پر توجہ دے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحم کریں اور ان کے زخموں پر اپنے رحم کے مرہم رکھ دیں۔
چیریٹی کے نام پرفنڈز اکٹھا کرنے والوں اور اس رقم سے بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے والوں کی ساکھ کا جائزہ لینے کے بعد میں نے الخدمت، والوں سے رابطہ کیا ہے اور اپنی ماہانہ آمدنی کا پانچواں حصہ بلوچستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جمع کرارہا ہوں۔ میں الخدمت کے سربراہ عبدالشکور صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ صرف اور صرف اﷲ کی خوشنودی کو مطمعٔ نظر بنائے رکھیں اور اپنی سرگرمیوں کو سیاسی مقاصد سے بالاتر رکھیں، وہ فوری طور پر اب کراچی کے بجائے بلوچستان کا رخ کریں۔
بلوچستان کے کورکمانڈر سمیت سینئر فوجی افسروں کے ہیلی کاپٹر کی گمشدگی (یا ممکنہ شہادت) پر دل بے حد افسردہ ہے، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وطن کے ان محافظوں کو اپنے خصوصی فضل و کرم سے اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔
پسِ تحریر: الیکشن کمیشن کے فیصلے سے اکبر ایس بابر سرخرو ہوا اور عمران خان اور ان کی پارٹی پر بددیانتی کا بدنما داغ لگ گیا ہے۔ اب اس کا نتیجہ جو بھی نکلے مگر اکبر ایس بابر کے لیے دلوں میں بے پناہ عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
کیا سیاسی پارٹیوں میں ایسے بلند کردار، دیانتدار، جرأت مند اور ایسے ثابت قدم افراد بھی ہوتے ہیں؟ اسے عمران خان اور ان کی حکومت نے دھمکیاں بھی دیں اور گورنر شپ کی پیشکش بھی کی مگر کسی دھمکی اور تحریص سے اس کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔ بلاشبہ اکبر بابر جیسے لوگ ہی ہماری سیاست اور جمہوریت کا حسن ہیں۔