بابائے صحافت کی تاریخی یادگار
اس وقت ملک میں بابائے صحافت کہلانے کا اگر کوئی حقدار ہے تو وہ سیکڑوں صحافیوں کے استاد بلکہ استادوں کے استاد جناب الطاف حسن قریشی ہیں۔
ان کے اردو ڈائجسٹ کا ہر پڑھے لکھے گھرانے میں کسی مقبول ڈرامے کی نئی قسط کی طرح انتظار رہتا تھا۔ جن لوگوں نے الطاف صاحب سے قلم پکڑنا سیکھا وہ آج معروف اداروں کے سربراہ ہیں۔ جو اردو ڈائجسٹ کی تربیت گاہ میں جوتیاں سیدھی کرتے رہے، وہ آج کسی بڑے اخبار یا مقبول رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔
جناب الطاف حسن قریشی اور ان کے بڑے بھائی محترم اعجاز حسن قریشی دونوں ہی بڑے ذہین، محنتی اور innovative تھے، کئی لوگوں نے اردو ڈائجسٹ کی طرز پر درجنوں رسائل نکالے مگر کوئی بھی اردو ڈائجسٹ کے معیار اور مقبولیّت کو نہ چھوسکا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں الطاف صاحب کے قلم کی روانی اور جولانی اپنے عروج پر تھی اوراس کی گونج اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچتی تھی۔ اس لیے اکثر حکمران ان سے نالاں رہتے، سچ لکھنے کی پاداش میں وہ کئی بار پسِ دیوارِ زنداں بھیجے گئے۔
صحافت کے استاد ہونے کے علاوہ وہ اسلامی نظریۂ حیات کے علمبرداروں اور محافظوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ستر کی دہائی میں جب سوشل ازم اور دھریت عروج پر تھی تو اسلامی نظریے اور اقدار کے دفاع کے لیے صحافتی محاذ کی کمان جناب الطاف حسن قریشی، جناب مجیب الرحمن شامی، آغا شورش کاشمیری اور جناب صلاح الدین شہید جیسے صحافتی جرنیلوں نے سنبھال لی۔ غیر اسلامی نظریات کے پرچارک ان کے سامنے کبھی نہ ٹھہر سکے۔
آجکل دین بیزار افراد برقی میڈیا پر اسلامی حدود اور اقدار پر حملے کرتے ہیں مگرانھیں کوئی موثر جواب نہیں دیا جاتا۔ اُس وقت ایسا ممکن نہ تھا، انھیں موثر اور مدلل جواب دینے والے اسکالر، رائٹر اور دانشور موجود تھے۔
موجودہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان ہوتا تھا، جہاں ہم رہتے ہیں یہ تو مغربی پاکستان کہلاتا تھا۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ڈھاکا میں جنم لیا تھا۔
1940میں پاکستان کی قرار داد ایک بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ مشرقی بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے میں سب سے اہم کردار بنگال کے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی (شیخ مجیب الرحمن جن کا سیاسی شاگرد تھا) کا تھا۔
بنگال کے لیڈر تو پاکستان کے بانیوں میں سے تھے، مشرقی حصے کے بغیر پاکستان کا کوئی تصوّر نہیں تھا، کبھی ڈھاکا، سلہٹ اور چٹاگانگ میں ہمارے لیے محبت کا زمزم بہتا تھا، مگر پھر یہ ہوا کہ جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار، سیاستدانوں کی مفاد پرستی، بیوروکریٹوں کے حاکمانہ اور غیر ھمدردانہ رویئے اور دشمن کی فوجوں نے مل کر ہمارا مشرقی حصہ ہم سے علیحدہ کردیا۔
میں اُس وقت اسکول کا طالبِ علم تھا، میں نے خود اس عظیم ترین سانحے پر انتہائی معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیواروں سے ٹکریں مارتے دیکھا۔ میں نے پہاڑوں جیسا مضبوط حوصلہ رکھنے والے اپنے والد گرامی کو دھاڑیں مار کرروتے دیکھا ہے، اس وقت ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی، لوگوں نے کئی روز تک نہ کچھ پکایا اور نہ کھایا۔
اس عظیم ترین قومی سانحے پر پوری قوم کئی سالوں تک سوگوار اور دکھی رہی مگر اس سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ اتنی بڑی نیشنل ٹریجیڈی کے ذمے داروں کو ریاستِ پاکستان نے کوئی سزا نہ د ی۔ ہم اس سانحے کے بارے میں قائم کیے گئے اعلیٰ ترین کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد تو کجا، اسے منظرِ عام پر بھی نہ لاسکے۔
مشرقی خطے میں کیا ہورہا ہے، وہاں کے لوگ کیا سوچتے ہیں، بھارت وہاں کیا گل کھلا رہاہے، ہندو پروفیسر نوجوان بنگالیوں کے ذھنوں میں کس طرح زہر گھول رہے ہیں، ان اہم موضوعات پر اگر کسی دانشور نے سب سے زیادہ تسلسل اور تواتر کے ساتھ لکھا اور قوم کو حقائق سے آگاہ رکھنے کی کوشش کی تو وہ الطاف حسن قریشی تھے۔
انھوں نے سابق مشرقی پاکستان کے بارے میں ارود ڈائجسٹ، زندگی، جسارت اور دوسرے اخبارات و رسائل میں جو کچھ بھی لکھا ہے، اسے الطاف صاحب کے ہونہار پوتے ایقان حسن نے بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ اکٹھّا کرکے مرتب کیا اور پھر قلم فاؤنڈیشن کی طرف سے جناب عبدالستار عاصم نے اسے کتابی صورت میں چھاپ دیا ہے۔
الطاف حسن قریشی صاحب نے 1400صفحے کی اس ضخیم کتاب کو "مشرقی پاکستان۔۔ ٹوٹا ہوا تارہ" کا عنوان دیا ہے۔ بلاشبہ فلکِ پاکستان کے دونوں ستارے ربع صدی تک اکٹھے جھلملاتے رہے اور پھر ان میں سے ایک ستارہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔
کتاب کیا ہے، متحدہ پاکستان اور اس کی علیحدگی کی ایک مستند تاریخ ہے جس میں ان تمام عوامل اور کرداروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جنھوں نے سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی کردار ادا کیا ہے۔
کتاب کے پہلے چند اوراق پڑھتے ہی قاری اس دور میں پہنچ جاتا ہے جب جسدِ پاکستان کے دونوں بازو سلامت تھے، جب راجشاہی، فرید پور اور کُھلنا میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے اور ڈھاکا میں سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا۔
محترم الطاف صاحب نے لکھا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں سب سے پہلے 1964میں ڈھاکا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محبوب مرشد کا انٹرویو لینے گئے تھے۔
اُس دورے میں وہاں کے امیرِ جماعت اسلامی خرم مراد صاحب نے چند اہم شخصیات کو مدعو کیا جن کی باتوں اور تجزیوں سے الطاف صاحب کو سب سے پہلے بنگالی عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا اندازہ ہوگیا۔
کتاب میں کچھ ایسے حقائق ہیں جن سے نئی نسل بالکل ناواقف ہے مثلاً یہ کہ 1906 میں نواب سلیم اللہ نے مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس کے لیے اُس وقت پورے ہندوستان سے دوہزار نامور شخصیات کو مدعو کیا تھا۔ ڈھاکا یونیورسٹی کی زمین بھی نواب سلیم اللہ نے دی تھی، ان کا انگریز حکمرانوں کے ساتھ 1911 میں معاہدہ ہوا تھا کہ اس یونیورسٹی میں علومِ اسلامیہ کا شعبہ لازماً قائم کیا جائے گا، اسی لیے اس یونیورسٹی کا پہلا نام "مدینہ یونیورسٹی" رکھا گیا۔
1936 میں قائدِاعظم پہلی بار ڈھاکا یونیورسٹی گئے تو طلباء نے ان کا شاندار استقبال کیا، اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بعد اگر کسی یونیورسٹی کا سب سے اہم کردار ہے تو وہ ڈھاکا یونیورسٹی ہے۔
خرم مراد صاحب کی فکر انگیز نشست میں راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین نے کہا تھا کہ "حکومت، اہلِ دانش اور اربابِ صحافت پر یہ لازم ہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اسلامی لٹریچر اور علامہ اقبال اور دوسرے مفکرین کے افکار بنگلہ زبان میں منتقل کرنے کا ایک منصوبہ تشکیل دیں اور اس پر کامل سنجیدگی اور جاں فشانی سے عمل درآمد یقینی بنائیں" اس آواز پر کسی نے بروقت دھیان دیا ہوتا تو بنگالی نوجوانوں بھارت کے آلۂ کار ہرگز نہ بنتے۔
مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تو ہر شخص اس کی وجوہات اور عوامل جاننے کے لیے بیتاب تھا اور یہ چاہتا تھا کہ شکست کے ذمے داران کے چہرے بے نقاب کیے جائیں۔ اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے الطاف حسن قریشی صاحب نے قلم اٹھایا اور "سقوطِ ڈھاکا سے پردہ اُٹھتا ہے" کے عنوان سے مضامین لکھے جو اس کتاب کے تیسرے حصے میں شامل کیے گئے ہیں، اُن میں 1970 کے الیکشن کی " شفافیت" اور جنرل یحییٰ کی" غیر جانبداری" کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کی اس کتاب میں برصغیر کے مسلمانوں کی ایک سو سالہ تاریخ کو سمو دیا گیا ہے۔ اس کے کچھ باب تعلیمی نصاب میں ضرور شامل ہونے چاہئیں جب کہ یہ تاریخی کتاب ملک کی ہر لائبریری میں موجود ہونی چاہیے۔
مختلف شخصیات کے ساتھ الطاف حسن صاحب کے مکالمے اور انٹرویو بے حد دلچسپ ہیں، سابق اسپیکر اور پاکستان سے محبت کرنے والے عظیم رہنما جناب فضل القادر چوہدری نے اپنے انٹرویومیں بتایا ہے کہ مئی 1965 میں ایوب خان نے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ "گزشتہ پچاس برسوں میں مسلمانوں میں میری صلاحیت کا کوئی قائد پیدا نہیں ہوا"اس پر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسن نے میرے کان میں کہا، "لوجی قائدِاعظم بھی صاف ہوگئے" اس کمیٹی میں بھٹّو صاحب نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ "ہرضلعے کا ڈپٹی کمشنر مسلم لیگ کا صدر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس سیکریٹری ہونا چاہیے۔ " یہ سن کر حاضرین ہنس پڑے۔
کتاب میں شیخ مجیب الرحمن اور یحییٰ خان کے انٹرویو بھی خاصے دلچسپ ہیں۔ 1969 شیخ مجیب الرّحمن سے لیا گیا انٹرویو پڑھ کر تاریخ کے طالبِ علموں کی سوچ کے کئی دریچے وا ہوں گے۔ شیخ صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، "چھ نکات قرآن اور بائبل تو نہیں، ان پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے" یہ بھی کہا تھا کہ "پاکستان، مسلمانوں کی متحدہ کوششوں سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا تھا، انشااللہ اس کا پرچم ہمیشہ سربلند رہے گا"۔
تاریخی اہمیت کی حامل تحریروں کو مرتب کرکے نوجوان ایقان حسن نے اپنے قابلِ فخر دادا کی ایک ایسی یادگار (living monument) تعمیر کردی ہے جس سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوتی رہیں گی۔
اس زبردست کارنامے پر ایقان حسن مبارکباد کا بھی مستحق ہے اور شاباش کا بھی۔ الطاف حسن قریشی صاحب آج بانوے سال کی عمر میں بھی قلمی جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں اچھی صحت اور لمبی زندگی عطا فرمائیں تاکہ وہ اپنی تحریروں سے قوم کی رہنمائی کرتے رہیں۔