اور وہ پھر بازی لے گیا
جمعہ کو مطالعے کے لیے کتابِ حق کھولی تو سورۃالتکویرسامنے تھی "اذَالشَمسُ کُوِّرَت۔ وَاِذالنّجومُ انکَدَرَت۔ واِالجِبَالُ سُیِّرَت۔ "
(جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جب سمندر بھڑکادیے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی، اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس قصور میں مار ڈالا گیا، جب اعمال نامے کھولے جائیں گے، اور جب آسمان کا پردہ ہٹادیا جائے گا)
خالقِ ارض واسماء نے قیامت کے آغاز کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ پڑھ کر روح تک لرز جاتی ہے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہستی ہے، کوئی بڑے سے بڑا سائنسدان یا طاقتور ترین شہنشاہ جو ایسی بات کہنے کی جرأت کرے، ہرگزنہیں، یہ صرف ربِّ ذوالجلال کی شان ہے جس کے سوا صدیوں کی انسانی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ زمین، آسمان، سورج، چاند ستاروں میں سے کسی ایک چیز کا خالق یا کنٹرولر میں ہوں۔
تخلیق کا دعویٰ بھی اُسی کا ہے اور اس کے خاتمے کی نشاندہی بھی وہی کررہا ہے، کائنات کی ابتداء بھی اُسی نے کی اور انتہا اور فنا کا نقشہ بھی صرف وہی کھینچ سکتا ہے۔ جب سورج بے نور ہوجائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ اکھڑ کر اڑنے لگیں گے۔ جس نے سورج کو چراغ بنایا وہی اس کو بے نور کر دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
الف لام میم سے لے کر والناس تک کتاب کا ایک ہی لہجہ ہے، پُر جلال، commandingاور authoritative، اور زبان ایسی حیرت انگیز کہ شاعری نہیں مگر شاعری کا گما ن ہوتا ہے۔ عرب کے بڑے بڑے لسان اور زبان دان یہ نرالی طرز کی زبان سن کر گنگ ہو کر رہ گئے۔
کہا گیا کہ سب اکٹھے ہو کر اِس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ مگر کوئی ایسا نہ کرسکا۔ سورۃ طہٰ میں کہا گیا "یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ ان سے کہو میرا رب انھیں دھول بنا کر اڑا دے گا، اس روز ہاتھوں میں پکڑے اعمال ناموں سے ہر شخص اس قدر خوفزدہ ہوگا کہ اسے اپنے بچاؤکے سواکسی چیز کا ہوش نہیں ہوگا۔
حتٰی کہ وہ اپنے خونی رشتوں اور اپنے پیاروں سے بھی جان چھڑا رہا ہوگا اور پھر اُس روز اُن معصوم بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ انھیں کیوں بے رحمی سے قتل کر ڈالا گیا؟ مفسّر لکھتے ہیں کہ اس آیت کے اندازِ بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، معصوم بیٹیوں کو مار ڈالنے والے والدین اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسے قابلِ نفرت ہوں گے کہ ربِّ ذوالجلال انھیں مخاطب کرنا بھی مناسب نہیں سمجھے گا اور ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے براہِ راست پوچھے گا اور اس کے جواب میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنائے گی۔
ایسا ہی ایک قصّہ ایک شخص نے خود نبی کریمؐ کو سنایا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی اور مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، جب میں نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کنویں میں دھکا دیاتو اس کی آخری آواز جو میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے بابا، ہائے بابا۔ یہ سن کر نبی کریمؐ کے آنسو بہنے لگے۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے اسے روکا کہ تو نے حضورؐ کو غمگین کردیا، حضورؐ نے فرمایا، اسے مت روکو، آپ نے اس سے فرمایا اپنا قصّہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ بیان کیا تو حضور نبی کریمؐ سن کر اس قدر روئے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اب اس سے آگے پڑھنا راقم کے لیے ممکن نہ رہا کہ آنسوؤں سے کتابِ حق کے ورق گیلے ہورہے تھے۔
اتنے میں نمازِ جمعہ کی اذان شروع ہوگئی اور میں تازہ پانی کے چھینٹوں سے آنکھیں دھو کر مسجد کی جانب چل پڑا۔ تعلیم یافتہ امام صاحب قرآن کریم کی وہ آیات سنا رہے تھے جس میں توحیدِ الٰہی کے سب سے اوّلین علمبردار حضرت ابراہیمؑ اپنے والد آذر کو بے جان بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں۔ میں نے کسی مسجد میں نمازیوں کو اتنے انہماک سے امام صاحب کی باتیں سنتے نہیں دیکھا۔
مولانا بتارہے تھے "آذر نے بتوں کی عظمت کے آگے اپنے بیٹے ابراہیم کا سر جھکانے کی بڑی کوشش کی مگر ابراہیمؑ قائل نہ ہوئے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ جنھیں خود کسی نے تخلیق کیا ہے وہ دوسروں کا کیا بگاڑ اور سنوار سکتے ہیں۔ پھر اُس قوم کا سالانہ میلہ (فیسٹیول) آگیا۔
جب بستی کے تمام لوگ چلے گئے تو حضرت ابراہیمؑ کلہاڑا لے کر بت خانے میں پہنچے، تمام بت پاش پاش کر ڈالے، مگر سب سے بڑے بت کو رہنے دیا اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ میلہ ختم ہوا تو حاکمِ وقت نمرود نے حکم دیا کہ تمام لوگ گھروں کو جانے سے پہلے مندرمیں پوجا کریں گے۔
جب مندر پہنچے تو نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ نمرود نے غضبناک ہو کر پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟ کسی نے ڈرتے ڈرتے کہا بستی میں ابراہیم نام کا ایک نوجوان ہے جو مقدس بتوں کے بارے میں گستاخانہ باتیں کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ انھیں طلب کیا گیا، نمرود نے پوچھا مقدس بتوں کو کس نے توڑا ہے؟ حضرت ابراہیمؑ نے کہا "بڑے بت سے پوچھ لیجیے، کلہاڑا تو اس کے کندھے پر ہے"۔ درباری شرمندہ ہوگئے مگر نمرود نے کہا وہ کیسے بتائیں گے، وہ تو بول نہیں سکتے۔
حضرت ابراہیمؑ اسی جواب کے منتطر تھے، انھوں نے کہا جو بول نہیں سکتا، جو دوسروں کی حفاظت نہیں کرسکتا اس کی پرستش کیوں کرتے ہو؟ پرستش کا حقدار صرف خالقِ کائنات ہے۔ نمرود اس بغاوت پر غضبناک ہوگیا اور اس نے آگ کا بہت بڑا لاؤ تیار کروایا اور حکم دیا کہ ہمارے باغی ابراہیم کو آگ میں ڈال دو جب انھیں آگ کی جانب لے جایا جارہا تھا تو حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا "آپ کہیں تو یہ آگ میں اپنے پَروں سے بجھادوں۔ فرمایا نہیں۔ پھر حضرت عزرائیل نے حاضر ہو کر پوچھا، آپ کہیں تو نمرود سمیت سب کی روح کھینچ کر انھیں موت کی نیند سلادوں" فرمایا، نہیں! میرا رب جو چاہے گا وہی مجھے منظور ہوگا" اور اپنے رب کی رضا پر راضی رہنے والا اس کا بندہ بے خطر آگ میں کود گیا۔
ربِّ ذوالجلال کو یہ شانِ عبودیّت بے حد پسند آئی۔ فوراً آگ کو گل وگلزار میں بدل دیا اور ابراہیم کو خلیل اﷲ کے بلند منصب پر فائز کردیا، اس کے بعد مکّہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہنچنے کا حکم ہوا تو لبّیک اَلھُمَّ لبّیک کہتے ہوئے بندے نے فوراً اس کی پیروی کی، مگر خلیل اﷲ کے امتحان ابھی ختم نہیں ہوئے تھے، اﷲ نے اپنے دوست کو ابھی مشکل ترین امتحان سے گذارنا تھا۔
حکم ہوا کہ اپنی عزیز ترین چیز اﷲ کی خاطر ذبح کردو۔ کئی جانور قربان کردیے گئے مگر ہر رات کو خواب میں بتایا جا تا کہ "نہیں یہ قربانی قبول نہیں، تمہارے محبوب ترین کی قربانی درکار ہے"۔ ابراہیمؑ سمجھ گئے، اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو بلایا اور اسے اعتماد میں لے کر اپنے خالق و مالک کی خواہش اور رضا سے آگاہ کیا۔ جلیل القدر باپ کے عظیم بیٹے نے ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا اور فوری طور پر گردن کٹوانے کے لیے چل پڑا۔ ؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
بیٹے نے خود والدِمحترم سے گذارش کی کہ ابّا جان آپ آنکھوں پر پٹّی باند لیں تا کہ مجھے دیکھ کر آپ کی پدرانہ محبت نہ جاگ پڑے اور تیز چھری استعمال کریں تاکہ ایک ہی وار میں گردن کٹ جائے۔ جب معصوم گردن پر چھری کا وار ہونے لگا تو آسمانوں سے آواز آئی"بس! رک جاؤ، تم کامیاب ہوگئے "۔
اسماعیلؑ کی جگہ جنت سے ایک خوبصورت دُنبہ بھیجا گیا جس کی قربانی کی گئی۔ جب اس مشکل ترین امتحان میں بھی اﷲ کے عظیم المرتبت پیغمبر سُرخرو ہوئے تو مالک کو ان کی بجا آوری اس قدر پسند آئی کہ ان کی قربانی اور معصوم بچّے کے لیے پانی کی تلاش میں کی گئی حضرت حاجرہ کی سعی کو اسلام کے ایک اہم رکن کا حصّہ بنا کر قیامت تک مسلمانوں کے لیے اس کی پیروی لازم قرار دے دی، اور خلیل اﷲ کو ایسا عظیم مرتبہ عطا کیا گیا کہ دنیا کے تینوں بڑے مذاہب آج بھی اس جلیل القدر پیغمبر کو اپنا باپ مانتے ہیں۔ خود نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے"میں اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعاؤں کا ثمر ہوں"۔ امتحان کا ذکر آسان ہے مگر عمل بے حد مشکل۔ دانائے رازؒ درست فرما گئے۔ ؎
براہیمی نظر پیدا بڑی مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
خلیل اﷲ کے ایک کے بعد ایک کڑے امتحان اور اس میں سرخروئی کا ذکر امام صاحب اتنے دلپذیر انداز میں کررہے تھے کہ مجھ جیسے گناہگار کے دل کی کثافتیں آنکھوں کے راستے بہہ نکلیں، راقم نہال تھا کہ خالق کی شانِ کریمی اپنے عاجز بندے کے احساسِ گناہ اور ندامت کے قطروں کو موتی سمجھ کر چن لے گی اور آج کے سامعین میں اس اعزاز کا حقدار شاید یہ عاجز ہی قرار پائے مگر دائیں جانب بیٹھے شخص پر نظر پڑی تو اس کے آنسوؤں سے اس کی پوری قمیص بھیگی ہوئی تھی۔ غور سے دیکھا تو وہ غلام نبی تھا، ہمارے سامنے نئے گھر کی تعمیر میں کام کرنے والا مزدور، جو روکھی سوکھی روٹی کھاکر سیمنٹ کی خالی بوری بچھا کر پانچ وقت اﷲ کے حضور سربسجود ہوتا ہے۔ غلام نبی کو کڑی دھوپ میں نماز پڑھتے دیکھ کر میں شرم کے مارے سر جھکا لیاکرتا تھا مگر وہ تو آج بھی بازی لے گیا۔