آتشِ چنار قائد اعظمؒ کی شیخ عبداللہ کو نصیحت (2)
آتشِ چنار میں شیخ عبداللہ نے 1937کے انتخابات جیتنے کے بعد کانگریس کے تکبر کا خود ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، "اپنی کامیابی کے زعم میں کانگریس نے وزارتوں میں مسلم لیگ کے شامل ہونے کی کڑی شرائط عائد کیں جنھیں ماننے سے مسلم لیگ نے انکار کردیا، اگر کانگریس فراخدلی اور تدبر سے کام لیتی اور کچھ مسلم لیگی لیڈروں کو وزارت میں شامل کرتی تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا لیکن جواہر لال کی بے جا ضد کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
اس کے بعد مسلم لیگی لیڈروں کو کانگریس پر کوئی بھروسہ نہ رہا اور نہ ہی یہ اعتماد کہ کانگریس کی موجودگی میں وہ کبھی عنانِ اقتدار سنبھال سکیں گے۔ " قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کا دلچسپ احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں"ان بیانات کی وجہ سے جو میں مسلم لیگ کی سیاست کے خلاف دیتا رہتا تھا، مسلم لیگ اور میری پارٹی نیشنل کانفرنس کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی تھی، اسے کم کرنے کی غرض سے میں نے جناح صاحب کو خیر سگالی کا مکتوب لکھا، انھوں نے جواب میں مجھے دہلی آکر ملاقات کرنے کی دعوت دی۔
یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔ جناح صاحب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے لگتا تھا کہ وہ میری باتوں سے خوش نہیں ہوئے لیکن حق یہ ہے کہ انھوں نے کمال صبر سے میری گفتگو سنی اور آخر میں ایک بزرگ کی طرح فہمائش کے انداز میں کہنے لگے "میں آپ کے باپ کی مانند ہوں۔ میں نے سیاست میں بال سفید کیے ہیں اور میرا یہ کئی سالوں پر محیط تجربہ ہے کہ ہندو پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکتے۔
وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے " شیخ عبداللہ تو شاید شرمندگی اور خفت کے باعث اس کا اعتراف نہ کر سکے مگر ان کے بیٹے فاروق عبداللہ اور پوتے عمر کو قائداعظم کی یہ بات یاد رہی اور انھیں علی لااعلان کئی بار یہ تسلیم کرنا پڑا کہ "Jinnah was right and Sheikh Abbdllah was wrong"۔
سوال یہ ہے کہ جلسوں میں خوش الحانی سے تلاوت کرنے والا اور فکرِ اقبالؒ سے رہنمائی لینے والا شیخ عبداللہ سیکولر کیسے بن گیااورپاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے کانگریس کی گود میں کیسے جابیٹھا؟ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ اس کا ذاتی اور سیاسی مفاد تھا۔
وہ سمجھتا تھا کہ کشمیر میں 85% مسلمان ہیں جب کہ ہندو اقلیّت میں ہیں۔ مسلم لیگی لیڈروں کے پاس یہاں کئی آپشنزہیں مگر کانگریس کے لیڈر کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ رابطے کے لیے ہمیشہ اُس کے محتاج ہوں گے، لہٰذا اُس نے گاندھی اور نہرو کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ لیا تاکہ ہندوستان کی مدد اور آشیرباد سے وہ ہمیشہ کے لیے کشمیر پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرسکے۔
کشمیر کے بارے میں جواہر لال کی جذباتی وابستگی اور ان کی باتوں نے بھی شیخ جی کو رام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جانب محمد علی جناح صاحب اور مسلم لیگ کے دوسرے قائدین سمجھ گئے تھے کہ شیخ عبداللہ ایک ابن الوقت، مفاد پرست اور overambitious شخص ہے، اُس میں اخلاص کی کمی ہے اس لیے کشمیر میں کوئی اہم ذمے داری دینے کے لیے مسلم لیگی قیادت یقینی طور پراُس سے کہیں زیادہ مخلص رہنما چوہدری غلام عباس کو فوقیّت دیتی۔ لہٰذا شیخ عبداللہ نے اپنی قسمت کی باگ دوڑ نہرو اور گاندھی کے حوالے کردی۔
1940_50 کی اہم ترین دھائی میں برّصغیر کے سیاسی اسٹیج کے اہم ترین کرداروں کے بارے میں شیخ عبداللہ کی رائے یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ علامہ اقبال کا بار بار ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں"علامہ اقبال نے اس وقت کشمیر اور کشمیریوں کی سربلندی کے خواب دیکھے جب ہم میں سے اکثر ابھی ماں کی کوکھ میں لوریاں سن رہے تھے جب کہ علامہ اُس وقت فرمارہے تھے
مغمور ہیں دل جس کی فغانِ سحری سے
اس دیس میں مدّت سے وہ درویش ہے نایاب
مزید لکھتے ہیں" سوچا تھا کہ علامہ صاحب کو کشمیر لا کر اُن کی جی بھر کر خدمت کریں گے لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا، بعد میں ہم نے اُن کی یاد میں کشمیر یونیورسٹی میں دنیا کی پہلی مسندِ اقبال قائم کی۔ کشمیر یونیورسٹی کی لائبریری کا نام اقبال لائبریری رکھا۔ نیز ہم نے سرینگر میں اقبال کے نام سے ایک خوبصورت باغ کا بھی انتساب کیا ہے، یہ پہلے حضوری باغ تھا، اب اقبال پارک ہے۔
(اگر آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی قائدین نے ماضی میں سستی دکھائی ہے تو اب اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ آزاد کشمیر کی حکومت کچھ اہم اداروں کے نام علاّمہ اقبال کے نام سے ضرور منسوب کرے)۔ اپنے دوست اور مہربان پنڈت نہرو کی شخصیت کا جو نقشہ انھوں نے صفحہ نمبر 217پر کھینچا ہے، وہ بھی قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوگا۔ "جواہر لال نہرو صنفِ نازک سے خاصے متاثر ہوتے تھے، وہ حسین صورت اور دلکش گفتگو کے لمس سے فوراً پگھل جاتے تھے۔
بڑے بڑے اہم مواقعے پر ایسا ہوا کہ اہم ترین مباحث کے بیچ ان کی کوئی چہیتی دوست آگئیں اور وہ دنیا ومافیا سے بے خبر ہو کر ان کے ساتھ محوِرازونیاز ہوگئے۔ جب وہ ہندوستانی میں تقریر کرتے تھے تو وہ کسی انگریزی متن کا سرسری سا ترجمہ لگتی جس میں روانی اور فصاحت مفقود ہوتی، وہ مارکس کے بھی شیدائی تھے لیکن عملی طور پر نہ وہ لبرل رہ گئے تھے اور نہ پکے اشتراکی۔ ان کا حال کچھ اس طرح تھا کہ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہنچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
" اُن کی تصویر پرستی میں میکاولی کی سیاست کاری اور شعبدہ بازی کے عناصر بھی شامل ہوگئے تھے۔ جواہر لال نے میکاولی طرز کی یہ سیاست کاری کشمیر میں ہمارے ساتھ بھی برتی، پاکستان کے ساتھ بھی برتی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا مظاہرہ کیا۔ جب انھیں اپنے ذاتی مفادات پر زد پڑتی معلوم ہوتی تھی تو ان کی آنکھیں بدل جاتیں۔
جب میں ان کے لیے کارآمد نہ رہا تو مجھے جیل بھجوادیا اور جب بخشی غلام محمد کی ضرورت نہ رہی تو کسی گلے سڑے پھل کی طرح انھیں بھی کھڑکی سے باہر پھینک دیا"۔ پٹیل کے بارے میں لکھتے ہیں۔ " سردار پٹیل پرہندو احیا پرست (Revivalist) نظریات کی چھاپ تھی، وہ ہر مسئلے کو ہندؤں کے مفاد کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کا عادی تھا۔
مسلمانوں پر ان کا اعتماد بہت کم تھا اور فرقہ ورانہ فسادات میں وہ ہندو فرقہ پرستوں کی پیٹھ ٹھونکنے سے باز نہیں رہتے تھے، ایک بار جب میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو بولے کہ پاکستان کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جتنی تعداد میں ہوسکے مسلمانوں کو ہندوستان سے پاکستان میں دھکیلا جانا چاہیے تاکہ پاکستان ان کے بوجھ تلے دب جائے اور ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیک دے"۔ سردار پٹیل اپنے آپ کو ہندوستان کی وزارتِ عظمیٰ کا اصل حقدار اور ہندوؤں کی امنگوں کا ترجمان سمجھتے تھے اس لیے جواہر لال کے وزیراعظم بننے کو وہ اپنی حق تلفی خیال کرتے اور دل ہی دل میں کڑھتے رہتے تھے"۔ مولانا آزاد کے بارے میں تحریر کرتے ہیں"مولانا ابوالکلام آزاد ایک برگزیدہ دینی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے اس صدی کی ابتداء میں مسلمانوں میں بیداری کا صور پھونکاتھا لیکن حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مسلمانوں کی قیادت کے معاملے میں وہ جناح صاحب جیسے مغرب کے رنگ میں رنگے وکیل کے مقابلے میں جم نہ سکے۔ اس میں ان کے قوم پرستانہ اعتقادات کا بڑا دخل تھا"۔ (مولانامودودیؒؒ نے آزاد صاحب کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ مولانا آزاد قوم کو بیدار کرکے خود کانگریس کے پہلو میں جا کر سوگئے)مزید لکھتے ہیں"مولانا کی پوزیشن عجیب ہوگئی تھی، فرقہ پرست ہندو انھیں مسلمان سمجھ کر ان پر اعتبار نہ کرتے تھے اور مسلمان انھیں ہندوؤں کا شوبوائے (show boy) قرار دیتے تھے۔
جواہر لال اگرچہ ذاتی طور پر ان کی عزت کرتے تھے لیکن ان کے جذبات وخیالات کی کہاں تک پاسداری کرتے تھے اس کی ایک ہلکی سی تصویر مولانا کی کتاب، India wins freedom کو پڑھ کر سامنے آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں مولانا آزاد بالکل گوشہ نشین ہو کر رہ گئے تھے"۔ یعنی مولانا ابوالکلام نے مایوس ہو کر مکمل طور پر گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔ یہ پڑھ کر آزاد صاحب کی پیشنگوئیاں سنانے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔
عبدالغفار خان کے بارے میں شیخ جی نے لکھا ہے "عبدالغفار خان جب گاندھی جی کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں دہلی تشریف لائے تو میں بھی ان سے ملا۔ انھیں کانگریس کی قیادت سے زبردست شکوے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ کانگریس کے نظریات سے ان کی غیر متزلزل وفاداری کے باوجود وقت آنے پر کانگریسی رہنماؤں نے انھیں دشمنوں کے حوالے کردیا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریسی رہنما اصولوں کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے لیے لڑرہے تھے اور اس کی پہلی بو سونگھتے ہی وہ سارے اصول بھول گئے۔ باچا خان کچھ دیر ہندوستان میں رہنے کے بعد واپس کابل جانے کے لیے تیاری کرنے لگے "۔ (جاری ہے)