آنجہانی ملکہ برطانیہ کا دورۂ لاہور
آنجہانی ملکہ الزبتھ جدید تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک ایک اہم ملک کی سربراہِ مملکت رہی ہیں۔ یاد رہے کہ وہ ہمارے صدور کی طرح کاغذی یا غیر اہم قسم کی سربراہِ مملکت نہیں تھیں۔ 1952میں تخت نشین ہونے کے کافی عرصہ بعد تک وہ بااختیارملکہ رہیں، اب بھی بے اختیار ہونے کے باوجود برطانیہ کا وزیراعظم ہر ہفتے جاکر پہلے انھیں جھک کر سلام کرتا تھا اور پھر اہم معاملات پر ان سے ایڈوائس یا ہدایات لیتا تھا۔
ان کے انتقال پر میرے بھتیجے علی نے اُن کے دورۂ لاہور کی ایک تصویربھیج دی جس میں اُس وقت لاہور پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے میں ان کے ساتھ تھا، تصویر نے 1997میں ان کے دورۂ لاہور کی کچھ یادیں تازہ کردیں جو اس کالم کا محرک بن گئیں۔ جن ملکوں میں ادارے بہت مستحکم ہیں وہاں کوئی حکمران آئے یا جائے، نظامِ حکومت چلتا رہتا ہے مگر وہاں بھی نمایاں فرق افراد ہی ڈالتے ہیں۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر وزیراعظم تھیں تو عالمی مارکیٹ میں برطانیہ کی ریٹنگ بہت بلند ہوگئی۔ اُن کے فوراً بعد جان میجر وزیرِاعظم بنے تو ریٹنگ بہت نیچے چلی گئی۔
ایک روایت پرست قوم ہونے کے ناتے انگریز (جمہوریت کے دلدادہ ہونے کے باوجود) بادشاہت سے پیار کرتے ہیں، مگر پچھلی نصف صدی سے اس پیار، عقیدت اور احترام کی سب سے بڑی وجہ خود ملکہ الزبتھ کی ذات تھی۔ وہ انتہائی باوقار اور graceful خاتون تھیں، اُن سے کوئی ایسی بات یا ایسا فعل منسوب نہیں جو گریٹ بریٹن کی ملکہ کے شایانِ شان نہ ہو۔ وہ مغربی تہذیب کی پروردہ تھیں، انھوں نے جوانی میں محبت بھی کی (اور محبت ہی کی شادی کی) مگر محبت اور نجی زندگی کو محل کی دیواروں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔
کئی دہائیوں بعد جب ان کے گھر نئی نسل کی آزاد خیال بہو آئی تو گھر کی سربراہ نے بہو کو آدابِ شاہی سے روشناس کرنے اور اس کی زندگی کو شاہی روایات اور اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ شاہی بہو ڈیانا سے جب بے اعتدالیاں سرزد ہوئیں تو اس پر گرفت بھی کی۔ جب آزاد خیال بہو نے شاہی ڈسپلن اور روایات کی زنجیریں توڑ کربغاوت کردی اور سرِ عام اپنے معاشقوں کا اعتراف کرلیا تو اس کی مقبولیت میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا رہا اور پھر میڈیا نے اسے دلوں کی ملکہ قرا دے دیا، مگر باغی ڈیانا سے برطانوی عوام کی بے پناہ محبت، اُسے سرزنش کرنے والی سخت گیر ساس کے لیے نفرت کا سبب نہ بن سکی اور ملکہ کا احترام اُسی طرح قائم رہا، جس کا واضح اظہار کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہوکر ملکہ کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے والے لاکھوں لوگوں کے جذبات سے نظر آیا ہے۔
تنقید ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے، ہم میں سے کچھ نے جنازے کے اخراجات پر تنقید شروع کردی ہے۔ ارے بھائی وہ چھ ارب روپیہ خرچ کریں یا بارہ ارب، وہ کشکول لے کر تمھارے در پر تو نہیں آکھڑے ہوئے، تم اپنا آپ سنبھالو، وہ جانیں اور ان کے عوام۔
کئی عالمی شخصیات پاکستان آکر ہمارے صدر سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتیں، مگر اُدھر دنیا کی سُپر پاور امریکا کا صدر اور خاتونِ اوّل بھی ملکہ الزبتھ سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتی تھیں۔ اس میں بڑا کردار تخت کا نہیں تخت نشین کا تھا، آنجہانی ملکہ الزبتھ عالمی امور اور سیاسیات کا سات دہائیوں پر محیط گہرا تجربہ اور مشاہدہ رکھنے والی انتہائی دانا اور مدبر سربراہِ مملکت تھیں۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود مجھے ملکۂ برطانیہ سے ملنے یا ان کے ساتھ تصویر بنوانے کا ذرا بھی اشتیاق نہیں تھا۔
ہاں کچھ اور عالمی شخصیات سے ملنے کی شدید خواہش رہی جو کسی حد تک پوری بھی ہوتی رہی۔ سروس کے آغاز میں ہی ملائیشیا کے وژنری لیڈر ڈاکٹر مہاتیر سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اس لیے کہ وہ ایک چھوٹے سے ملک کو ترقی اور خوشحالی کے اوجِ کمال تک لے گئے، اور پھر وہ ا مریکی اور یورپی لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے تھے۔
میں پرائم منسٹر کا اسٹاف افسر تھا جب ڈاکٹر مہاتیر پاکستان کے دورے پر آئے، وزیرِاعظم کی طرف سے ان کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں شرکت کا کارڈ موصول ہوا تو بہت خوشی ہوئی، کھانے سے پہلے شرکاء لائن میں لگ کر باری باری معزز مہمان سے مل رہے تھے، مجھے یاد ہے پرائم منسٹر نوازشریف جس وقت ڈاکٹر مہاتیر سے میرا تعارف کروارہے تھے، وہی لمحہ سرکاری کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا۔
ساؤتھ افریقہ کے عظیم حریت پسند لیڈر نیلسن مینڈیلا کے ساتھ ملاقات کی تصویر نہیں مل سکی کہ اُس وقت کوئی کیمرہ مین پاس نہیں تھا۔ 1989 میں جب دنیا کے عظیم ترین باکسر محمد علی پاکستان تشریف لائے تو میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر ان کی سیکیورٹی کا انچارج تھا، رِنگ کے اندر بھی ان کی کارکردگی بے مثال ہوتی تھی اور رِنگ سے باہر بھی اپنی حاضر جوابی، حس مزاح، جرات مندانہ موقف اور دینِ حق سے ساتھ لازوال وابستگی کے باعث وہ پوری دنیائے اسلام کی آنکھ کا تارہ بن گئے تھے۔
کرکٹ تو خیر چند ملکوں کے علاوہ کہیں کھیلی یا دیکھی نہیں جاتی، اِتنی عزت اور شہرت کسی فٹبالر یا دنیا کے کسی بھی اسپورٹس مین کو نصیب نہیں ہوئی جتنی محمد علی کے حصے میں آئی۔ میں بڑے شوق سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھا مگر میرے سامنے چیتے کی سی پھرتی والا اور مدمقابل پر پلٹ کر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے والا وہ محمد علی نہیں تھا جسے ہم اسکرین پر دیکھا کرتے تھے، یہ تو اس کی شبیہ تھی جس کے ہاتھ پارکنسن کے باعث کانپ رہے تھے اور جو سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتا تھا، مجھے محمد علی سے مل کر خوشی کے بجائے دکھ ہوا۔
ملنے کے اشتیاق سے یاد آیا کہ ایک بار ہندوستان کے دورے کے دوران جب میزبانوں نے بھارتی فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے خانوں (شاہ رخ اور سلمان وغیرہ)سے ملاقات کرانے کی پیشکش کی تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اداکار زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں جو دوسروں کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ زبانی یاد کرکے بول دیتے ہیں، ان کے ساتھ چند منٹ گفتگو کرنے سے ان کا ذہنی افلاس بے نقاب ہوجاتا ہے۔
بہرحال ملکۂ برطانیہ کے دورے کی سیکیورٹی کے سلسلے میں بلائی گئی پہلی میٹنگ میں ہی آئی جی جہانزیب برکی صاحب نے مجھے ہدایت کردی کہ "VVIP کے ساتھ آپ خود رہیں گے" لہٰذا دوروز تک میں ملکۂ برطانیہ کے ساتھ ساتھ رہا۔
ان کے شوہرِ نامدار بھی ساتھ تھے جو ہر جگہ نظر انداز ہوتے رہے مگر وہ اب اس سلوک کے عادی ہوچکے تھے۔ اُدھر پرائم منسٹر نے شاہی جوڑے کے دورے کی میزبانی یا نگرانی کا ٹاسک گورنر پنجاب کو سونپ دیا، جس سے گورنر صاحب کو فراغت سے کچھ فراغت ملی اور کرنے کے لیے کام مل گیا۔ انھوں نے مجھے اور ڈی سی کو میٹنگ کے لیے بلایا اور ایک گھنٹہ اس پر لیکچر دیا کہ ملکۂ الزبتھ کی میزبانی "ہم سب " کے لیے کتنا بڑا اعزاز ہے۔
سابق سی ایس پی اور حال گورنر پنجاب کو ئین کہنے سے پہلے Her Majesty کہنا ایک بار بھی نہیں بھولے۔ جب ان کے سامعین زیادہ قائل نہ ہوئے تو انھوں نے ایک گھنٹہ مزید لگایا۔ گورنر اور مسز گورنر نے یہ ٹاسک جس عقیدت کے ساتھ نبھایا، اس نے سو سال پہلے کے ہندوستان کی تابعدار رعایا کی یاد تازہ کردی۔
شاہی قلعہ میں ہونے والے عشایے کی کراکری چیک کرنے کے لیے دونوں سہ پہر کو ہی پہنچ گئے اور عینی شاہدوں کے بقول بیگم صاحبہ ساڑھی کے پلو سے اور گورنر صاحب اپنی نئی ٹائی سے پلیٹیں صاف کرتے رہے۔ قبلہ گورنر صاحب کا عقیدت مندانہ بلکہ پرستارانہ انداز دیکھ کر ڈی ایس پی سٹی کہنے لگا "سر جی! گورنر صاحب برطانیہ وچ کوئی نوکری تے نہیں ڈھونڈ رَے (گورنر صاحب برطانیہ میں کوئی نوکری تو نہیں ڈھونڈ رہے۔)
ملکہ صاحبہ نیشنل کالج آف آرٹس بھی گئیں، جہاں وہ اسٹوڈنٹس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں۔ دوسرے روز برٹش کونسل نے چائے کا اہتمام کیا جس میں شہر کے چند معززین کو بھی مدعو کیا گیا۔ عمران خان اور ان کی بیگم جمائما بھی مہمانوں میں شامل تھے۔
وہاں خان صاحب مجھے بڑے تپاک سے ملے (اس سے پہلے وہ اپنی تقریروں میں بھی میرا توصیفی انداز میں ذکر کرتے رہے تھے) اور جمائما سے بھی بڑے اچھے الفاظ میں تعارف کرایا۔ ایک اور بات یاد آرہی ہے کہ ملکہ محترمہ جہاں جاتیں وہاں اُس وقت کے کمشنر لاہور پہلے ہی پہنچے ہوتے اور معزز مہمان کو کار سے اترتے ہی اپنی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب پیش کرتے اور ساتھ تصویر بنواتے۔ جب تیسری یا چوتھی بار انھوں نے کتاب پیش کی تو باوقار ملکہ نے کسی حد تک ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "آپ ساری کتابیں مجھے ہی پڑھانا چاہتے ہیں۔
کچھ ریڈرز کے لیے بھی رہنے دیتے۔ " شاہی جوڑے کو الوداع کہنے کے لیے گورنر، وزیرِاعلیٰ ساری کابینہ اور سینئر بیوروکریٹ بمعہ بیگمات ایئرپورٹ پر موجود تھے، ملکہ کو رخصت کرکے میں گھر پہنچا ہی تھا کہ میرا فون بج اٹھا، دوسری جانب قبلہ گورنر صاحب تھے جو بیحد Excitedتھے اور تاجِ برطانیہ سے لازوال وفاداری اور فرمانبرداری کی سرشاری میں ڈوبی ہوئی آواز میں بار بار کہہ رہے تھے کہ "آپ کو بے حد مبارک ہو، شاہی جوڑا بے حد خوش تھااور آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ان کی خوشی ہمارے لیے کتنے فخر کی بات ہے" ہمسایہ ملک میں ششی تھرور جیسے لوگ کتابیں لکھ دیتے ہیں۔
افریقہ کے لیڈر بھی انگریز سامراج کے مظالم اور زیادتیوں پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ مگر ہمارے لیجنڈری استاد شیخ امتیاز علی صاحب کے بقول ہماری ایلیٹ کلاس کی رگ و پے میں اتری ہوئی انگریزکی غلامی کے اثرات پانچ نسلوں کے بعد ہی کم ہونگے۔