1.  Home/
  2. Zubair Rehman/
  3. Aalmi Aur Mulki Halat Ka Pas Manzar

Aalmi Aur Mulki Halat Ka Pas Manzar

عالمی اور ملکی حالات کا پس منظر

کورونا جیسی سنگین وبا کے پھیلاؤ کے باوجود سابق امریکی صدر ٹرمپ جیسے لوگوں نے اس وائرس کو "ووہان وائرس" یا "چینی وائرس" کہہ کر اس کی احتیاط میں لاپرواہی کی۔ ٹرمپ نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر الگ الگ اقدامات کو عالمی ادارہ صحت کے ذریعے مربوط کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں تفریق پیدا کی۔ ایک میڈیکل جریدے لانسٹ کے مدیر نے تبصرہ کیا "یہ سائنسی پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔" اس نے پہلے ہی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 24 جنوری 2020 کو جاری کی گئی خبرداری کے مطابق اقدامات میں تاخیر کی نشاندہی کی تھی۔

ہر سال 12.4 ملین ایکڑ جنگلات کو مستقل طور پر زرعی اجناس کی کاشت کے لیے زرعی زمین میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف تمام کارپوریٹ اور حکومتی وعدوں کے برعکس ان اعداد و شمار میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ خواتین کو عدالتوں یا سینئر وکیلوں کے عہدوں تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ امریکا میں سپریم کورٹ کے 112 ججز میں صرف 4 خواتین ججز ہیں۔ خواتین جن گھروں کی مالک ہوتی ہیں، ان کی ملکیت اور تحفظ محدود ہوتا ہے۔

جاپان میں 30 فیصد کا ہدف بھی پورا نہ ہو سکا۔ وہاں صرف 15 فیصد ڈائریکٹرز خواتین ہیں۔ جرمنی میں بھی یہی صورتحال ہے، اگر کچھ وسائل کا رخ غریبوں کی طرف موڑا بھی جاتا ہے تو اس سے سماج میں موجود بنیادی نابرابری کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ ضرورت مند خاندانوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

ادھر وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بہت سی تحریکیں اچانک ابھریں اور اکثر بہت آگے چلی گئیں۔ کچھ اپنے کارکنوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے سست پڑ گئیں اور کچھ متبادل طریقہ کار کی طرف چل پڑیں۔ بیلاروس کی جمہوری سرکشی 24 مئی 2020 سے چل رہی ہے اور 8 مہینوں سے ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لوئی ویل (امریکا) میں پولیس کے ہاتھوں مرنے والی بریونا ٹیلر کو انصاف دلانے کے لیے مظاہرے 220 دن سے جاری ہیں جن میں اکثر جھڑپیں بھی ہوتی ہیں۔

ان کی کوئی پارٹی ہے اور نہ لیڈر۔ جنوبی افریقہ کی حکومت میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن یہ خواتین حکمران طبقات کی نمایندگی کرتی ہیں نہ کہ غریب خواتین کی۔ سائنسدانوں کی طرف سے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اقدامات کی آوازیں دن بہ دن بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔ عوامی فلاح اور سماج کو آگے بڑھانے کے لیے نئی سرمایہ کاری مزدوروں کا استحصال کے سوا اور کچھ نہیں۔ تقریباً تمام تر دولت ایک اقلیتی طبقے کے پاس ہے۔ دنیا کی 100 فیصد آبادی کے پاس 85 فیصد دولت ہے لیکن یہ پوری دولت ان مالکان کی بجائے محنت کشوں نے تخلیق کی ہے۔ آج سے کرہ ارض پر ریاست کی جو مختلف شکلیں موجود ہیں انھیں تاریخی مادیت کے تصور کے تحت خطوں کی جغرافیائی کیفیتوں، تقاضوں اور طرز ارتقا کی مخصوص شکلوں کی وضاحت کرتے ہوئے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ٹیکس جمع کرنے کا نظام جو کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، بہت پسماندہ، خستہ اور بدعنوان ہے۔ جہاں عوام میں ریاست کی طرف سے ان کے بنیادی مسائل حل نہ کرسکنے کی وجہ سے ٹیکس دینے سے گریز کا رجحان ہے وہاں ٹیکس چوری کاروباری طبقے کی طرف سے عام ہے۔ اسی لیے ناگزیر طور پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو درمیانے طبقے اور محنت کش عوام کے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ ہماری نحیف معیشت کا بحران اس قدر شدید ہوتا گیا ہے کہ حکمران طبقات کے دانشور اور تجزیہ نگار اس طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ چنانچہ میڈیا پر معیشت جیسے بنیادی عنصر پر بحت بہت کم ہوتی ہے، اگر ہو بھی تو اسے کرپشن کے ساتھ گڈ مڈ کرکے انتہائی بھونڈا اور لایعنی بنا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کی جی ڈی پی سے شرح 15 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ ہندوستان میں یہ شرح 32 فیصد، سری لنکا میں 36 فیصد اور بنگلہ دیش میں 40 فیصد تک ہے۔ اس حوالے سے 175 ممالک میں سے پاکستان کا151 واں نمبر بنتا ہے، اس کم سرمایہ کاری کی وجہ سے پھر کم پیداواریت کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق ملکی معیشت ایک ایسے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے جس میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے شرح نمو کم ہے اور پھر کم شرح نمو سے بچتیں بھی کم ہوتی ہیں جو ایک بار پھر کم سرمایہ کاری کے مسئلے کو جنم دیتی ہیں۔ سی پیک سے نسبتاً بڑے پیمانے کا انفرااسٹرکچر ضرور تعمیر ہوا ہے لیکن اس نے پاکستانی سرمایہ داری کے تضادات کو بھی بھڑکا دیا ہے۔ اسی طرح ملک کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق جاری مالی سال کے دوران ملک کی معیشت صرف 0.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ بچوں کی تقریباً آدھی تعداد کی ذہنی و جسمانی نشوونما نامکمل ہے۔ 50 فیصد خواتین خون، نمکیات اور وٹامنز کی کمی کا شکار ہیں۔ 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام سے دوچار ہے اور اس سے بھی زیادہ تعداد کسی نہ کسی طرح آلودہ یا مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ 82 فیصد پائپ لائنوں کا پانی جراثیم یا مضر صحت مادوں سے آلودہ ہے۔

معصوم بچوں سے جنسی زیادتی، عورتوں پر تیزاب گردی، غیرت کے نام پر قتل، زندہ جلائے جانے اور "موب جسٹس" کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نظام کے بحران نے سماج کو کس قدر تعفن زدہ کردیا ہے۔ بے روزگاری کی حقیقی شرح 50 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر انسانی ترقی کے اعشاریے جس میں اوسطاً عمر شرح خواندگی اور فی کس آمدن کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کے لحاظ سے پاکستان کل 189 ممالک کی فہرست میں مزید گراوٹ کے ساتھ 154 ویں نمبر پر آچکا ہے۔

حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ برائے 2020 اور 21 کے مطابق ملک میں بے روزگاری 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کی توقع ہے۔ مزدوری کی بے روزگاری کے خلاف اداروں کی بنیاد پر جوائنٹ ایکشن کمیٹیوں، مزدور اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی بنیادی زیادہ مستحکم ہوتی ہیں۔ گرینڈ ایمپلائیز الائنس اور آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز اینڈ لیبر تحریک کی بنیاد پر ملک کی سطح کے اتحاد نمودار ہوئے ہیں۔ مزدوروں کا یہ اتحاد آیندہ بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر مزید ریڈیکل انداز میں ابھر سکتا ہے۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo