مودی کا وار
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ مودی نے اچانک نہیں کیا بلکہ یہ حالیہ بھارتی انتخابات سے پہلے بی جے پی کے منشور کا حصہ تھا۔ مودی نے چونکہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے الیکشن لڑا اور اسے دوتہائی اکثریت مل گئی، لہذا اس نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ جب کہ ہماری حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں کی اس طرف توجہ ہی نہیں تھی، اس لیے کوئی تیاری بھی نہیں کی گئی کہ اگر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا جاتا ہے تو پاکستان کیا کرے گا۔ یہاں تک کہ کشمیر کاز کی چیمپئین جماعتیں بھی اس حوالے سے مکمل بے خبر رہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ہمارا انتہائی غیر ذمے دارانہ رویہ تھا جس سے فائدہ اٹھا کر مودی حکومت نے کشمیری عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کاموقع اس سال 14فروری پلوامہ خودکش حملے نے مہیا کیا۔ ذرا غور کریں اس سال اپریل مئی میں بھارتی الیکشن ہونے تھے اور انتخابات سے عین چند ہفتے پہلے نریندرمودی کو دو تہائی اکثریت دلوانے کے لیے پلوامہ حملہ کرایا گیا۔ سوال یہ کہ آخر وہ کون سی نادیدہ قوت تھی جس نے مودی حکومت پر یہ مہربانی کی۔ پلوامہ حملے سے صرف چند ماہ پہلے 2018 کے آخر میں انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہار رہی تھی۔ پلوامہ حملہ مودی حکومت کے لیے خیر مستور ثابت ہوا کہ اس نے مودی حکومت کی خراب کارکردگی پر پردہ ڈالا حالانکہ بھارتی عوام نے گزشتہ سال ریاستی انتخابات میں مودی حکومت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ نہ پلوامہ حملہ ہوتا نہ مودی کو دوتہائی اکثریت ملتی اور نہ ہی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوتی۔
پلوامہ حملہ کشمیریوں اور پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ نریندرمودی تاریخی کامیابی ملی۔ مودی نے پلوامہ حملے کو اپنی انتخابی مہم کے دوران قوم پرستانہ جذبات ابھارنے کے لیے بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی نے بازی پلٹ دی۔ لیکن ہوا یہ کہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پچاس سال بعد پھر زیر غور آیا اور یہ پھر سے عالمی ایشوبن گیا ہے۔ پوری دنیا کامیڈیا اس وقت کشمیریوں کی حمایت میں بول رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اکنامسٹ اور بی بی سی مسلسل کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ جینو سائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل عام کا خطرہ ہے۔ عالمی برادری مسلمانوں کی نسل کشی روکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ جینو سائیڈ واچ امریکی این جی او ہے جس نے نسل کُشی کا الرٹ جاری کیا ہے۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی میرے بس میں ہوا، کروں گا۔ انھوں نے مقبوضہ وادی کی صورت حال کو دھماکا خیز قرار دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر جب ثالثی کی بات کی تو بھارت میں کہرام مچ گیا۔ حالانکہ ان کی بات مشروط تھی کہ اگر بھارت رضامند ہو تو۔ بھارت نے صورت حال بھانپ لی چنانچہ مودی نے اس سے پہلے کہ عالمی دباؤ بڑھے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اب امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت پوری دنیا مودی پر زور دے رہی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالے۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل میں کشمیر کے مسئلے کا کیا حل نکل سکتا ہے؟ ٹرمپ ہو یا عالمی برادری مل کر بھی ہمیں کشمیر طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کر سکتے کہ یہ ناممکن ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر دونوں ملک ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو شاید روایتی جنگ نتیجہ خیز ہوتی لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جو بھی روایتی جنگ ہارے گا فوراً ایٹمی بٹن دبا دے گا۔ تو اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ پہلا اٹل بہاری واجپائی، دوسرا مشرف من موہن سنگھ فارمولہ۔ اب ہم چاہیں نہ چاہیں انھی دونوں میں سے مسئلہ کشمیر کا حل نکلے گا۔
کشمیر کے حوالے سے ہم نے کیا کچھ نہ کیا یہاں تک کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ پھر اس کا حل ہمیں اسٹرٹیجک گہرائی میں نظر آیا تو اس طرف دوڑ پڑے جو نظر کا دھوکا ثابت ہوا۔ پھر طالبان پھر القاعدہ یہاں تک کہ ہم نے رستہ ہموار کرنے کے لیے الطاف حسین، نواز شریف تخلیق کر ڈالے۔ غلطیوں پر غلطیاں ہیں۔ پہاڑ جیسی غلطیاں۔ آخر میں ہم نے پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا شروع کر دیا۔ یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوا۔ چنانچہ رد عمل میں بھارتی ہندووں نے بھارت کو ہندو ریاست بنانا شروع کر دیا۔ انھوں نے پاکستان کے اس مذہبی ہتھیار کا توڑ سیکولر ازم کا کریا کرم کر کے کیا۔ اب بھارت اگلی کئی نسلوں تک ہندو ریاست ہے۔ وہاں پر بھی مذہب کا جن پاکستان کی طرح بوتل توڑ کر باہر آ چکا ہے۔
جیسے جیسے ضیاالحق دور میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی گئی رد عمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت میں اس سے کئی گنا رفتار سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک موجودہ صورت حال اس کی کامیابی کا نقطہ عروج ثابت ہوئی۔ دوسرا ضیا الحق کی مذہبی شدت پسندی نے یہ دن دکھلائے کہ آج بھارت کے 20 کروڑ مسلمان اچھوت بن گئے، ان کا بھارت کے سیاسی نقشے میں وجود یا عدم وجود برابر ہو گیا ہے۔ کچھ سادہ لوح وہمی پاکستان کا وجود خطرے میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے پاس افغانستان ٹرمپ کارڈ ہے۔
افغان لیڈر گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ امریکا کے بعد افغانستان میں نئی حکومت چند ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ بقول ٹرمپ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو افغانستان میں امن لا سکتا ہے۔ یہ امن استحکام امریکا کو افغانستا ن میں کم از کم اگلے پانچ سال تک چاہیے۔ صدر ٹرمپ یہ ساری بازی پاکستان کے ذریعے جیتنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ نومبر میں ایف اے ٹی ایف کا پھندا پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
پچھلے سال کے آخر اور اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر جولائی اگست سے اکتوبر نومبر اپنی تاریخ کے انتہائی اہم ترین مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
میں نے گزشتہ جولائی میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی تاریخ ساز کامیابی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ وہ خطے میں امن کے لیے امریکا، چین اور روس سمیت عالمی قوتوں کی ضرورت بن گئے ہیں۔