ماحولیاتی آلودگی اورتباہی کے خطرات
آنے والا وقت جو بہت زیادہ دور نہیں ہمیں قیامت صغری کا سامنا کرنا پڑے گا یا قیامت کبری کا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن اس بارے میں عالمی سائنسدان بہت پریشان ہیں۔ اپنی حکومتوں سے انھیں گلا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے یا نکل گیا ہے لیکن حکومتیں اس بارے میں کوئی اقدام نہیں کر پا رہیں۔
مغربی میڈیا اور وہاں کے عوام اس بارے میں غیر معمولی حساس ہیں۔ لیکن ہم جیسے تھرڈ ورلڈ کے عوام جن کی زندگیاں پہلے ہی حکومتوں کے ہاتھوں بدترین بنی ہوئی ہیں انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کرہ ارض پر ماحولیاتی بگاڑ قیامت ڈھانے جارہا ہے۔
غریب ممالک کے عوام جن کی زندگیاں پہلے ہی تلخ ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ایسی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ ہم کل کے بجائے آج ہی مرجائیں۔ یہ ہمارا نہیں ان کا معاملہ ہے جو زندگی آسان اور خوشگوار گذار رہے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد کے ماضی میں بھی اندھیرا تھا۔ حال بھی اندھیرا ہے ان کی آیندہ نسلوں کا مستقبل بھی تاریک رہے گا۔ یہ تومایوسی کی انتہاہے لیکن حقیقت کے قریب تر ہے شاید اس میں مبالغہ بھی نہیں۔ کیونکہ زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی عوام کو اس حوالے سے آگاہی دینے میں ناکام ہے کیونکہ اس کو بھی اپنی ریٹنگ سیاسی موضوعات میں ہی نظر آتی ہے۔ ماحولیات جیسے موضوعات سے ان کا کیا لینا دینا۔
ان حالات میں مایوسی کومزید بڑھانے کے لیئے ایک رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ ماہرین ماحولیات نے خبردار کیاہے کہ کرہ ارض کے ماحول کے لیے اہم سمجھی جانے والی سمندری ہواؤں کا ایک سٹم جسے گلف اسٹریم کہاجاتاہے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے۔ رپورٹ کے مطابق تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران گلف اسٹریم کے مستحکم رہنے کا سلسلہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ گلف اسٹریم بنیادی طور پر سمندر کی وہ لہریں ہیں جو اب تقریباً بندہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ گلف اسٹریم شمالی بحراوقیانوس میں بہنے والا گرم پانی ایک بڑا سمندری بہاؤ ہے۔
یہ بہاؤ خلیج میکسیکو سے نکلتا ہے اور مغربی یورپ کے ساحل تک شمال مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ یہ لہریں پہلے ہی گزشتہ 1600برس سے ست روی کا شکار تھیں گلف اسٹریم شمالی امریکا کے مشرقی ساحلوں اور یورپ کے مغربی ساحلوں کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتاہے۔ پانی کے اسی بہاؤ کی وجہ سے دنیا کے مختلف موسموں میں اعتدال کمی یا شدت آتی ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق اگر گلف اسٹریم بند ہوگئی تو اس سے دنیا بھر کے موسموں پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔ بارشوں کا نظام بگڑ جائے گا۔
جس سے بھارت جس کے ساتھ ہم بھی شامل ہیں اور جنوبی امریکا اور مغربی افریقہ جیسے خطوں کو بے موسمی ہلاکت خیزبارشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر وہ ممالک جن کا انحصار زراعت پر ہے وہاں طوفانی بارشیں معمول بن جائیں گی۔ جس کے نتیجے میں تیار فصلیں خاک کا ڈھیر بن جائیں گی۔ دوسری طرف یورپ بھر میں درجہ حرارت انتہائی کم ہوجائے گا اور امریکا کے مشرقی ساحلی علاقوں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق سٹم کی موجودہ غیر مستحکم حالت دیکھ کر اس نظام کے مستقبل کے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ یہ بچ جائے گا یا نہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کوشش کرنا ہوگی کہ یہ سٹم تباہ نہ ہو۔ جرمنی کے ماہرکا کہنا ہے کہ یہ نظام تباہ ہونے کی وجہ سے جوتباہی آنے والی ہے اس کے امکانات بہت ہی خوفناک اور ڈراؤنے ہیں۔
ایک ایسا حادثہ ہونے جا رہا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کسی صورت رونما نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ معلوم نہیں کہ فضامیں ماحول دشمن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی کتنی مقدار کی وجہ سے یہ نظام تباہ ہوجائے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس گیس کا اخراج دنیا بھر میں کم کر دیا جائے۔ کیونکہ ہمارے ماحول میں اس گیس کے ہرنئے گرام کا اضافہ تباہی کو قریب لارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی قدرت کی طرف سے نہیں آرہی بلکہ یہ سب انسان کا کیا دھرا ہے۔ جس سے دنیا کا ماحول تباہ و برباد ہورہا ہے۔
یعنی یہ صرف حضرت انسان ہی ہے کہ جس کرہ ارض پر رہ رہا ہے اسی کے ساتھ دشمنی کی انتہا کر رہا ہے۔ یعنی جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا۔ اسی سے انسان کی عقل سمجھ کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ لیکن دنیا کے بیشتر انسانوں کو آج بھی اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں، احساس تو اس وقت ہوگا جب وہ باخبر ہوں گے جب کہ وہ سرے سے ہی بے خبر ہیں۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق اگریہ سٹم تباہ ہوگیا تو یورپ بھر میں درجہ حرارت منفی سات تک کم ہوجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق گرم پانی اگر بحراوقیانوس سے یورپی ساحلوں تک نہیں پہنچے گا تویورپ میں درجہ حرارت معتدل رہنے کی بجائے مزید سرد ہوجائے گا جس سے سردی شدید ترین ناقابل برداشت ہو کر انسانی زندگیوں کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کردیگی۔ اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ قابو سے باہر ہونے والی ہے۔ تازہ رپورٹ میں خبردار کیاگیا ہے کہ جس حساب سے گیسزکا اخراج جاری ہے ایک دہائی میں درجہ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں دنیا بھر میں گلیشئر اور قطب شمالی میں موجود برف پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ 90 فیصد تک انسانی عوامل ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ شدید گرمی پڑنا اب عام ہوتا جائے گا۔ پہاڑی اور قطبی گلیشیر کئی دہائیوں یا صدیوں تک پگھلتے رہیں گے۔ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق اگر اگلے چند سالوں میں گیسوں کے اخراج میں کمی نہ کی گئی تو قیامت صغری وقت سے پہلے بھی آسکتی ہے۔
گزشتہ سال اسی کالم میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ 14 اگست اور 23 مارچ کو شجر کاری دن کے طور پرمنایاجائے۔ حکومت نے اس دفعہ 14اگست کو شجر کاری دن قرار دیاہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہر فیملی ان دوقومی دنوں میں ایک ایک درخت لگائے اور ایک سال تک اس کی نگہداشت کرے تو پاکستان صرف ایک سال میں ہی سرسبز ہرا بھرا ہوکر ماحولیاتی تباہی بڑھتی ہوئی شدید گرمی سے کافی حدتک چھٹکارا پاسکتاہے۔ ذرا عمل کرکے تو دیکھیں۔ ماحولیاتی تباہی سے بچ نکلنے کا اس سے آسان قلیل مدتی نسخہ کوئی اور نہیں۔