چین کی ترقی اور پاکستان
چینی صدر شی چن پنگ نے عالمی طاقتوں کو خبردار کیا ہے کہ اب چین کو ڈرانے دھمکانے کا وقت چلا گیا۔ کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سردیوار چین پر مار کر پاش پاش کردیں گے۔ بیرونی طاقتوں کے خلاف پنجہ آزمائی میں کوئی ہمیں طاقت اور اختیار میں کم نہ سمجھے۔ ہمارے ڈیڑھ ارب عوام کمزور نہیں پڑیں گے۔
غیر ملکی افواج کو بدمعاشی نہیں کرنے دیں گے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے پارٹی کی جانب سے چین کو تباہ کن جا گیردارانہ سٹم سے نجات دلانے اور سوشل مارکیٹ بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی چین کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے لیکن کمیونسٹ کے پارٹی اراکین کی تعداد صرف ساڑھے 9 کروڑ ہے۔
کہاجاتا ہے کہ کسی بھی نظریاتی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو رکن بنائے جو آزمائے ہوئے ہوں اس طرح کسی کو رکن بننے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ یہ آسان کام نہیں تاکہ انقلاب ہائی جیک نہ ہوسکے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی یکم جولائی 1921 کو قائم ہوئی۔ آجکل اس حوالے سے چین میں سوسالہ جشن منایا جارہا ہے۔ اب چین دوسرے بڑے تاریخی ہدف کی جانب گامزن ہے وہ ہے ایک مضبوط جمہوری مہذب سماجی وماحولیاتی اعتبار سے ہم آہنگ اور جدید سوشلسٹ ملک جو دنیا کی تاریخ کے سب سے ترقی یافتہ اور خوش حال معاشرے کی تشکیل کرے گا اور یہ ہدف 2049 تک حاصل کر لیاجائے گا۔
چین نے پچھلی چند دہائیوں جو ترقی کی ہے اس پر دنیا حیرت بدنداں ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق چین کی مجموعی پیدوار 2026 میں امریکا سے زیادہ ہوجائے گی ہمیں پتہ ہے کہ معاشی بالادستی ہی فوجی بالادستی کی بنیاد ہے۔ جیسا کہ اس وقت امریکا کی ہے۔ اسی بنیاد پر امریکا اپنے اتحادیوں سمیت پوری دنیا کو ڈکٹیٹ کرتا ہے تیسری دنیا کے کمزور غریب ممالک تو اس کی ناراضگی کی تاب تک نہیں لاسکتے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا نے جاپان بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ چار طاقتی اتحاد بنالیاہے۔
چین اس وقت اپنا معاشی سیاسی اثرورسوخ انتہائی کامیابی سے افریقہ لاطینی امریکا تک پھیلا چکا ہے۔ اس کے پیچھے فلاسفی یہ ہے کہ جس جگہ جاؤ اسے بھی معاشی ترقی دو اور خود بھی اپنے اسٹرٹیجک مفادات پھیلاؤ۔ چین کے معاشی پارٹنر تمام ممالک کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ سرمایہ چین کا ہو اور ترقی ان کے ملک کی ہو۔ جب کہ سامراجی ملک تیسری دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں کے قدرتی وسائل کی سستے داموں لوٹ مار کی جس سے وہاں غربت اور بے روزگاری مہنگائی کا طوفان پیدا ہوا۔ برازیل اور نائیجریا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
چین میں وہ جمہوریت رائج نہیں جو باقی دنیا میں ہے۔ کیمونزم پر سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی نے دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے فروغ میں فیصلہ کن کردار اداکیا۔ جہاں بھی برطانوی فرانسیسی نو آبادیات تھیں وہاں وہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہوئی۔ کیونکہ ان ممالک میں سامراجی امدادیں اسی شرط سے مشروط تھیں۔
چنانچہ نوآبادیات آزاد ہونے کے باوجود اپنے پرانے آقاؤں کے کنٹرول میں رہیں مقامی حکمران طبقات کے ذریعے۔ سوویت یونین کے زیر اثر مشرقی یورپ اور دنیا کے کچھ دوسرے ممالک تھے۔ عالمی وسائل پیداوار پر قبضے کی وجہ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کا فروغ تیزی سے ممکن ہوتاگیا۔
جو بالواسطہ طور پر سامراجی شکنجے کی مضبوطی کا باعث بنا۔ امریکا یورپ اور تیسری دنیا میں جو جمہوریت رائج ہے دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ تیسری دنیا میں رائج جمہوریت کا مقصد عوام کو خود مختارنہیں بناتا کہ وہ اپنے ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرتے ہوئے اپنے قدرتی وسائل کو سامراجی لوٹ مار سے بچا سکیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے نہ ملک وقوم ترقی کرسکتے ہیں نہ انسانوں کی غربت بے روزگاری دور ہو سکتی ہے کہ غریب عوام کے نمایندے امیر ترین افراد ہوتے ہیں۔
عوام کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ نتائج کیانکلیں گے کس کے حق میں نکلیں گے اس کا فیصلہ حکمران طبقات کرتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت پاکستان میں نافذ ہونے کا ابھی دور دور تک امکان نہیں کیونکہ ہمارا محل وقوع ہی ایساہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر بھی یہاں سرداری جاگیرداری نظام ہے۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی مشرق وسطی سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ سرداری جاگیرداری نظام بادشاہتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک خاص مائنڈ سیٹ کو فروغ دیتے ہوئے ایک ایسی سوچ کو تقویت دیتے ہیں جوہزاروں سال قدیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 74سال گزرنے کے بعد آج بھی ملک میں محدود جمہوریت رائج ہے ایرانی انقلاب کے بعد سے جب خطے میں امریکا مخالف جذبات اپنی انتہا پر پہنچ گئے تو پاکستان کو ان اثرات سے بچانے کے لیے امریکا نے کنٹرول ڈیموکریسی کا نسخہ متعارف کرایا۔
امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد امریکی دورے سے واپسی پر افغانستان کے عبداللہ عبداللہ نے بیان دیا کہ افغانستا ن کی تقسیم کا خطرہ ہے"۔ ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا آغاز افغانستان سے ہوسکتا ہے یعنی افغانی اور پاکستانی پشتون بیلٹ۔ اس طرح مشرقی وسطیٰ کی غیر فطری تقسیم کے خاتمے کا آغاز ہوگا۔ ہمارے خطے کو نئی شکل دینے کے لیے اس سے زیادہ موزوں وقت کوئی اورنہیں۔ سعودی عرب بڑی تیزی سے اندرونی تبدیلیاں لارہاہے۔ طالبان کا اسلامی ریاست کا خاص تصور اور عمران خان کا ریاست مدینہ کا کمبینشن زبردست ہے۔ اس تمام صورت حال میں مسئلہ کشمیر کا بھی کوئی نہ کوئی" حل" نکل آئے گا۔