امریکا ایران تنازع
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ٹیلی ویثرن پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا سے بات چیت اب بھی ممکن ہے۔ حکومت فوجی تصادم یا جنگ روکنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ ایرانی صدر نے اپنی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہوں۔ انھوں نے یورپی ملکوں کی جانب سے ایران پر وعدہ خلافی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کے حوالے سے یورپی ملکوں کا دعویٰ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ تینوں یورپی ممالک فرانس، برطانیہ، جرمنی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سازشوں کے خلاف کچھ نہیں کیا ہے اور 28 یورپی ممالک ہمیں بتائیں کہ اب تک جوہری معاہدے کے حوالے سے انھوں نے کیا قدم اٹھایا ہے۔ ان ممالک نے اس معاہدے کے حوالے سے کچھ کام نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف ایران نے یوکرین طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کو معاوضہ دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ ایران کی مرکزی انشورنس کمپنی کے سربراہ نے بتایا کہ یوکرین کا جہاز انسانی غلطی کی وجہ سے ایران میں تباہ ہوا جس کی وجہ سے حکومت متاثرہ خاندانوں کو ادائیگی کے سلسلے میں اچھا تعاون کرے گی۔
ایران کی مسلح افواج نے یوکرین کے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اور فوجی حکام کی جانب سے ایران کے بعض مقامات جس میں مقدس مذہبی مقامات بھی شامل ہیں دی جانے والی دھمکیوں اور علاقے میں فضائی اقدامات بڑھ جانے کے پیش نظر ایران کی مسلح افواج ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہائی الرٹ ہو گئی تھیں۔
عراق میں امریکا کے فوجی اڈوں پر اس کے جنگی طیاروں کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور ریڈار میں اس کے اہداف کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس قسم کی بحرانی صورتحال میں یوکرین کا بوئنگ طیارہ اڑان بھرتے ہوئے سپاہ پاسداران کے حساس مرکز سے نزدیک ہو کر بد قسمتی سے ایرانی میزائلوں کا نشانہ بن گیا۔ فیصلہ کرنے والوں نے بتایا کہ ہمارے پاس صرف دس سیکنڈ تھے جس میں ہمیں فیصلہ کرنا تھا۔ انھی دس سیکنڈ میں ہمیں فیصلہ کرنا تھا کہ ہمیں جوابی کارروائی کرنی ہے یا نہیں۔ ان حالات میں ہم نے غلط فیصلہ کیا۔ مواصلاتی نظام میں خامی اس سانحے کا باعث بنی جو مسافر بردار طیارے کو شناخت نہیں کر سکا۔
اس حادثے کے بعد ذمے داران کا کہنا تھا کہ کاش ہم بھی ان مسافروں کے ساتھ ہی مر جاتے۔ کسی مسافر بردار طیارے کے میزائل کے حملے سے تباہ ہونے کا ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی تین مسافر بردار طیارے حملوں کا نشانہ بنے۔ ایک ملائیشین طیارہ 2014 میں یوکرین کی فضائی حدود میں نشانہ بنا جس میں 298 افراد ہلاک ہوئے جب کہ دوسرا مسافر بردار ایرانی طیارہ اس میزائل کا نشانہ بنا جسے امریکی بحری جنگی جہاز سے چلایا گیا۔ جس میں 290 افراد لقمہ اجل بنے۔ اس کے بارے میں ایران کا دعویٰ تھا کہ اس طیارے کو غلطی سے نہیں بلکہ امریکا نے دانستہ نشانہ بنایا۔ امریکا نے اس حادثے پر نہ ہی معافی مانگی بلکہ طیارے گرانے والے افسر کو ایوارڈ سے نوازا۔ یوکرینی طیارہ جو ایرانی میزائل کا نشانہ بنا اس میں 176 افراد سوار تھے۔ اس میں 82 ایرانی تھے۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 63افراد تھے۔ جب کہ باقیوں کا تعلق یوکرین، سویڈن، افغانستان اور برطانیہ سے تھا۔
معروف امریکی دانشور نوم چو مسکی نے ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اقدامات عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اخبار کو انٹرویو میں نوم چومسکی نے کہا کہ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل سلیمانی کا قتل دہشت گردی اور بین الاقوامی اصولوں، قوانین کے منافی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایرانی جنرل کا قتل اسرائیلی انٹیلی جنس کی فراہم کردہ معلومات کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ایک امریکی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق میں امریکا کے عین الاسد فوجی اڈے پر ایرانی حملے سے غیر معمولی نقصان ہوا اور کم از کم دس مقامات تباہ ہوئے۔ امریکی ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی حملے میں امریکی فوجیوں کے رہائشی کوارٹر تباہ ہو گئے۔
تا ہم ایڈوانس وارننگ سسٹم کے باعث جانی نقصان نہیں ہوا۔ فوجی اڈے تک رسائی پانے والی صحافی کو امریکی فوجی نے بتایا کہ حملے کا منظر بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔ لیکن احتیاطی تدابیر اور محفوظ مقامات پر منتقلی سے جان بچ گئی۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے سے امریکا کے عالمی طاقت ہونے کا غرور خاک میں مل گیا۔
امریکی پروپیگنڈا میں کتنی سچائی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نامور امریکی اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی نے ہی صدر ٹرمپ کے جنرل سلیمانی پر لگائے گئے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ خفیہ ایجنسی نے کہا ہے کہ اس کے علم میں نہیں کہ سلیمانی امریکا کے چار سفارتخانوں پر حملے کی سازش کر رہے تھے۔
انٹیلی جنس اہلکاروں نے امریکی اخبار کو بتایا کہ صرف بغداد میں امریکی سفارتخانے کے خلاف سازش کا علم تھا لیکن وہ بھی غیر واضح تھا۔ جنرل سلیمانی کے حوالے سے پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے صرف ایران کی نہیں پورے عالم اسلام عربوں اور مسلمانوں نے پاکستان کی جنگ لڑی ہے۔ مقررین میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی شامل تھے۔
مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ایران کی جنگ دنیائے اسلام کی جنگ ہے اور اس کا ٹارگٹ اسرائیل ہے۔ جو مسلمانوں کے مسائل کی جڑ ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد امریکا نے ایران کو خطرہ بنا کر اربوں ڈالرز کے ہتھیار بیچے ہیں۔ اب امریکا جیسے دشمن کا مقابلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد دشمن نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 6 مضبوط خوشحال مسلمان ممالک کو تباہ کیا۔ اب نگاہ ایران پر تھی مگر ناکام ہو گیا۔ ایران کی اسلامی حکومت کی کاری ضرب نے سپر پاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل کے تحت 26 مذہبی جماعتوں کا نمایندہ اجلاس جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر لاہور منصورہ میں منعقد ہوا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس امریکا کی طرف سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رہنماء ابو مہدی المہندس پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام صرف ان رہنماؤں پر نہیں بلکہ عالم اسلام پر حملہ ہے۔ اور امریکا کی دہشتگرد پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ حکومت پاکستان کو ایران پر امریکی حملے، دہشتگردی کی مذمت کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ نہ ہی ایرانی جنرل کی شہادت پر کوئی تعزیت کی گئی۔ امریکا عالم اسلام کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ امریکا پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور دیگر مسلمان ممالک سے نکل جائے اور یمن میں جنگ فی الفور ختم کی جائے۔