مودی نے بالآخر مسلم کارڈ نکال ہی لیا
بھارت میں سات مرحلوں پر مشتمل انتخاب کا آج تیسرا مرحلہ ہے۔ پہلے مرحلے میں نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بار وہ گزشتہ انتخابات میں جیتی گئی نشستوں (تین سو نو) سے کم ازکم سو نشستیں زیادہ لیں گے اور بی جے پی کا اتحاد چار سو کا ہندسہ پار کر لے گا۔ مگر ان دو مرحلوں میں رائے عامہ کے جائزوں اور ڈالے جانے والے ووٹوں کی کم شرح کے سبب بی جے پی کی قیادت بھی شبہے میں پڑ گئی ہے کہ کیا وہ چار سو کا ہندسہ واقعی پار کر پائے گی؟
اس شبہے کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں ٹیم مودی نے رام مندر اور اپنی اقتصادی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ اب جب کہ اسے خدشہ ہے کہ شاید اسے اتنی اکثریت حاصل نہ ہو سکے جس کے بل بوتے پر وہ تنِ تنہا آئین میں ترمیم کرکے سیکولر بھارت کو ہندو راشٹر میں بدل سکے تو اس نے روائیتی مسلم کارڈ نکال لیا ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو جذباتی کرکے پہلے سے زیادہ تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں تک بھیجا جا سکے۔
مسلم کارڈ استعمال کرتے ہوئے بی جے پی سابق وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کی ایک اٹھارہ برس پرانی تقریر کا ایک فقرہ نکال کے اس سے جھول گئی۔ منموہن جی نے کہا تھا کہ بھارت کی ترقی میں دلتوں اور مسلمانوں سمیت تمام طبقات کو یکساں شرکت کا احساس ہونا چاہیے۔ مودی جی اور ان کے حواری اب اپنی ہر انتخابی مہم میں اس فقرے کی تشریح یوں کر رہے ہیں کہ کانگریس اقتدار میں آ کے ہندوؤں کا سرمایہ اور املاک چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے اور جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اس بات میں زور پیدا کرنے کے لیے انسٹا گرام پر ایسی اینیمیٹڈ وڈیوز بھی لگائی جا رہی ہیں جن میں متشدد اور لالچی مسلمان حملہ آور قدیم رجواڑوں اور مندروں پر حملہ کرکے انھیں تباہ کر رہے ہیں اور خزانہ لوٹ رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد ان وڈیوز کو انسٹا گرام سے ہٹا لیا گیا۔
مگر ایک کارٹون وڈیو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس میں ایک ٹوکری میں پسماندہ ذاتوں کے بہت سے چوزے بیٹھے ہیں اور راہول گاندھی ٹوکری میں ایک بڑا سا انڈہ لا کے رکھتے ہیں جس پر مسلم لکھا ہوا ہے۔ اس انڈے سے ایک ٹیڑھی چونچ والا چوزہ نکلتا ہے اور باقی چوزوں کو کھا جاتا ہے۔
مودی ٹولے نے حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے تعلق سے بھومی (زمین) جہاد اور لو جہاد متعارف کروانے کے بعد اس بار ایک نئی اصطلاح اچھالنی شروع کر دی ہے یعنی ووٹ جہاد۔
ہوا یوں کہ یوپی میں سماج وادی پارٹی کی ایک امیدوار ماریا عالم نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کو نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان الیکشن کو جہاد سمجھ کے زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالیں۔
بی جے پی نے یہ لائن اچک لی اور مودی جی نے ریاست گجرات کے ایک جلسے میں اس فقرے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ یہ "جہادی " دیش اور جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ماریا عالم نے اگرچہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ جہاد کا عربی میں مطلب کوشش کرنا ہے۔ مگر بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشین نے اس بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
مودی اپنی تقاریر میں مسلمانوں کا نام لیے بغیر " گھس بیٹھئے " اور " وہ جو سب سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں" جیسے جملے بھی استعمال کرنے سے نہیں ہچکچا رہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی آبادی پندرہ سے اٹھارہ فیصد ہے اور خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ بیس برس سے مسلمانوں میں شرحِ پیدائش ہندو طبقات کے مقابلے میں مسلسل گر رہی ہے۔ لیکن جب ملک کا وزیرِ اعظم اپنے منہ سے نئے حقائق گھڑ رہا ہو تو اعداد و شمار کو ووٹر کہاں پوچھتا ہے۔
بیس ہزار دستخطوں سے ایک یادداشت بھی الیکشن کمیشن کو پیش کی گئی ہے کہ نریندر مودی انتخابی مہم میں نفرت کو بڑھاوا دے کر انتخابی ضابطہِ اخلاق پامال کر رہے ہیں لہٰذا انھیں الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا جائے۔ مگر سب جانتے ہیں کہ اس وقت الیکشن کمیشن اور عدلیہ سمیت بیشتر کلیدی ادارے یا تو حکمران پارٹی کی مٹھی میں ہیں یا پھر کوئی قانونی قدم اٹھانے سے خوف زدہ ہیں۔
مودی نے دو ہزار چودہ کا الیکشن ریاست گجرات کی ترقی کا ماڈل پورے دیش میں لاگو کرنے اور " اچھے دن آنے والے ہیں" کے نعرے پر جیتا۔ دوسرا الیکشن دو ہزار انیس میں بالاکوٹ پر حملے کو کیش کراتے ہوئے " اندر گھس کے ماریں گے" کے نعرے پر جیتا۔ اور اب تیسرا الیکشن وہ مسلم کارڈ کھیل کے جیتنا چاہ رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کوئی مطلوبہ مجرم پاکستان میں چھپ کر بیٹھا ہے تو ہم اس کا وہاں جا کے تعاقب کریں گے۔ گزشتہ ہفتے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع کی جس میں بیرونِ ملک بھارتی خفیہ ایجنسی را کے قاتل دستوں کے نیٹ ورک کی نشاندھی کی گئی۔ وائٹ ہاؤس نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لے۔ اس کے بعد بائڈن انتظامیہ نے ایک رپورٹ شایع کی جس میں جاپان، چین اور بھارت کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں غیر ملکیوں سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ دو روز قبل کینیڈا نے تین بھارتی باشندوں پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے گزشتہ برس قتل کے الزام میں باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی۔
یکے بعد دیگرے ہونے والی اس بین الاقوامی پیش رفت کو بھی مودی جی اپنی انتخابی مہم کا ایندھن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک جلسے میں انھوں نے یہ کہہ کر اپنے حامیوں کو گرما دیا کہ پچھلی سرکاریں دھشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کو احتجاجی چٹھی بھیج کر سمجھتی تھیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ مگر نیا بھارت چٹھی والا نہیں بلکہ آتنک وادیوں (دھشت گردوں ) کی چھٹی کرانے والا بھارت ہے۔
جس طرح تیسرے انتخابی مرحلے میں زیادہ ووٹ ڈلوانے کے لیے فرقہ وارانہ درجہِ حرارت بڑھایا جا رہا ہے اس سے خطرہ ہے کہ اگلے چار انتخابی مرحلوں میں آر ایس ایس کے حمائیت یافتہ مقامی متشدد گروہوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی ایک ملک گیر لہر ابھارنے کا اشارہ مل چکا ہے۔ جس طرح دو ہزار چودہ کے انتخابات سے ذرا پہلے یوپی کے شہر مظفر نگر میں مسلمانوں کو جان لیوا تشدد کا نشانہ بنا کے یو پی میں بی جے پی کا ہندو ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش ہوئی۔ خدشہ ہے کہ اسی ماڈل کو کم ازکم شمالی بھارت کی ریاستوں میں ووٹ کی خاطر دہرانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
مودی جی کی سوانح حیات کے مصنف نلنجن مکھو پادھیائے کے بقول مذہبی تفریق کو بڑھاوا دینا مودی کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ بھارت میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس میں مسلمان خود کو اپنی شناخت کے پنجرے میں بند قیدی کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔