ذہنی طور پر اپاہج قوم
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بعض امور پر رجعت پسندانہ سوچ کو معاشرہ کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے آکسفورڈ یونیورسٹی بورڈ اسکول کے نصاب کے لیے شایع ہونے والی کتاب پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کتاب میں دنیا میں سب سے کم عمر امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی سوات کی بیٹی ملالہ یوسفزئی سمیت ملک کے کئی ہیروز کی تصاویر شایع کی گئی ہیں۔
فواد چوہدری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ جن لوگوں کا کام نہیں ہے وہ پابندی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کی خبریں آتی ہیں۔ نصاب کی کتاب میں انسانی نسل کی نشوونما سے متعلق باب کو سنسر کردیا گیا ہے اور نیوٹن سمیت کئی سائنسدانوں کی تصاویر کو دوپٹے پہنا دیے گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ملالہ کی تصویر کی کتاب پر پابندی صرف ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ معاشرہ میں تقسیم کا عکاس ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ری پروڈکشن کا چیپٹر ہی ٹیسٹ بک سے نکال دیا گیا۔ اس طرح ہم اپنی اگلی نسل کو بانجھ کردیں گے۔ ایسے فیصلوں سے پاکستان کے اندر ماحول قدامت پسند ہوجائے گا۔ فواد چوہدری کا مزید کہنا ہے کہ نصاب پر توجہ نہیں دی گئی تو پاکستان میں پہلے سے موجود شدت پسندی مزید بڑھ جائے گی۔
نصاب کی کتاب پر پابندی پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے بھی احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے اس بارے میں سینیٹ میں تحریک پیش کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے نصاب کی کتابوں کو سنسر کرنے اور ان پر پابندی کے فیصلوں کو معاشرہ میں رجعت پسندی کی جڑیں گہری کرنے سے منسلک کیا ہے۔ ملالہ کا معاملہ لڑکیوں کی تعلیم سے منسلک ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جب سوات طالبانائزیشن کا شکار ہوا تو اس دور میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوئیں۔ خواتین کے اسکول و کالج جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اسی طرح خواتین کو علاج کرنے کے حق سے محروم کیا گیا۔ ملالہ نے بار بار ثابت کیا کہ اس کی ساری دلچسپی تعلیم سے ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے سوات میں فوجی آپریشن کیا۔ آپریشن سے پہلے سوات کی شہری آبادی کو سوات سے منتقل کیا گیا اور ان پناہ گزینوں کو خیبرپختون خوا کے مختلف علاقوں میں جس میں مردان بھی شامل ہے بنائے گئے کیمپوں میں رکھا گیا۔ سوات کے لاکھوں افراد تقریباً 3 سے 6 ماہ تک ان کیمپوں میں مقیم رہے۔
ملالہ کا خاندان بھی ان کیمپوں میں مقیم رہا۔ برطانیہ سے ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالر ڈاکٹر فاروق سلیریا نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ملالہ کی ان کیمپوں میں ملاقات کارل مارکس کے نظریے سے متاثر نوجوانوں سے ہوئی اور ملالہ نے مارکس کے فلسفہ پر ہونے والے اسٹڈی سرکلز میں شرکت کی، یوں ملالہ کو لکھنے اور پڑھنے کا پہلے شوق تھا تو اس نے اپنی ڈائری لکھنا شروع کی۔ یہ ڈائری ایک پختون لوک کردار گل مکئی کے نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر شایع ہونے لگی۔ ملالہ کی یہ تحریریں اس کی زندگی کے لیے مشکل بن گئی۔
ملالہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ اسکول سے واپس آرہی تھیں کہ اس پر حملہ ہوا۔ ملالہ شدید زخمی ہوئی، باقی لڑکیوں کو کم زخم آئے۔ پاکستان کی فوج نے ملالہ کی زندگی بچانے کے لیے خصوصی کردار ادا کیا۔ بعدازاں اسے علاج کے لیے برطانیہ کے شہر برمنگھم کے اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ ملالہ پر حملہ کی مذمت پوری دنیا میں ہوئی۔ یوں ملالہ پوری دنیا میں خواتین کی تعلیم کا استعارہ بن گئیں مگر معاملہ صرف ملالہ کی جان لینے تک محدود نہ رہا کچھ ہی عرصہ بعد تعلیم کے ان دشمن عناصر نے پشاور پبلک اسکول کے معصوم بچوں کا قتلِ عام کیا۔ اس حملہ میں اسکول کی پرنسپل بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہوگئیں۔
بہت سے بچوں اور کئی اساتذہ کی جانیں گئیں۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا دکھ پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ افغانستان اور بھارت سمیت یورپی ممالک اور امریکا میں صرف سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں، اساتذہ اور خواتین نے ہی ان بچوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہیں کیا بلکہ بھارت سمیت کئی ممالک کے اسکولوں کے بچوں نے پشاور کے بچوں کے قتل کا سوگ منانے کے لیے اسکول کے آغاز پر ہونے والی اسمبلی میں کئی منٹ کی خاموشی اختیار کی اور غمگین نغمے گائے۔ یہی وہ دور ہے جب قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں خواتین کے سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں تباہ کی گئیں۔
قبائلی علاقہ کے ایک طالب علم اعتزاز احسن اپنے اسکول میں ایک خودکش حملہ آور کو داخل ہونے سے روکنے کی کوشش میں شہید کردیے گئے مگر یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ رجعت پسندی کو ریاست کا بنیادی ایجنڈا بنانے والے گروہوں نے ملالہ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا۔ بعض عناصر نے سوشل میڈیا پر جعلی وڈیوز وائرل کیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملالہ پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ دائیں بازو کی طرف سے یہ فرض کرلیا گیا کہ مغربی قوتیں کسی خاص مقصد کے تحت ملالہ کو پروجیکٹ کررہی ہیں، یہ پروپیگنڈہ مختلف طریقوں سے کئی سال جاری رہا اور آج بھی اس پروپیگنڈہ کے اثرات نظر آتے ہیں۔
یہپروپیگنڈہ کرنے والے اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ نئی صدی کا پورا عشرہ انتہاپسندوں کی پیدا کردہ دہشت گردی میں گزرا، دہشت گردوں نے صرف اقلیتی فرقوں کے اراکین کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ فوجی تنصیبات پر حملے کیے، چاروں صوبوں کی پولیس کے علاوہ فوج کے پانچ ہزار کے قریب جوان اور افسران جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ کے افسر بھی شامل تھے اور ڈاکٹر فاروق اور مولانا سرفراز نعیمی جیسے استاد بھی شہید ہونے والوں میں شامل تھے۔
اسٹاک ہوم میں قائم نوبل انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے کم عمری میں خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کرنے پر ملالہ کو نوبل انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملالہ کو اس اعزاز کی بناء پر جو رقم ملی وہ اس نے خیبر پختون خوا اور اس کے قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول میں تعلیم کے لیے وقف کردی۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کی کوشش تھی کہ اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے انھوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانی ماہرین کو کام کرنے کی دعوت دی۔
مگر ان رجعت پسندوں نے ایک ایسی مہم شروع کردی کہ وزیر اعظم کو بھی اپنا فیصلہ واپس کرنا پڑا۔ نصاب سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پورے ملک میں یکساں نصاب کے نام پر کتابوں میں غیر سائنسی مواد کو زیادہ اجاگر کررہی ہے۔
ممتاز ماہر تعلیم یاسمین اشرف نے اپنے آرٹیکل میں شایع ہونے والی سائنس کی کتابوں کا تجزیہ کیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ ان کتابوں میں غیر سائنسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور بعض کتابوں کے ابواب میں ربط نہیں ہے، ایک نوجوان طالب علم کے لیے ان کتابوں کے مختلف ابواب کو سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے اور ان غیر سائنسی اصطلاحات کی بناء پر طالب علم سائنسی نظریات کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ پائیں گے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ بعض اصطلاحات تو بالکل بے معنی ہیں اور درست اصطلاحات نہیں تحریر کی گئی ہیں، یوں کتابوں کی خامیوں کی بناء پر عام طالب علم کا ذہن سائنسی سوچ کی طرف استوار نہیں ہوگا۔
وزیر اطلاعات کی بات بالکل درست ہے کہ ملالہ کی نصاب کی کتابوں پر اسی طرح پابندی لگتی رہی تو یہ ملک ذہنی طور پر اپاہج ہوجائے گا۔