تھرمیں سوشل انڈیکیٹرکا تیز سفر
تھر ہنوز پسماندہ ہے۔ تھر میں اب بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کوئی نمایاں بہتری کے آثار نہیں ملتے۔ حکومت سندھ ہر سال تھرکی ترقی پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے مگر سندھ کے انسانی حقوق کمیشن (SHRC) کی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھر میں سوشل انڈیکیٹر پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ کمیشن کی سربراہ سندھ ہائی کورٹ کی سابق جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
اس وقت ایک اہم مسئلہ کاروجر پہاڑی سلسلہ سے معدنیات نکالنے کا ہے۔ علاقے کے لوگوں کے احتجاج پر اس پہاڑی سلسلہ سے فی الحال معدنیات نکالنے کا کام روک دیا گیا ہے، کیونکہ معدنیات نکالنے سے علاقہ کے لوگوں کا روزگار متاثر ہورہا ہے۔ ماحولیات کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، پہاڑیاں تھرکا ثقافتی ورثہ ہے۔
اس ورثہ کو کسی بھی صورت نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ کمیشن کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں کام کرنے والے ٹھیکیدار دیگر علاقوں سے مزدوروں کو بلا کرکام دیتے ہیں اور مقامی مزدوروں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کمیشن کے سامنے جو شہادتیں پیش ہوئیں انھوں نے بتایا کہ مقامی مزدوروں کو اگر کام پر رکھا گیا تو انھیں باہر کے مزدوروں کے مقابلے پر کم اجرتیں دی گئیں۔ کمیشن کے ارکان نے اس علاقے کا دورہ کیا جہاں 26 افراد آسمانی بجلی گرنے سے جاں بحق ہوئے تھے۔ حکومت سندھ نے ابھی تک ان ہلاک شدگان کے لواحقین کو معاوضہ کی ادائیگی کے لیے کچھ نہیں کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھر قحط زدہ علاقہ ہے اور ماحولیات کی تبدیلی کے اثرات تھر پر منفی انداز میں ظاہر ہوتے ہیں مگر حکومت نے ابھی تک اس علاقے میں فوری مدد کا کوئی نظام منظم نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ بجلی گرنے سے متاثر ہونے والے افراد کو فوری طبی سہولتیں نہیں مل سکیں۔ جسٹس ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ صحرا تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے۔
حکومت کے اس بارے میں دعوے حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکے مگر نوزائیدہ بچوں اور ماؤں کے مرنے کی بنیادی وجہ چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں ہیں۔ سندھ میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 (Child marriage restraint act 2013)نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت کمیشن بچیوں کی شادی پر والد، دلہا، گواہوں اور نکاح خواہ کے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہوسکتا ہے مگر اس علاقے میں فرسودہ روایات اتنی گہری ہیں کہ کمسن بچیوں کی شادی کے منفی اثرات کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ کمسن بچیوں کی شادی کی روایت مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں میں پائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کا گہرا تعلق غربت سے ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش کے بعد سے مناسب غذا نہیں ملتی، یوں بچیاں جسمانی طور پر لاغر ہوتی ہیں یا مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں کہ ان کی شادی ہوجاتی ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کے محکمہ صحت خاندانی منصوبہ بندی کے نظام کو متعارف کرانے میں ناکام رہا ہے۔ غریب ہاری اب بھی زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کو اپنے روشن مستقبل سے منسلک کرتا ہے۔ یوں زیادہ بچے پیدا ہونا بھی نوزائیدہ بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات کی ایک اہم وجہ ہے۔
کمیشن نے مقامی ضلع حکام اور پولیس کو ہدایت دی کہ کمسن بچیوں کی شادی کی روک تھام کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئلہ کی کانوں میں کام سے چھوٹے گوٹھ متاثر ہوئے ہیں جس کی بناء پر گوٹھوں کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے۔ مگر اس علاقہ میں کام کرنے والی کمپنی ان گوٹھ کے مکینوں کی مدد کو تیار نہیں ہے۔
گوٹھ کے مکین ایک طویل فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔ بہت سے گوٹھ اس علاقے کے نقشے میں ظاہر نہیں کیے گئے مگر یہ گوٹھ صدیوں سے آباد ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ میں خواتین میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ خود کشی کی بڑھتی مواد کی تیاری وجہ ڈپریشن کا مریض ہے۔ ڈپریشن کے مرض کی نشاندہی ایک مشکل عمل ہے۔ عام ڈاکٹر اس مرض کی تشخیص نہیں کرسکتا، صرف ماہر نفسیات ڈپریشن کے مرض کی تشخیص اور اس کا علاج کرسکتے ہیں۔
تھر میں جنرل فزیشن کی تعداد بھی کم ہے۔ اسپتالوں میں ماہر نفسیات تعینات نہیں ہیں، جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ خواتین میں خودکشی کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس علاقہ میں خودکشی کے اسباب کے بارے میں مستقل تحقیق کرائے۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق خاص طور پر خواتین میں ڈپریشن کے مریض کے خاتمے کے علاج کا انتظام کیا جائے۔
سہیل سانگی ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ حصول تعلیم اور روزگار کی تلاش میں حیدرآباد آگئے اور سندھ یونیورسٹی سے انگریزی زبان میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ سہیل سانگی صحافت کے پیشہ سے منسلک ہوئے۔
پہلے ان کا شمار گنتی کے صحافیوں میں ہوتا ہے جو سندھی، اردو اور انگریزی مہارت سے لکھتے ہیں۔ سہیل سانگی بائیں بازو کی تحریک سے منسلک رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی سے گرفتار ہوئے اور جام ساقی کیس میں ملوث کیے گئے۔ سہیل سانگی نے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ تھر میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زبان، اٹھنا، بیٹھنا، رہن سہن، کھانا پینا اور ذریعہ معاش بھی اس کی وجہ ہے۔ حکومتی اقدامات سے زیادہ مسلسل قحط اور کمیونکیشن کے ذرایع ہیں۔ قحط کی وجہ سے لوگوں نے مجبوراً اپنے طور پر روزگار کے متبادل ذرایع کی تلاش میں انھیں صوبے کے دیگر علاقوں اور شہروں میں جانا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق شہر کے20 ہزار سے زائد بچے حیدرآباد اورکراچی میں بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ متواترکئی سال سے زائد بارش نہ ہونے کی بناء پر لوگوں نے کم زمین کاشت کرنا شروع کی۔ بھیل برادری جو عموماً زیادہ نقل مکانی کرتی ہے۔ اس برادری کے لوگوں نے مال مویشی پلان کم کردیا۔ اب نگرپارکر، چھاچھرو میں صرف بکریاں اور بھیڑیں پالی جاتی ہیں۔ وہ بھی چھوٹے پیمانے پر ان کا رکھنا کم ہوگیا ہے۔ اس کے بجائے بکری اور گدھے پالے جاتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین اس صورتحال کو غربت کی بڑھتی ہوئی شرح قرار دیتے ہیں۔
ماہرین خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان خودکشیوں میں اضافہ اس علاقہ میں زیادہ ہوا ہے جہاں معاشی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ سہیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ خودکشیوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ تھر ہمیشہ سے پسماندہ رہا۔ سہیل سانگی تھر کی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تھرکی 16 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف دوکالج ہیں۔ ایک طلبہ کا دوسرا طالبات کا ہے اور تھر کی 4 تحصیلوں میں کوئی گرلز اسکول نہیں ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو تھر میں ترقی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں تھر سے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ شروع ہوا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے اعلان کیا کہ تھر پاور پروجیکٹ سے نہ صرف تھر کی قسمت بدلے گی بلکہ پورے سندھ سے بجلی کی قلت ختم ہوجائے گی۔
ان تھر کول اور پاور پلانٹ کے منصوبوں کو پاکستان میں اقتصادی راہداری میں شامل کیا گیا۔ کراچی سے اسلام کوٹ تک ایک بین الاقوامی معیار کی سڑک تعمیر ہوئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ورلڈ بینک کی مدد سے کئی سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نے تھر سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت دی ہے۔ اس طرح صوبائی کابینہ میں بھی نمایندگی دی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے تھر میں زوردار جلسے کیے۔ ان رہنماؤں نے کہاکہ تھر میں ترقی کا عمل تیز ہوچکا ہے اور 10 برسوں میں تھر کا شمار ترقی پذیر علاقوں میں ہونے لگے گا، مگر تھر میں مسلسل قحط سالی کی صورتحال رہی۔
نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں، اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی غیر حاضری میں مریضوں کے مرنے کی خبروں کی خوب اشاعت ہوئی۔ تھرکی ایک اہم خصوصیت مذہبی رواداری ہے جو پورے ملک کے لیے پر امن زندگی گزارنے کا رابطہ ہے مگر جسٹس ماجدہ رضوی کی رپورٹ اور سینئر صحافی سہیل سانگی کے مشاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کی حکومت تھر میں اربوں روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ تھر ابھی بھی پسماندہ ہے۔