Kya Allah Ke Nabi Riyasat Se Takraye?
کیا اللہ کے نبی ریاست سے ٹکرائے؟

جب سے یہ دنیا بنی ہے، اسباب کے تحت چل رہی ہے۔ کسی چیز کی تخلیق یا کسی شے کا انجام بغیر کسی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ مزدور صبح سے شام تک مزدوری کرے گا، تو ہی مزدوری پائے گا۔ نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالیں گے، تو ہی بھوک مٹے گی۔ بھلے سامنے روٹیوں کا ڈھیر پڑا ہو۔
عام انسانوں کی طرح تمام نبیوں کی زندگیاں بھی انھی اسباب کے تحت گزری ہیں۔ ہماری طرح انھوں نے بھی محنت کی، مشقتیں سہیں، نامساعد حالات کا سامنا کیا۔ بیچ میں جو معجزات برپا ہوئے، وہ لمحاتی یا وقتی طور پہ تھے۔ یہ نہیں کہ ہر نبی ہر روز کوئی نہ کوئی معجزہ برپا کرکے ہی گھر آتا تھا۔ یہ حقیقت مان لینے کے بعد یہ بھی مانیں کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنا 13 سالہ جو مکی دور گزارا، وہ بھی اسباب کی دنیا ہی تھی۔ آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں، ان کی زندگیاں اس قدر اجیرن بنا دی جاتی تھیں کہ وہ آپ ﷺ کے پاس آ کر رو پڑتے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے نبی حق پہ تھے اور آپ کے ساتھی آپ پہ اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے، تو پھر آپ نے مکے کی قیادت سے ٹکر کیوں نہیں لی! کیوں مکے کے سرداروں سے لڑے بھڑے نہیں! اس لیے کہ وہ تعداد میں اور طاقت میں آپ کے اور آپ کے ساتھیوں سے کہیں بڑھ کے اور زیادہ تھے۔ ان کے پاس ہر قسم کی وافر قوت تھی۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ تھے۔ مکے کے اصل سردار اور چودھری تھے۔ دوسری طرف مسلمان بہت غریب اور تعداد میں تھوڑے تھے۔ گویا سامنے ایک ریاست تھی، جس سے ٹکرانے کا مطلب واضح اور کھلی شکست تھی اور اس میں پیغمبر ﷺ کا اور آپ کے ساتھیوں کا سراسر نقصان تھا، جانی بھی اور مالی بھی۔
یہ بات بھی یاد رکھیں! ایک نبی اپنے ساتھی سے جس قدر محبت کرتا ہے، اتنی محبت ایک باپ اپنے بیٹے سے نہیں کر سکتا۔ بلکہ انسان خود سے اتنی محبت نہیں کرتا، جتنی اس کے پیغمبر کو اس سے ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود آپ ﷺ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے۔ پورے مکے میں ایک تماشا لگا تھا۔ جو مسلمان ہوتا، اس پہ زندگی تنگ ہو جاتی۔
اسی پہ بس نہیں، نبوت کا 7 واں سال تھا۔ قریش کی ساری جمعیت نے، مکے کی ریاست نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شعبِ ابی طالب میں پورے تین سال تک پناہ لینی پڑی۔ درختوں کے پتے اور چھال وغیرہ کھا کر گزارا کرنا پڑا۔
اندازہ لگائیں! ایک طرف دنیا کا سب سے بڑا انسان، خدا کا برگزیدہ پیغمبر اور اس کے وہ اصحاب ہیں، جنھیں اس نے اپنی رضا کا سرٹیفیکیٹ دیا ہے اور دوسری طرف ابو جہل اور ابولہب کے سے دنیا کے بدترین انسان ہیں۔ اس کے باوجود خدا اپنے پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کو مکے کی ریاست سے ٹکرانے کا حکم نہیں دیتے۔ یہ ایک طرح سے گویا درس تھا اپنے نبی کو کہ جب تک آپ اور آپ کے ساتھی طاقت نہیں پکڑ لیتے اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں پا لیتے، تب تک ان سے مت ٹکرانا۔ اسی وجہ سے آپ نے اف تک نہیں کی۔ اچھے وقت کا انتظار کیا۔ کیوں؟ کیونکہ سامنے ریاست تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ خدا کو اپنے نبی اور اس کے ساتھیوں سے محبت نہیں تھی۔ تھی، مگر اس نے انھیں اسباب کے حوالے کر رکھا تھا۔ ہر مصیبت کے وقت فرشتے اتارنا یا غیب سے مدد کرنا خدا کی عادت کبھی نہیں رہی۔ خدا ایک قانونی ذات ہے۔ وہ آئین پسند ہے۔ وہ بے تکے کام نہیں کرتا۔ پھر تین سال کے بعد مکے کے چند لوگوں کو ترس آیا اور انھوں نے اہلِ ریاست کی منت سماجت کی، واسطے دیے کہ کیا ہوا محمد نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، ہے تو وہ آپ کی برادری کا، قریشی اور ہاشمی۔ تب کہیں جا کر یہ بائیکاٹ ختم ہوا۔
پھر جب ریاست نے پورا پلان ترتیب دیا کہ کیسے آپ ﷺ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے، تب خدا کے حکم سے آپ کو مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ جب مکے سے نکلے، تو اس کی طرف آہ بھر کر کہا: اے مکہ! تجھے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا، مگر تیری قوم نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ریاست کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مسلمانوں کا ایک قافلہ حبشہ کی طرف ہجرت کر چکا تھا۔
جب آپ مدینہ گئے تو جا کر پہلا کام وہاں کے قبائل سے معاہدے کا کیا کہ اگر مدینے پہ حملہ ہوا تو سب مل کر مقابلہ کریں گے۔ گویا مکے کی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی انداز میں غیر مسلموں مدد طلب کی جا رہی ہے۔
جب بدر کا معرکہ برپا ہوا تو ایک عجیب اور خوفناک منظر سامنے تھا۔ ہر قسم کے سازو سامان اور جنگی اسلحہ سمیت ایک ہزار کا لشکر، ان تین سو تیرہ لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پہ تلا تھا، جو کمزور بھی تھے اور ان کے پاس ڈھنگ کا اسلحہ بھی نہیں تھا۔ اب اس اسباب کی دنیا میں یہ کمزور لوگ کفار سے ہرگز جیت نہیں سکتے تھے۔ یہاں پھر پیغمبر ﷺ نے سر سجدے میں گرایا اور اللہ سے نصرت کی دعائیں شروع کر دیں۔ آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ابوبکر رض نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا سن لی ہے۔ آپ سجدے سے سر اٹھائیں۔ یہاں چونکہ ایک وقتی ضرورت تھی، اس لیے اللہ نے آسمان سے فرشتے نازل کیے، جنھوں نے کفار کی گردنیں اڑائیں۔ اگر یہ کمزور صورتِ حال مسلمانوں کو درپیش نہ ہوتی، تو خدا کبھی فرشتے نہ اتارتا۔
اس کے بعد جنگ احد میں 70 صحابہ کرام شہید ہوئے، مگر آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں اترا۔ کیوں؟ کیونکہ پیغمبر ﷺ کو حکم تھا کہ اپنی زندگی اسباب کے تحت گزاریں۔
اب آپ اندازہ لگائیں کہ مکے کی ریاست میں 13 سال رہ کر نبی ﷺ کیسے حکمت اور تدریج کے ساتھ اہلِ ریاست کا ہر ستم سہا۔ جب دیکھا کہ یہاں رہنا محال ہے اور تبلیغ کا فریضہ بھی ٹھیک سے انجام نہیں دیا جا سکتا تو اللہ نے کہا کہ اب آپ یہاں سے مدینہ چلے جائیں۔
پیغمبر کی اس سیرت میں عمران خان اور پی ٹی آئی والوں کے لیے بڑا گہرا سبق ہے۔
خان صاحب کا سامنا ایک ریاست سے ہے، جس کا نام فوج ہے۔ 1947ء سے وہ حکومت میں ہے۔ 55 سے اوپر کاروبار کر رہی ہے۔ خان صاحب نے صرف ساڑھے تین سال حکومت کی اور وہ بھی ان کے بقول میں تو برائے نام وزیراعظم تھا۔ اصل حکومت تو جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی کر رہے تھے۔ اقتدار بھی جس طرح فوج نے انھیں دلایا، وہ بھی سبھی کو یاد ہے۔ RTS سسٹم بٹھا کر اور ساری اپوزیشن کو جیلوں میں بند کرکے جناب کو وزیراعظم بنوایا گیا۔
اب خان صاحب فوج یعنی ریاست کے مقابلے میں اتر آئے ہیں۔ جب وقت کے پیغمبر ﷺ ریاست سے نہیں ٹکرائے اور خدا نے اس کی اجازت بھی نہیں دی، تو خان صاحب پیغمبر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں!
خان صاحب اور تحریک انصاف کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ ریاست سے مت ٹکرائیں۔ اس سے آپ کا آج تک بھلا ہوا نہ ہوگا۔ پہلے بھی بھی آپ نے 9 مئی کو ٹکرا کے دیکھ لیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ ایک سیاستدان ہیں۔ سو سیاست دان بن کر اپنی سیاسی حکمتِ عملی وضع کریں۔

