Monday, 29 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Moscow Se Makka (10)

Moscow Se Makka (10)

ماسکو سے مکہ (10)

کھانا کھا لیا تھا۔ لوٹتے ہوئے خاصی گرمی لگی تھی۔ کمرے میں شکر ہے کوئی نہیں تھا۔ ایر کنڈیشنر چلا کر لیٹ گیا تھا۔ گھنٹہ ایک سو لیا تھا۔ عصر کی نماز نیچے جا کر پڑھی تھی۔ تھوڑی دیر لابی میں بیٹھا رہا تھا اور پھر کمرے میں چلا گیا تھا۔ صبح سے نکلے ہوئے لوگ واپس آ چکے تھے۔ یہ چاروں تاجک تھے۔ میری پائنتی کی جانب اور ایر کنڈیشنر کے نیچے والے بیڈ کا مالک مقبوضہ قیافے والا شیریں نام کا ایک چالیس بیالیس سال کا شخص تھا، جس نے متعارف ہوتے ہی گلہ کیا تھا کہ کنڈیشنر سے وہ مریض ہوگیا ہے۔ میرے مخالف دیوار کے ساتھ پہلے بستر پر پینتیس سینتیس سال کا جوان منصور تھا، جو مناسب اور بہتر شخص تھا۔ اس کی پائنتی والے بستر پہ خشخشی اور کسی حد تک سفید داڑھی والا سنجیدہ اور خاموش طبع علیم تھا جبکہ میرے سرہانے کے ادھر والے بستر پہ ایک اور شخص تھا جو ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد آیا تھا۔ مدقوق اور منحنی سے اس شخص کا نام ستار تھا لیکن اس کے ساتھی اسے حضرت کہتے تھے۔ وہ دیہاتی قسم کا سادہ آدمی تھا۔

کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ کمپنی "سلوٹس" نے ناشتہ اور رات کا کھانا دینا شروع کر دیا تھا۔ رات کا کھانا مغرب کی نماز کے بعد سے دو گھنٹے تک کھایا جا سکتا تھا۔ کھانے میں دال کا سوپ اور سبزی گوشت تھا۔ میز پر ایک ڈبے میں کٹی ہوئی ڈبل روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعد میں چائے لی جا سکتی تھی۔ کھانا لائن میں لگ کر لینا ہوتا تھا۔ کھانا بالکل بے ذائقہ تھا۔ میز پر دھرے نمک مرچ سے اسے کھانے کے قابل بنایا جا سکتا تھا۔ بعد میں برمی لڑکے ٹرے اٹھا کر بچا کھچا ایک بڑے سے ٹریش بن میں الٹا رہے تھے۔

کھانا تو خیر جیسا بھی تھا لیکن کمرے میں لوٹ کر آیا تو سب سے بڑا مسئلہ سامنے تھا۔ ٹھنڈے علاقوں کے یہ لوگ ایر کنڈیشنر کی ٹھنڈ سے ایسے خائف تھے جیسے یہ کوئی عفریت ہو۔ چونکہ مدینہ اور مکہ میں فلو کی وائرس چل رہی تھی۔ اژدہام میں وائرس کو پنپنے سے روکا جانا تقریبا" ناممکن تھا مگر ان کم عقلوں کا خیال تھا کہ بیماری کی وجہ ایر کنڈیشنر کی پیدا کردہ ٹھنڈ ہے۔ بڑا سمجھایا کہ بھائی حدت میں تبدیلی اگر بتدریج ہو تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تم وائرس کی وجہ سے مریض ہو، لیکن ان جہلاء کے پلے یہ بات نہیں پڑی تھی۔

رات بھر کبھی میں ایر کنڈیشنر چلا دیتا تھا اور وہ اس کا مین سوئچ آف کر دیتے ہیں۔ چونکہ حج کا موقع تھا اس لیے لڑائی سے گریز کیا تھا۔ اگلے روز دوپہر سے پہلے میں لابی میں گیا تو مولانا رشیت کے ساتھ علی شیر اور ایک اور شخس بیٹھے ہوئے تھے۔ علی شیر سے چونکہ میں ماسکو میں مل چکا تھا وہ مجھے پہچان کر اٹھا تھا اور مصافحہ کیا تھا۔ میں نے شکوہ کیا تھا کہ علی شیر رہائش کا خوب بندوبست کیا ہے تم نے۔ وہ کھسیانی مسکراہٹ مسکرا کر کچھ نہیں بولا تھا۔ تیسرے شخص نے جسے میں عرب سمجھ رہا تھا، مجھ سے پوچھا تھا، پاکستان؟ اور میرے مثبت جواب پر روسی میں پوچھا تھا کہ کیا پاکستان میں یہودی ہیں۔ میں نے نفی میں جواب دے کر روسی کی ایک ضرب المثل بول دی تھی کہ نہ بھائی جب تاتار پیدا ہوا تھا تب تو یہودی بھی رویا تھا جو ظاہر ہے علی شیر اور رشیت حضرت پر تیکھا طنز تھا۔ اس پر علی شیر ڈھٹائی سے ہنسنے لگا تھا، رشیت کی چھوٹی آنکھیں خجالت زدہ مسکراہٹ سے اور تنگ ہوگئی تھیں جبکہ پوچھنے والا شخص انتہائی محظوظ ہو کر ہنستا چلا جا رہا تھا اور جانتے بجھتے مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ کیا کہا پاکستانتس، تم نے کیا کہا۔ میں نے کہا تھا ہاں بھئی جب خخول(یوکرینی) پیدا ہوا تو یہودی رو دیا تھا کہ اس کی منافع میں مسابقت کرنے والا وارد ہوگیا لیکن جب تاتار پیدا ہوا تو یہودی اور یوکرینی مل کر روئے تھے کہ ان پہ بھی بازی لے جانے والا پیدا ہوگیا ہے۔

رشیت حضرت شرمندگی چھپانے کے لیے کہنے لگے، "ڈاکٹر سے دس ہزار ڈالر وصول کرنے چاہییں تھے"۔ محظوظ ہونے والے شخص کا نام احمد تھا جو قوم کا انگش تھا اور پہلے حج کے ہی "کاروبار" میں تھا اور اب پھر اس میں شامل ہونے کی خاطر پر تول رہا تھا۔ دوران گفتگو اس نے بتایا تھا کہ ایک سال اس نے حج کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر کے عوض ایک اچھے ہوٹل میں صرف دس کمرے بک کیے تھے، پھر کسی شخص کا نام لیتے ہوئے بتایا، جسے یہ حج کا کاروبار کرنے والے جانتے تھے کہ اس نے اگلے روز ہی مجھے ان کمروں کے عوض دو لاکھ کی آفر کی تھی جو میں نے اس شرط پہ لے لیے تھے کہ نو کمرے تمہارے ہوں گے اور ایک کمرہ میں ذاتی طور پر اپنے لیے رکھوں گا۔ حج کی کاروباری منفعت سمجھ آ رہی تھی۔

مولانا سے میں نے پوچھا تھا کہ کیا منٰی کل جائیں گے۔ کل ذوالحج کی نو تاریخ تھی۔ بولے ہاں۔ رات کو میں نے تاجک ساتھیوں سے بڑی مشکل سے اے سی چلانے کی اجازت لی تھی لیکن دو گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے کہ دروازہ کھلا تھا اور کوئی شخص کہہ رہا تھا کہ ماگومید اور مرزا، تم لوگوں کے پاس ایک گھنٹہ ہے، غسل کرکے احرام باندھ کر نیچے آ جائیں، ہمیں منٰی کے لیے روانہ ہونا ہے۔ حج شروع ہو چکا ہے۔ یہ مولانا رشیت تھے جنہوں نے دروازہ بند کرنے سے پہلے پوچھا تھا، مرزا کون ہے؟ ، میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تھا، میں ہوں! ۔

عازمین کو بس میں سوار ہوتے دیر لگ رہی تھی۔ وجہ یہی تھی کہ رشید حضرت نے شروع سے سب کو یہ نہیں بتایا تھا کہ کل جانے کا مطلب رات کے بارہ بجے جانا ہے۔ قمری مہینے کے دن عیسوی مہینے کے دنوں کی طرح نہیں ہوتے کہ رات بارہ بجے شروع ہوں، وہ تو طلوع ماہتاب کے بعد بدل جاتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ رہا ہوگا کہ ناقص انتظامات کے سبب ٹرانسپورٹ کا بندوبست اچانک ہوگیا ہوگا شاید یہی وجہ تھی کہ مولوی رشید صاحب نے لوگوں کو ان کے کمروں میں جا کر جگایا تھا اور منٰی کے لیے روانگی بارے مطلع کیا تھا۔ اگرچہ خواتین کو احرام نہیں باندھنا ہوتا لیکن ان کو مردوں سے زیادہ دیر لگ ہی جایا کرتی ہے۔

میں یہ بھی سوچنے لگا تھا کہ مردوں کے لیے بھی احرام کا استعمال لازمی کیوں ہے؟ حج تو حضرت ابراہیم کی وفات کے سو ایک سال بعد شروع ہوگیا تھا۔ ان دنوں میں کپڑا نایاب ہوا کرتا ہوگا۔ سب کو برابر دکھانے کے لیے احرام لازم کر دیا گیا ہوگا۔ اس کے بہت دیر بعد تو لوگ حج کرنے کے لیے قدرتی لباس میں یعنی ننگے ہو کر آیا کرتے تھے۔ حضور صلعم نے پھر سے احرام کو رواج دیا تھا۔ اب تو کپڑا عام ہے۔ احرام باندھنا سبھوں کے لیے آسان نہیں ہوتا، سنبھالنا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ اگر سبھوں کو یکساں کرنا مقصود ہے تو سفید پاجامہ اور کرتا پہنے جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ شلوار بہت سے ملکوں میں ہوتی نہیں مگر پاجامہ ہر ملک میں مروّج ہے۔

البتہ احرام میں ایک بات اس کا ان سلا ہونا ہے۔ ان سلا ہونا کیوں ضروری ہے؟ شاید اس زمانے میں درزی کم ہوتے ہوں۔ پرآج یہ کاروبار کا معاملہ ہے۔ یقین جانیے نوے فیصد احرام چین سے آتے ہیں جنہیں مسلمان تیار نہیں کرتے۔ بیس پچیس لاکھ احراموں کا مطلب ہے دسیوں ملین ڈالرز کا کاروبار۔ پاجامہ کرتا تو سبھی اپنے ملک سے پہن کر آ جائیں گے پھر اس کاروبار کا کیا بنے گا۔

یہ سوچیں اس لیے بھی تھیں کہ میں احرام باندھے بس میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ کب لوگ پوری طرح سوار ہوں اور کب حج شروع ہو۔ کاروبار کی مد میں یاد آیا تھا کہ تاتار میمن حضرات سے بڑھ کر کاروباری ہیں۔ تاتار زبان میں حلال کو حلیال بولا جاتا ہے۔ آپ نے کبھی، حلیال ٹیکسی، سنی ہے یا کبھی، حلیال کنفیکشنری، کا تصورآپ کے ذہن میں آیا ہے۔ اسی طرح حلال گرم مصالحہ وغیرہ وغیرہ لیکن تاتاروں نے روس میں اسلام کے پھر سے عام ہونے کے وقتوں میں ایسے بہت سے کاروبار شروع کیے ہیں۔ حلال ٹیکسی کا مطلب ہے کہ ڈرائیور نے سر پہ نماز والی ٹوپی اوڑھی ہوگی اور کار میں قرآن کی سی ڈی لگائی ہوگی، چاہے مسافر نہ ہونے کی صورت میں وہ ٹوپی اتار دے اور تاتار گلوکارہ آلسو کے گیت سننے لگے، ٹیکسی پھر بھی حلیال رہے گی۔ حلال کنفیکشنری کا مطلب یہ ہے کہ جس کارگاہ میں یہ بنے گی، اس کے اہلکار دوران کار شراب نہیں پییں گے۔ چاہے کام کے بعد پیتے رہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے بنی کنفیکشنری حلیال ہوگی۔

Check Also

Saqoot e Dhaka Aur Udhar Tum, Idhar Hum Ki Haqiqat

By Aslam Nadaar Sulehri