Saqoot e Dhaka Aur Udhar Tum, Idhar Hum Ki Haqiqat
سقوط ڈھاکہ اور "ادھر تم، ادھر ہم" کی حقیقت
سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے جس میں نادیدہ قوتوں نے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے نہ صرف وطن عزیز کو دولخت کردیا بلکہ نفرت اور کدورت کا وہ انگارہ جلا دیا جو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بجھنے کانام نہیں لے رہا۔
مفادات کی اس جنگ میں پاکستان کے ایک بازو کاٹ دیاگیامگر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس واقعے کو آج تک دانستہ طور پر مسخ شدہ بیانیوں کے ذریعے بیان کیا جاتا رہاخاص طور پر "ادھر تم، ادھر ہم" کے الفاظ کو ذوالفقار علی بھٹو شہید سے منسوب کرکے ایک جمہوری رہنما کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ یہ بات اب ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے کہ یہ الفاظ نہ بھٹو نے کبھی کہے نہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں ادا کیے اور نہ ہی اس سوچ کی کبھی حوصلہ افزائی کی۔ یہ محض ایک اخباری سرخی تھی جو اُس وقت کے سیاسی جمود اور حالات کے تناظر میں مرتب کی گئی اور خود اس سرخی کو لکھنے والے صحافی اطہر عباس متعدد بار یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ بھٹو کا بیان نہیں تھا۔ افسوس کہ ایک صحافتی سرخی کو تاریخ کا فیصلہ کن نعرہ بنا دیا گیا اور اصل مجرم پسِ پردہ چلے گئے۔
1970 کے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا بحران دراصل عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ تھا مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنا آئینی تقاضا تھا مگر غیر جمہوری طاقتوں نے اسے اپنے مفادات کے خلاف سمجھا قومی اسمبلی کے اجلاس کا التوا، سیاسی مذاکرات کو سبوتاژ کرنا اور بالآخر طاقت کا راستہ اختیار کرنا اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
ان حالات میں یہ حقیقت جان بوجھ کر چھپائی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار دینے کے حامی تھے یہاں تک کہ بعض حلقوں نے اسی بنیاد پر بھٹو کی مخالفت کی کہ وہ اکثریتی لیڈر کو وزیرِاعظم تسلیم کرنے پر آمادہ تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد اور دیگر چند سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں نے بھٹو شہید کی عوامی لیگ کی حمایت پر انہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا اس وقت کی اخبارات بھی اس بات کی گواہ ہیں یہ ایک اہم اور تاریخی حقیقت ہے کہ جب ریاستی طاقت کے تحت شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا تو انہیں رہائی دلوانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید تھے۔ اگر بھٹو اقتدار کے بھوکے یا علیحدگی کے خواہاں ہوتے تو وہ مجیب کی رہائی کی کوشش کبھی نہ کرتے۔ یہ اقدام بذاتِ خود اس الزام کی نفی کرتا ہے کہ بھٹو سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹوشہیدکا جرم صرف یہ تھا کہ وہ بندوق کے بجائے ووٹ اور آمریت کے بجائے جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔
راقم کی تحقیق، جو اُس وقت بنگال میں مقیم افراد اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے چشم دید گواہوں کے بیانات پر مبنی ہے، اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ حالات کو دانستہ طور پر بگاڑا گیا۔ طاقت کا توازن فطری طور پر نہیں بگڑا بلکہ اسے بگاڑا گیا۔ سیاسی اختلافات بغاوت تک پہنچانے کے ذمہ داروں کوبے نقاب نہیں کیا گیا، عام شہریوں کو ایک دوسروں کے خلاف لا کھڑا کر دیا گیا مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کو لکیروں میں تقسیم کردیاگیا اور پھر دوطرفہ بے رحمانہ طاقت استعمال کیاگیا اور خوف کو حکمرانی کا ہتھیار بنایا گیا۔
اس جبر نے دونوں خطوں کےعوام کے درمیان آخری اعتماد بھی ختم کر دیا جس کے نتیجے میں مزاحمت کو تقویت ملی اور مکتی باہنی جیسے عناصر اس میں کود پڑے اس اندرونی کمزوری سے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت مشرقی پاکستان کو علیحدگی کی طرف دھکیل دیا۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ ان تلخ حقائق پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہیں بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس کے برعکس عسکری قیادت کی نااہلی، اختیارات کے غلط استعمال، سیاسی عمل کو کچلنے اور اخلاقی زوال کو کھل کر بیان کیا گیا۔
اگر یہ رپورٹ بروقت منظرِ عام پر لائی جاتی اور اس کی سفارشات پر عمل کیا جاتا تو شاید قوم کو سچ جاننے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا۔ مگر یہاں بھی خاموشی کو ترجیح دی گئی تاکہ غیر جمہوری طاقتیں محفوظ رہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو شہیدکا عملی کردار بھی ان تمام الزامات کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی جنرل یحییٰ خان کو نظربند کرنا اور باقی ماندہ پاکستان کو آئین، پارلیمان اور عوامی سیاست کی راہ پر ڈالنا کسی سازشی ذہن کا کام نہیں ہو سکتا۔
1973 کا متفقہ آئین صوبوں کو حقوق دینا اور پارلیمانی نظام کی بحالی بھٹو کے جمہوری وژن کی روشن مثالیں ہیں اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو سقوطِ ڈھاکہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ یہی غیر جمہوری قوتیں لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر مادرِ ملت فاطمہ جناح کی تذلیل تک، بنگال کی علیحدگی سے لے کر بھٹو کی پھانسی تک، ضیاء الحق کی آمریت سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کی حکومتوں کے خاتمے اور جلاوطنی تک، ہر موڑ پر سرگرم نظر آتی ہیں۔ یہی قوتیں کبھی نواز شریف کو اقتدار میں لاتی ہیں، کبھی اسے جیل میں ڈالتی ہیں، کبھی عمران خان کولاتی ہیں اور پھر اسے بھی اسی انجام سے دوچار کرتی ہیں۔ چہرے بدلتے ہیں، کردار نہیں۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی نااہلی یہ ہے کہ وہ سقوط ڈھاکہ کے اصل حقائق اور محرکات سےعوام کوآگاہ کرنے میں تاحال ناکام ثابت ہوئی۔ پارٹی سوشل میڈیا سے وابستہ کارکنوں کواس سلسلہ میں اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ سقوطِ ڈھاکہ کا اصل سبق یہی ہے کہ بھٹونے ہمیشہ عوامی مینڈیٹ، جمہوریت اور آئین کا ساتھ دیا، چاہے اس کی قیمت انہیں اپنی جان کی صورت میں کیوں نہ ادا کرنی پڑی۔ "ادھر تم، ادھر ہم" جیسے جھوٹے نعروں کے پیچھے چھپی سازشوں کو بے نقاب کرنا آج بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا 1971 میں تھا، کیونکہ جب تک سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہا جائے گا، تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بھٹو کے کردار کو تعصب کے بغیر سمجھیں اور مانیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کا سبب کوئی ایک سیاستدان نہیں بلکہ جمہوریت کا مسلسل قتل تھا۔ اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو آنے والے سانحات بھی ہمارے دروازے پر دستک دیتے رہیں گے۔

