Haramain Shareefain Ke Sang e Mar Mar Ki Thandak Ka Raz
حرمین شریفین کے سنگِ مرمر کی ٹھنڈک کا راز

جب کوئی خوش نصیب زائر پہلی بار مسجد الحرام کے صحن میں قدم رکھتا ہے، تو ایک عجیب سا احساس اس کے قدموں سے دل تک اترتا ہے۔ سورج سر پر دہک رہا ہوتا ہے، مکہ کی گرمی اپنی پوری شدت پر ہوتی ہے، مگر پاؤں کے نیچے فرش ٹھنڈا۔ غیر معمولی حد تک ٹھنڈا۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں عقل سوال کرتی ہے اور دل حیران ہو جاتا ہے۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں، کیا یہ کسی جدید کولنگ سسٹم کا کمال ہے؟ کیا فرش کے نیچے پانی کی لائنیں بچھائی گئی ہیں؟ یا یہ محض کسی خاص پتھر کی فطری خصوصیت ہے؟
سچ یہ ہے کہ اس ٹھنڈک کے پیچھے صرف پتھر نہیں، نیت، علم اور اللہ کی ایک گہری تدبیر بھی شامل ہے۔
یہ داستان ہے معمارِ حرمین، ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل کی۔ ڈاکٹر صاحب 1908ء میں مصر کے ایک سادہ سے شہر مِت غمر میں پیدا ہوئے۔ غیر معمولی ذہانت کے حامل، فن تعمیر کے امام اور دل کے اندر حرمین سے بے پناہ عقیدت رکھنے والے انسان۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کی توسیع جیسے عظیم منصوبے ان کی نگرانی میں مکمل ہوئے۔ مگر اصل کمال صرف عمارت کھڑی کرنا نہیں تھا، اصل کمال زائر کے آرام کا خیال رکھنا تھا۔
ڈاکٹر اسماعیل نے سوچا کہ حرم کا صحن ایسا ہونا چاہیے جہاں بوڑھے، بچے، ننگے پاؤں طواف کرنے والے، سب سکون محسوس کریں۔ اسی تلاش نے انہیں یونان کے جزیرہ تھاسوس تک پہنچایا۔ وہاں کا سفید سنگِ مرمر، جسے آج Thassos Marble کہا جاتا ہے، اپنی منفرد خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھا۔ انتہائی سفید، کرسٹل ساخت اور سورج کی روشنی کو بڑی مقدار میں واپس منعکس کرنے کی صلاحیت۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پتھر گرمی جذب کرنے کے بجائے لوٹا دیتا ہے۔
انہوں نے اسی سنگِ مرمر کا انتخاب کیا۔ پانچ سینٹی میٹر موٹے تختے، تاکہ حرارت کا اثر مزید کم ہو۔ یوں مسجد الحرام کا صحن بنا اور آج بھی دنیا حیرت سے دیکھتی ہے، کہ شدید دھوپ میں بھی یہ فرش کیوں ٹھنڈا رہتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے، کہ نیچے نہ کوئی پائپ لائن ہے، نہ کوئی خفیہ کولنگ سسٹم۔ یہ صرف انتخاب کی دانائی ہے۔
پندرہ سال گزرے۔ ایک دن سعودی حکومت نے کہا کہ مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں بھی وہی سنگِ مرمر لگایا جائے۔ یہاں ڈاکٹر اسماعیل کے دل پر بوجھ آگیا۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا میں یہ پتھر صرف ایک ہی پہاڑ سے نکلتا ہے اور اس کا نصف وہ پہلے ہی خرید چکے ہیں۔
وہ دوبارہ یونان گئے۔ کمپنی کے چیئرمین سے پوچھا تو جواب ملا۔ باقی سارا سنگِ مرمر برسوں پہلے فروخت ہو چکا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا، جہاں ایک عظیم معمار بھی ٹوٹ سا گیا۔ خود ان کے الفاظ میں، وہ کافی کا کپ تک پورا نہ کر سکے۔ واپسی کی تیاری تھی، کہ آخری کوشش کے طور پر پوچھ لیا۔
یہ سنگِ مرمر خریدا کس نے تھا؟ تقدیر کو یہی سوال منظور تھا۔ چند گھنٹوں بعد فون آیا۔ خریدار ایک سعودی کمپنی تھی۔ دل زور سے دھڑکا۔ وہ فوراً وطن پہنچے، کمپنی گئے، پوچھا کہ وہ سنگِ مرمر کہاں استعمال ہوا؟ جواب ملا، کہیں نہیں۔ سارا گودام میں ویسے ہی رکھا ہے۔ یہاں قلم رک جاتا ہے۔
یہاں صرف آنکھیں بھیگتی ہیں۔
ڈاکٹر اسماعیل بچوں کی طرح رو پڑے۔ جب کمپنی کے مالک کو وجہ معلوم ہوئی، تو اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا، جب مجھے پتا چلا کہ یہ سنگِ مرمر مسجد نبوی ﷺ کے لیے ہے، میں نے نیت کر لی کہ اس کا ایک ریال بھی نہیں لوں گا۔
اللہ نے ہی مجھے بھلا دیا تھا، کہ یہ پتھر گودام میں رکھا رہے، اسی مقصد کے لیے محفوظ۔
یہ ہے اللہ کی تدبیر۔ وہی رب جس نے پہاڑ پیدا کیا۔
وہی جس نے اس کے پتھر کو اپنے گھر اور اپنے محبوب ﷺ کی مسجد کے لیے چن لیا۔
یہ تحریر ہمیں یہ سبق دیتی ہے، کہ جب نیت خالص ہو، علم امانت ہو اور مقصد اللہ کی رضا ہو، تو راستے خود بن جاتے ہیں۔
حرمین کے سنگِ مرمر کی ٹھنڈک صرف جسم کو نہیں، دل کو بھی ٹھنڈا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ عظیم معمار ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

