Saddam Hussain, Iqtidar Se Takhta e Dar Ka Safar
صدام حسین، اقتدار سے تختہ دار تک کا سفر

30 دسمبر عالم اسلام بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے لئے یوم سیاہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس دن مرد مجاھد امت مسلمہ کے عظیم سپہ سالار نڈر، بےباک اور شجاعت کے عظیم مثال صدام حسین کو رات کی تاریکی میں تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ یہ واقعہ صرف عراق کے ایک صدر کی موت نہ تھا بلکہ ایک ایسے سیاسی و عسکری عہد کا اختتام تھا جس نے دہائیوں تک بلاخوف و تردد عالمی طاقتوں کو چیلنج کیے رکھا۔ صدام حسین کی شخصیت آج بھی متنازع ہے، مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ مسلم دنیا میں مزاحمت، خودداری اور عسکری طاقت کی علامت سمجھے جاتے تھے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنےوالے۔
صدام حسین کی قیادت کی بنیاد مضبوط ریاست اور طاقتور فوج کی مرہون منت تھی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی بھی قوم کی آزادی اور وقار کا اصل محافظ اس کی فوج ہوتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے عراق میں عسکری اداروں کو نہ صرف وسعت دی منظم کیا بلکہ انہیں جدید خطوط پر استوار بھی کیا۔
عراقی فوج کو اسلحہ، تربیت اور تنظیم کے اعتبار سےمشرق وسطی کی نمایاں افواج میں شامل کیا گیا۔ دفاعی صنعت کے قیام، میزائل پروگرام اور فوجی ڈھانچے کی مضبوطی نے عراق کو نہ صرف مشرق وسطی بلکہ ایک عالمی طاقت میں بدل دیا۔ صدام حسین کے نزدیک ان سب فوجی اقدامات اور تنظیم محض جنگی تیاری کیلئے نہیں بلکہ قومی وقار کے اظہارکے لئےضروری تھے۔
صدام حسین کی شجاعت کا تذکرہ ان کی قیادت کے اول روز سے لے کر ان کے آخری لمحوں تک سنہرےلفظوں سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ طاقتور عالمی قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔ گرفتاری، قید اور عدالتی کارروائی کے دوران بھی ان کے لہجے میں اعتماد شجاعت اور بے خوفی نظر آتی ہے۔
30 دسمبر 2006 کو عیدالاضحی کے دن ان کی پھانسی کے مناظر نے دنیا بھر میں یہ تاثر عام کیا کہ وہ موت سے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی غلامی سے خوفزدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حامی آج بھی انہیں ایک بہادر اور ڈٹ جانے والے رہنما کے طور پر یاد کرتے ہیں، صدام حسین خود کو محض عراقی رہنما نہیں بلکہ عرب اور مسلم دنیا کا نمائندہ تصور کرتے تھے۔ فلسطین کا مسئلہ ان کی سیاست کا مرکزی نکتہ تھا۔ وہ اسرائیل کے خلاف سخت اور واضح موقف رکھتےتھےآخری دم تک فلسطینی عوام کی کھلی حمایت کا اعلان کرتے رہے۔
ان کا مؤقف تھا کہ مسلم دنیا اگر متحد ہو جائے تو کوئی عالمی طاقت اسے دبا نہیں سکتی۔ یہی پیغام انہیں عرب نوجوانوں اور مسلم دنیا کے مختلف حلقوں میں مقبول بناتا رہا۔ ان کے نزدیک امتِ مسلمہ کی خودداری، سیاسی آزادی اور وسائل پر اختیار سب سے اہم اصول تھے۔
صدام حسین کے دور قیادت میں عراق نے کئی شعبوں میں نمایاں ترقی دیکھی۔ تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لینے سے ملکی معیشت مضبوط ہوئی۔ اس دولت کو تعلیم، صحت، سڑکوں، ڈیموں اور شہری انفراسٹرکچر پر خرچ کیا گیا۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب عراق میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں خطے کے کئی ممالک سے بہتر سمجھی جاتی تھیں۔ شرحِ خواندگی میں اضافہ ہوا، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے مواقع ملے اور بغداد کو ایک جدید دارالحکومت بنانے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ بعد کی جنگوں اور عالمی پابندیوں نے ان کامیابیوں کو شدید متاثر کیا، لیکن ابتدائی دور کی یہ پیش رفت عراقی تاریخ میں ایک اہم باب ہے۔
پاکستان کے ساتھ صدام حسین کے تعلقات خاصے اہم اور برادرانہ نوعیت کے تھے۔ وہ پاکستان کو مسلم دنیا کی ایک مضبوط، نظریاتی اور عسکری طور پر اہم ریاست سمجھتے تھے۔ خاص طور پر پاکستان کی فوجی صلاحیتوں اور دفاعی نظم و ضبط کے زبردست معترف تھے۔
عراق اور پاکستان کے درمیان دفاعی، سفارتی اور سیاسی سطح پر ہمیشہ تعاون کرتے رہے۔ کئی عراقی افسران نے پاکستان میں تربیت تک حاصل کی اور دونوں ممالک کے درمیان عسکری مشاورت اور رابطے بھی قائم رہے۔ عالمی فورمز پر صدام حسین پاکستان کے مؤقف کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتے نہ صرف اس کی کھل کر تائید کرتے بلکہ پاکستان کو مسلم دنیا میں توازن پیدا کرنے والی قوت قرار دیتے تھے۔
پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد صدام حسین کو امریکی اور مغربی بالادستی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے والا رہنما سمجھتی تھی۔ انہیں عظیم سپہ سالار کی نظرسے دیکھتی تھی خلیج کی جنگ اور عراق پر حملے کے بعد پاکستان میں صدام حسین کے لیے ہمدردی مزید بڑھی یہاں تک کے ہر پیدا ہوجانے والے بچے کا نام صدام حسین رکھا جانے لگا پاکستانی عورتیں ان سے بےپناہ پیار کرتی تھی۔
ان کی پھانسی کے بعد پاکستان کے تمام شہروں میں عوامی ردعمل، مظاہرے اور اس میں لاکھوں افراد کی شرکت اس بات کا بین ثبوت تھے کہ انہیں صرف ایک عراقی صدر نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ایک طاقتور رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
صدام حسین کا انجام دراصل عالمی طاقتوں، تیل کی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ پر کنٹرول کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق بدامنی، فرقہ وارانہ کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار ہوا اور آج تک ہے۔
30 دسمبر ہمیں یاد دلاتا ہےکہ صدام حسین ایک غیر معمولی اثر رکھنے والی شخصیت تھے۔ ان کی عسکری حیثیت، شجاعت، امتِ مسلمہ کے لیے موثرآواز اور پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات انہیں مسلم دنیا کی تاریخ میں ایک اہم اور ناقابلِ فراموش کردار بناتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آراء تو بدل سکتی ہیں، مگر یہ حقیقت برقرار رہے گی کہ صدام حسین نے طاقتور قوتوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور یہی ان کا سب سے بڑا حوالہ ہے جس کی وجہ سے آج بھی وہ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

