Monday, 29 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Teeba Syed
  4. 18wi Urdu Aalmi Conference, Purane Chehre Aur Purani Baatein

18wi Urdu Aalmi Conference, Purane Chehre Aur Purani Baatein

اٹھارویں اردو عالمی کانفرنس، پرانے چہرے اور پرانی باتیں

آرٹس کونسل کراچی اور عالمی اردو کانفرنس مجھے اور میرے جیسے کئی فنکاروں کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ہمیں اس سے پیار ہے۔ لیکن پچھلے دو سالوں سے اس کانفرنس کا جو حال ہو رہا ہے اس پر لکھنا ضروری ہے۔ ہم لکھیں گے، سمجھنے والے سمجھتے ہیں یا سن کر ان سنی کرتے ہیں۔۔ یہ ان کا مسئلہ ہے۔ لیکن ضدی اور اڑیل بن کر ان آوازوں کو ان سنی کرتے رہے تو یہ کانفرنس مزید بدحالی کا شکار ہوگی۔

اس سال تین دن کانفرنس پر گئی ہوں، لوگوں سے ملنے جلنے کی حد تک پروگرام اچھا تھا۔ مگر ایونٹس کے لحاظ سے تباہیاں ہی تباہیاں تھیں۔ گھسے پٹے پروگرام اور ان پروگراموں میں وہ زیادہ تر پرانے چہرے جن کی عوام میں مقبولیت نہیں ہے لیکن وہ آرٹس کونسل کے لیے cash crop کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔ وہی شامل تھے۔

عالمی کانفرنس میں اس قدر کمرشلزم آ گیا ہے کہ ایک سادہ ادب سے تعلق رکھنے والا انسان زچ ہو کر رہ جائے۔ آرٹس کونسل والوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ بھابی، بھائی، بیٹی والے تعلقات کی بنیاد پر لوگوں کا انتخاب کرے اور ان کو زبردستی ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔

ادب سے متعلق بیشتر پروگراموں کے مندوبین وہی جو کسی نہ کسی طرح آرٹس کونسل سے منسلک ہیں اور انہوں نے بھی کوشش نہیں کی کہ وہ کوئی نئی بات کریں، کوئی نیا موضوع چھیڑیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے پچھلے سال کی کانفرنس کا repeat telecast دیکھ رہے ہوں۔

ملک بھر میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ جسے اپنا آپ دکھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں مل رہا اور آرٹس کونسل پر جو لوگ دہائیوں سے براجمان ہیں وہی نئے لوگوں کے لئے جگہ نہیں چھوڑ ریے۔

ٹھیک ہے کہ لیجنڈری کو سننے کی بھی الگ اہمیت ہے۔۔ مگر ہر دوسرا لمبے عرصے سے قابض شخص لیجنڈری نہیں ہوتا۔۔

خواتین کی نمائندگی والے پروگرام میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی جس نے گائنی ھیلتھ پر اتنا کام کیا ہے، ان کو اس کا حصہ نا بنانا قابلِ افسوس ہے۔ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنوئے تک رسائی حاصل نہ کرنا قابل افسوس ہے۔

مشاعرے؟ ایک تو مشاعروں میں بھی یہی مسئلہ، سب پرانے چہرے اور وہ بھی وہ شعر کہتے رہے جو ہم اسی جگہ پر ان سے کئی مرتبہ سن سکے۔۔ آخر عشق معشوقی والے شعروں سے بار بار کتنا لطف لیا جا سکتا ہے؟

باہر سے آئی خواتین شاعرات "خوشبو میں بسے خط" والی شاعرات تھیں۔

احتجاج کا زبردست شاعر منصور اسے اس مرتبہ مشاعرے میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ پچھلے سال اس کا عوام کو اپنے شعروں سے کھینچ لینا بہت سے پھیکے شعرا اور منتظمین کو پسند نہیں آیا۔

البتہ ہدایت سائر کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔

علاقائی ادب کے ساتھ جو حال ہوا وہ عابد میر روزانہ کی بنیاد پر لکھ چکے۔

مجھے جو اس سے بھی زیادہ بڑا شکوہ ہے، وہ یہ ہے کہ اس عالمی کانفرنس میں ہم نوجوانوں کی نمائندگی کے نہ ہونے کا برابر ہونا تھا۔ کیا پاکستان بھر میں نوجوان اور باکمال شعرا کی کمی تھی؟

شہزاد مہدی، ماہ نور رانا اور کئی ایسے شعرا جن کو ہم سوشل میڈیا پر پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور وہ ان پرانے شعرا اور خاص طور پر یہ باہر سے آئے شعرا سے بہت زیادہ اچھے شعر کہتے ہیں۔۔

مشاعروں میں شاعری سے محبت کرنے والے لوگ بیزار ہوئے جبکہ شاعری سے نابلد لوگوں کی اکثریت سنتی رہی۔ جیسے ہمارے جو ڈرامے جتنے زیادہ برے ہوتے ہیں اتنی ہی ان کی اچھی ریٹنگ آ رہی ہوتی ہے اور فنکار وہ ریٹنگ شئیر کر کرکے خود فریبی کا شکار رہتے ہیں۔ جب کوالٹی گرتی ہے تو بات نمبروں تک محدود رہ جاتی ہے۔

ان میں سے کوئی عالمی کانفرنس میں پڑھتا تو ہمیں اتنی ادبی تنہائی کا سامنا نا کرنا پڑتا (The Literary Isolation)۔

کتابوں کی رونمائی میں اچھی کتابوں کے ساتھ کئی ایسی کتابیں شامل تھیں جن کو میں چیلنج کر سکتی ہوں کہ میری کتابوں اور ان کا مقابلہ کرا لیں، نازیہ کامران کاشف، طاہرہ کاظمی، احسن بودلہ، سید عاطف کاظمی، مزاح میں عین حیدر، ان کی کتابوں سے موازنہ کر لیں تو معلوم ہو جائے کہ ان کتابوں کو عالمی کانفرنس میں شامل کرنے کا Criteria کیا ہے۔

پنجابی شاعری میں ساھیوال کی ردا اور معلوم نہیں کتنے نام آ رہے ہیں ذہن میں۔ آرٹ کونسل کا کام ہے کہ ملک بھر سے فنکاروں کو اکھٹا کرے، ان کو سپورٹ کرے اور ان کو limelight دے۔ مگر یا تو اقربا پروری ہے اور یا جو پہلے سے سپر اسٹار اور لائم لائٹ میں آئے فنکار ہیں، یہ ان کو آگے بڑھنے دے رہا ہے جو پہلے ہی کافی آگے ہیں۔

آرٹس کونسل کا کام ہے کہ وہ آرٹسٹ جو باکمال ہو، اس کی آواز کو لوگوں تک پہنچائے۔۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب جب ادب میں سیاست گھسائی جاتی ہے، ادب کی موت ہو جاتی ہے اور عالمی کانفرنس پچھلے سال بیمار ہوئی تھی، اس مرتبہ کومے میں ہے۔۔ یہی حال رہا تو اگلے سال یہ مر جائے گی۔

آرٹس کونسل کو چاھیے کہ ملک بھر سے نئے اور باکمال فنکاروں سے رابطے کرے، ان کے لیے ممبر شپ کا اہتمام کرے اور آئندہ سال نئے چہرے، نئی سوچ اور افکار کو راستہ دے۔ فنکاروں کو اب آرٹس کونسل کی نہیں آرٹس کونسل کو فنکاروں کی ضرورت ہے۔

وگرنہ ہمیشہ کی طرح نوجوان فنکاروں کو کسی نے پلیٹ فارم نہیں دیا، بڑے گھنے درختوں نے ہمیشہ کی طرح یہی کوشش کی کہ ان کے سائے میں اگنے والی نئی کونپلیں کبھی پودا نا بن پائیں۔۔ تو ایسے میں ایک سوشل میڈیا ہے جس نے فنکار کو اس کے کام کو پہچان دی، اس کی audience دی۔

ایک فنکار کا فن ایک ایسی خوشبو ہے جو ہر سوں پھیل کر ہی رہتی ہے۔۔ سوشل میڈیا نے بڑے درختوں میں محتاجی ختم کر دی ہے۔ آرٹس کونسل کو چاھیے کہ میرٹ پر سمجھوتا کرنا بند کرے۔

میں ایک ایک پروگرام پر لکھنا چاہتی تھی لیکن کانفرنس کے دوران لکھ کر عوام کو وہاں جانے سے روکنا نہیں چاہتی تھی اس لیے خاموش رہی۔ لیکن اب خاموشی مفاہمت اور غلامی ہوگی، جو ایک ادیب کے قلم کی غیرت کو گوارہ نہیں۔

ملک بھر سے آئے ادیبوں، فنکاروں اور قارئین سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور اس میں آرٹس کونسل کو کرہڈٹ جاتا ہے کہ وہ اتنا آرام دہ ماحول مہیا کرتے ہیں کہ ہم سوشلائز کر لیتے ہیں۔

ملک میں فنکاروں کےلیے یہ ایک ہی پلیٹ فارم ہے۔۔ اس پلیٹ فارم پر بھی اگر ہمیں اپنا آپ غیر متعلقہ لگے گا تو۔۔ تو کیا فائدہ۔۔

Check Also

18wi Urdu Aalmi Conference, Purane Chehre Aur Purani Baatein

By Teeba Syed