Kabhi Khud Ko Bhi Badlein
کبھی خود کو بھی بدلیں

نیا سال آیا ہے پرانی ریت کے ساتھ
اگر خیال نہ بدلا تو وقت بھی وہی رہے گا
نیا سال شروع ہونے کو ہے ہر سال کی طرح اس بار بھی بالخصوص یورپ میں تو آتش بازی، موسیقی رنگ اور شور کے درمیان سال کی رخصتی اور نئے سال کا استقبال ایک باقاعدہ رسم بن چکا ہے۔ وقت کے سینے پر جشن کے چراغ جلائے جاتے ہیں رات کو دن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے روشنی کی کثرت اندھیروں کو خودبخود ختم کر دے گی اور اب یہ مناظر صرف یورپ تک محدود نہیں رہے ان کی پرچھائیاں پوری دنیا پر پھیل چکی ہیں۔ ہر طرف رنگا رنگ پروگرام ہیں کوئی لہو و لعب کی محفلیں سجا رہا ہے کسی کے لیے نیا سال شور موسیقی اور لمحاتی خوشی کا نام ہے تو کوئی دعائیہ تقریبات میں مصروف ہے، ہاتھ اٹھائے نئے سال سے بہتر کل کی التجا کر رہا ہے اور کوئی سنجیدگی سے بیٹھ کر نئی منصوبہ بندیاں کر رہا ہے۔ ڈائری کے نئے صفحے پر پرانے خواب نئے عنوان کے ساتھ لکھ رہا ہے ہر انسان اپنی عقل اپنے ظرف اور اپنی ترجیحات کے مطابق نئے سال کو ویلکم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اصل سوال مگر یہ نہیں کہ ہم نے نئے سال کی شام کیا کیا بلکہ یہ ہے کہ ہم نئے سال کی صبح خود کیسے ہوں گے؟ وہی سوچ، وہی عادتیں، وہی رویے وہی شکایتیں یا کچھ اندر سے بدلا ہوا انسان؟
لوگ اکثر پوچھتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں کہ آنے والا نیا سال کیسا ہوگا؟ کیا یہ سال خوشیوں کی نوید لائے گا یا پرانی مشکلات کے سائے مزید گہرے ہوجائیں گے؟ میں تو یہی کہوں گا کہ نیا سال بھی ویسا ہی رہے گا جیسا پرانا تھا تاریک بوجھل اور بے رنگ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے یہ تبدیلی کا سفر کیلنڈر کی شیٹوں سے نہیں جڑا نہ ہی دنوں مہینوں اور سالوں کی گردش سے یہ تو انسان کی ذات سے جڑی ہے اس کے کردار کی گہرائیوں سے اس کی سوچ کی وسعتوں سے اور اس کی حکمت عملی کی پختگی سے جیسے کوئی پرانی دیوار جو برسوں کی بارشوں سے کٹتی رہے مگر اسے دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے ہاتھوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔
اگر انسان نہ بدلنا چاہے تو 78 سال تک نہیں بدلتا جیسے گلگت بلتستان کے سادہ لوگ جو 78 برسوں سے ایک خواب کی آس میں جی رہے ہیں۔ ہر طلوعِ آفتاب کے ساتھ وہ سوچتے ہیں کہ شاید اگلا سال انہیں حقوق کی روشنی دے گا بجلی کی کرنیں ان کی تاریک وادیوں کو روشن کریں گی اور پکی سڑکیں ان کی جدوجہد کو آسان بنا دیں گی یہی امیدیں باندھتے باندھتے یہی خواب دیکھتے دیکھتے 78 سال بیت گئے جیسے کوئی لمبی تھکا دینے والی رات جو کبھی ختم نہ ہو مگر کیا ملا کچھ بھی تو نہیں۔
اگر کچھ ملا تو صرف جھوٹے وعدے کھوکھلی باتیں جو ہر پانچ سال بعد الیکشن کی ہوا میں اڑتی رہتی ہیں یہ وعدے جیسے صحرا کے وہ سراب جو دور سے پانی لگتے ہیں مگر قریب جا کر صرف ریت کے ڈھیر ثابت ہوتے ہیں۔ دراصل تبدیلی کی یہ حقیقت ہے کہ کوئی چیز خود بخود نہیں بدلتی کیلنڈر کی گھڑیاں ٹک ٹک کرتی رہیں گی دن رات کا چکر قدرت کی اس ابدی ترتیب سے چلتا رہے گا مگر انسان کی وہ باطنی دنیا اس کی سوچ اس کے اعمال تب تک جامد رہے گی جب تک وہ خود اسے ہلا نہ دے۔
یہ بدلاؤ کا عمل کیلنڈر کی شیٹ پلٹنے سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں اٹھنے والے طوفان سے پیدا ہوتا ہے گلگت بلتستان کے لوگوں نے اسی روش کو اپنا کر 78 سال غلامی کی زنجیروں میں کاٹ دیے جیسے کوئی پرندہ جو پنجرے میں بیٹھا آسمان کی طرف دیکھتا رہے مگر پرواز کی ہمت نہ کرے انہوں نے کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچا کہ اب ہم بدلیں اب ہم اٹھیں اب ہم جدوجہد کریں۔ اب تو یہ سوچ ہر طرف پھیل چکی ہے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں آنکھیں بند کیے خواب دیکھ رہے ہیں کہ یہ سال کچھ نہ کچھ بدل دے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ سال گزر جائیں گے جیسے دریا کا پانی بہتا رہے، مگر کنارے وہی رہیں گے کچھ بھی نہیں بدلے گا سوائے ایک ڈیجیٹ کے 2025 سے 2026۔
یہ تبدیلی محض عددی ہے جیسے کوئی پرانی کتاب کا صفحہ پلٹنا مگر کہانی وہی پرانی رہے گی ساعتیں بدلنے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ یہ ایک ابدی سچائی ہے حالات کو بدلنے کے لیے انسان کو خود اٹھنا پڑتا ہے محنت کرنی پڑتی ہے جدوجہد کی آگ جلانی پڑتی ہے۔ یہ جیسے کوئی بیج بو کر پانی دینا دیکھ بھال کرنا اور پھر پھل کی امید کرنا اگر ہم اپنے اطوار بدلیں خیالات کو نئی راہ دیں سوچ کو وسعت بخشیں تو پھر نیا سال واقعی نیا ہوگا روشن، پر امید اور تبدیلیوں سے بھرپور ورنہ، یہ گردشِ زمانہ تو چلتی رہے گی مگر ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہیں گے انتظار کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔
اب وقت ہے کہ ہم خود کو بدلیں کیونکہ تبدیلی کی چابی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے۔ آج بھی منظر وہی ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے لوگ نظریں کیلنڈر پر امیدیں تاریخ پر کوئی کہتا ہے اس سال کچھ نہ کچھ بدل جائے گا کوئی کہتا ہے شاید اس بار حالات بہتر ہوں مگر سال گزر جاتا ہے حالات وہیں کھڑے رہتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ سال نہیں بدلتے، لوگ بدلتے ہیں اور جب لوگ بدلنے کا حوصلہ پیدا کر لیں تو پھر سال مہینے اور دن خود بخود معنی اختیار کر لیتے ہیں ورنہ کیلنڈر تو ہر حال میں پلٹتا رہے گا اور ہم ہر دسمبر کے آخر میں یہی سوال دہراتے رہیں گے نیا سال کیسا ہوگا؟
سال اپنی فطری رفتار سے بدلتا رہتا ہے سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے کسی کا انتظار نہیں کرتے مگر انسان وہ واحد مخلوق ہے جو برسوں ایک ہی جگہ کھڑی رہ سکتی ہے۔ صرف تاریخ بدلنے کا شور مچا کر خود کو دھوکہ دے سکتی ہے کہ شاید کچھ بدل گیا ہے ہم ہر دسمبر کے آخر میں خود کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ نیا سال آئے گا تو سب بہتر ہو جائے گا مہنگائی کم ہو جائے گی ناانصافیاں ختم ہو جائیں گی محرومیاں خود بخود مٹ جائیں گی مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود بھی بہتر ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے رویے اپنی بے حسی اپنی خاموش رضامندی پر کبھی غور کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ سال ہمیں نہیں بدلتا ہم سال کو بدلنے کا مطلب دیتے ہیں اگر انسان اندر سے وہی رہے تو نیا سال صرف ایک اور تاریخ ہے ایک اور صفحہ جس پر پرانی کہانی دوبارہ لکھی جائے گی لیکن اگر انسان سوچ بدل لے خود احتسابی کا آغاز کرے، تو عام سا دن بھی تاریخ بن سکتا ہے۔ اس نئے سال کے آغاز پر شاید سب سے خوبصورت جشن یہی ہو کہ انسان خود سے وعدہ کرے میں خود کو بدلوں گا سال تو بدلتے رہیں گے مگر اگر میں نہ بدلا تو ہر نیا سال بھی پرانا ہی ہوگا اسلئے اس دفعہ سال کے بدلنے کا نہیں سوچیں خود کو بدلیں۔

