حقیقتیں
مکالمہ ایسی صنف ہے جس میں انسان محض استدلال پیش نہیں کرتا بلکہ اپنی پوری تہذیبی یادداشت، اپنے فکری ماخذ اور اپنی وجودی سمت کو ساتھ لے کر گفتگو میں شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکالمہ محض اختلاف رائے کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ انسانی شعور کے دو مختلف مواقف کے درمیان خاموش کشمکش کا اظہار بن جاتا ہے۔ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان ہونے والا مکالمہ بھی اسی نوعیت کی ایک تہذیبی کشمکش تھی۔
جاوید اختر مذہب کو محدود اور پابندیوں کا قید خانہ ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن مفتی شمائل ندوی نے ثابت کیا کہ دین انسان کو بصیرت کے ساتھ انتخاب کی آزادی عطا کرتا ہے۔ عبادت غلامی نہیں بلکہ شعوری وابستگی ہے۔ شریعت انسان کو ذمہ داربناتی اور اخلاقی آزادی کی حفاظت کرتی ہے۔ جاوید اختر انسان کو آزاد مگر بغیر مقصد چھوڑ دیتے ہیں، مفتی شمائل ندوی انسان کو آزادی بھی عطا کرتے ہیں اور مقصد بھی دیتے ہیں۔ یہی فکری غلبہ مفتی شمائل ندوی کے حق میں مکالمے کو مضبوط جاوید اخترروایت کو قدیم اور غیر ضروری سمجھتے ہیں مگرشمائل ندوی ثابت کرتے ہیں کہ روایت روحانیت، تجربے اور انسانی شعور کا نچوڑ ہے۔ یہ تجربہ محض الفاظ یا رسموں کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کے پیچیدہ مسائل میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مکالمے میں یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ جاوید اختر کے دلائل وقتی اور سطحی لگتے ہیں جبکہ مفتی شمائل ندوی کی دلیل انسانی شعور اور فکری تسلسل سے جڑی ہوتی ہے۔
اخلاقی اقدارکی بنیاد اگر انسانی عقل پر ہوتو ہر عہد کی اقدار بدلتی رہتی ہیں۔ مفتی شمائل ندوی واضح کرتے ہیں کہ مذہب اخلاقیات کے اصول اور معیار فراہم کرتاہے۔ جاوید اخترانسانی عقل کی بنیاد پر اخلاقیات کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں ان کا مؤقف بے وزن لگتا ہے۔ جاوید اختر کی گفتگو میں سوالات کی بارش ہوتی ہے مگر جب ان سے جوابات طلب کیے جاتے ہیں تو وہ لاجواب ہوجاتے ہیں۔
مفتی شمائل ندوی ہر سوال کا جواب صبر، وضاحت اور دلیل کے ساتھ دیتے ہیں۔ مکالمے میں صرف سوال اٹھانا کافی نہیں ہوتا بلکہ جواب دینے کی صلاحیت اور اس کا فہم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جاوید اختر عقل کو آخری حقیقت مانتے ہیں جبکہ مفتی شمائل ندوی بتاتے ہیں کہ عقل اور وحی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ عقل انسان کو راہ دکھاتی ہے، وحی اسے مقصد اور سمت عطا کرتی ہے۔ صرف عقل کو امام مان کرجاوید اختر کی دلیل محدود ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ وہ صرف عقل کے دائرے میں سوچتے ہیں جبکہ مفتی شمائل ندوی کا موقف انسانی اور فکری طور پر مکمل اور قابلِ اعتماد محسوس ہوتا ہے۔
مفتی شمائل ندوی مذہب کو محض عقیدہ نہیں بلکہ علم، مشاہدہ اور تجربے کا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ مذہب انسان کو راہنما ئی بھی عطا کرتاہے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی ہے۔ جاوید اختر کے بیانیے میں جذباتی لہجہ اور تمسخرانہ انداز زیادہ ہے اس لیے وہ دلیل میں وزن حاصل نہیں کر پاتے۔ یہی فرق مکالمے میں مفتی شمائل ندوی کو فکری برتری عطا کر تا ہے۔ مفتی شمائل ندوی بتاتے ہیں کہ عبادت اور شریعت انسان کو مقصد یت اور معنویت عطا کرتی ہیں۔ جاوید اختر انسان کو آزادی تو دیتے ہیں مگر مقصدیت و معنویت نہیں دیتے اور اسی وجہ سے ان کا موقف بے ربط اور ادھورا لگتا ہے۔ انسانی زندگی میں مقصد یت کی ضرورت واضح ہے اور مفتی شمائل ندوی اس حقیقت کو سادہ اور واضح انداز میں پیش کرکے مکالمے کی فضا کو اپنے حق میں ہموار کرلیتے ہیں۔ مفتی شمائل ندوی شائستگی اور متانت کے ساتھ بات کرتے ہیں جبکہ جاوید اختر طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ شائستگی اور متانت خود ایک دلیل ہوتی ہے۔
مکالمہ میں فتح صرف آواز کی بلندی یا سوالات کی تعداد سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مدلل، منطقی اور حقیقت پر مبنی جواب سے حاصل ہوتی ہے۔ مفتی شمائل ندوی کی باتیں زمین سے جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جبکہ جاوید اختر کی باتیں ہوائی محسوس ہوتی ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جس میں مکالمے کی فتح مفتی شمائل ندوی کے حق میں طے ہوتی ہے اور جاوید اختر کی کمزوری نمایاں ہو جاتی ہے۔ مفتی شمائل ندوی بار بار یہ واضح کرتے ہیں کہ مذہب نظریہ و عمل کانام ہے۔ جاوید اختر کے دلائل اس حوالے سے سطحی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ صرف طنز اور تنقید پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ مفتی شمائل ندوی حقیقت پسندی اور عملی بصیرت کے ساتھ موقف اختیار کرتے ہیں۔
مفتی شمائل ندوی ثابت کرتے ہیں کہ مذہب انسان کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اسے ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ذمہ داری معاشرے، دوسروں اور اپنے اعمال کے لیے شعور پیدا کرتی ہے۔ جاوید اختر انسان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ مقصدیت اور ذمہ داری کے بغیر آزادی اکثر الجھن اور اضطراب پیدا کرتی ہے۔ مفتی شمائل ندوی کا انداز سادہ مگر معنی خیز ہے۔ وہ پیچیدہ دلیلوں میں الجھے بغیر حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ جبکہ جاوید اختر کے بیانیے میں تصنع اور خود ساختہ فکری پیچیدگی نظر آتی ہے۔ سادگی اور حکمت ہی اصل فکری طاقت ہے۔
دلیل، فہم، اخلاقی وقار، شائستگی اور بصیرت ہی فتح کا نشان روشن کرتے ہیں۔ سوالات جتنے بھی ہوں، آوازیں جتنی مرضی بلند ہوں فتح ہمیشہ اس مؤقف کی ہوتی ہے جو حقیقت پر مبنی ہو۔ انسانی فطرت کے قریب اور مبنی بر حقیقت مؤقف ہی دلوں پر راج کرتا اور اور دماغوں کو متاثر کرتا ہے۔ مفتی شمائل ندوی نے یہی اصول اپنا کر مکالمے میں واضح فتح حاصل کی ہے۔

