قائد کی تقاریر، نجات کا راستہ
"You are free. You are free to go to your temples، you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the state."
پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام سے چند دن پہلے 11اگست 1947 کو کراچی میں نئی ریاست کے آئین کی تیاری کے لیے آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں اپنی صدارتی تقریر میں نئی ریاست کے جمہوری تشخص اور ریاست کے تمام شہریوں سے مذہب، جنس اور ذات کے امتیاز کے بغیر سلوک کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل اراکین اسمبلی اور نئی ریاست کے عوام کے سامنے پیش کردیا تھا۔
بیرسٹر محمد علی جناح نے پارلیمنٹ کی بالادستی، قانونی کی حکمرانی اور عوام کی بنیادی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے زندگی کا ایک حصہ صرف کیا تھا، یوں وہ نئی ریاست کے گورنر جنرل کے عہدہ پر فائز ہوئے اور لیاقت علی خان وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ اس قانون ساز اسمبلی نے سب سے پہلے انسانی حقوق کی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کا کام انسانی حقوق کی دستاویز تیار کرکے آئین کے پہلے باب کے طور پر شامل کرنا تھا۔
بانی پاکستان کے انتقال کے بعد برسر اقتدار آنے والے گروہوں نے ان کے جدید ریاست کے تصور سے انحراف کیا اور قرارداد مقاصد کے ذریعہ شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کی بنیاد پڑی۔ غلام محمد جیسے بیوروکریٹ ایک طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قدیم مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر کے ملک کے اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی کے عمل کا آغاز کردیا۔ پہلے گورنر جنرل غلام محمد اور پھر ایک اور بیوروکریٹ اسکندر مرزا نے حکومتوں کو بنانے اور توڑنے کا خطرناک کام شروع کیا۔
آئین ساز اسمبلی بیوروکریسی کے پیدا کرہ تضادات کی بناء پر آئین کی تیاری کا فریضہ انجام نہیں دے سکی۔ 1954 میں بلواسطہ انتخابات کے نتیجہ میں نئی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی اور 1956 کا آئین تیار ہوا۔ اس سے پہلے سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ون یونٹ میں ضم کردیا گیا جس سے چھوٹے صوبوں میں محرومی پیدا ہوئی اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کرکے دونوں صوبوں کے درمیان برابری کو اپنایا گیا۔
کراچی کی مضبوط بیوروکریسی کی چالوں کی بناء پر چھ وزیر اعظم آئے اور پھر برطرف کردیے گئے، یوں غربت و افلاس کے خاتمہ، صد فی صد خواندگی کا ہدف پورا کرنے اور ہر فرد کو روزگار اور ہر فرد کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی جیسے معاملات ریاست کی اولین ترجیحات نہیں بن سکے۔
اگرچہ 1947 سے 1958 تک برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے مہاجرین کی آبادگاری، زرعی پیداوار کو بڑھانے اور صنعتی ترقی کے لیے مختلف منصوبے تیار کیے اور ترقی کا خاصا کام ہوا مگر یہ ترقی صرف مغربی پاکستان کے چند علاقوں تک محدود رہی۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے مارچ 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ ایک جمہوری ریاست میں فوج کے کردار کے بارے میں کلیدی خطہ پیش کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:
"Do not forget that armed forces are the servants of the people. You do not make national policy; it is we، the civilians، who decide these issues and it is your duty to carry out these tasks with which you are entrusted."
90ء کی دہائی تک حکومتوں کے بننے اور توڑنے کے عمل میں کسی نہ کسی نوعیت کا کردار ادا کرنے والے روئیداد خان نے پی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بانی پاکستان کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس بناء پر انھوں نے اسٹاف کالج میں یہ خطاب کیا تھا۔
ایوب خان کے دور میں کراچی اور لاہور میں صنعتی ترقی ہوئی، اسلام آباد کا نیا شہر بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین نافذ کیا۔ یہ آئین جنرل ایوب خان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔ جنرل ایوب خان کی پالیسیوں میں ملک کے اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ ملک کے بانی کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں منظم دھاندلی کے ذریعہ شکست دی گئی۔ ایوب خان کی حکومت عوام کے جذبات کا ادراک نہیں کرپائی۔ 1968 کی عوامی تحریک کے نتیجہ میں وہ اقتدار سے محروم ہوئے۔
جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو ملک میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، مگر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار عوامی لیگ کو اسمبلی میں اکثریت کے باوجود اقتدار منتقل نہیں کیا۔ سندھ اور پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے آپریشن کی حمایت کی اور ڈھاکا سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر کہا کہ "خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔"
16دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی کوششوں سے 1973 کا آئین بنا۔ یہ ملک کی تاریخ کی اتنی اہم دستاویز ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس آئین پر متفق ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کا تختہ الٹا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعہ قتل کیا گیا جسے اب تمام رہنما Judical Murder قرار دیتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکی سی آئی اے کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے افغانستان کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔
امریکا نے جہاد کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا۔ افغان مسئلہ سے پاکستان براہِ راست متاثر ہوا۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکیں مگر ان جماعتوں نے کرپشن کو اپنے ایجنڈہ کا حصہ بنایا۔ 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کی آئینی حکومت کو برطرف کیا اور ملک ایک دفعہ پھر افغانستان کے بحران کا حصہ بن گیا۔ کابل میں لڑی جانے والی جنگ کراچی تک پہنچ گئی۔
رواداری اور جمہوری اداروں کے استحکام کا ایک دور آیا۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 2005 میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا جس کی بناء پر تاریخ میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی مگر ان حکومتوں کے اقتدار کے دو دو سال بعد ہی انھیں مفلوج کر دیا گیا۔ عمران خان نئے پاکستان کے وعدہ پر اقتدار میں آئے۔ مگر نیا پاکستان وجود میں نہ آسکا۔
پاکستان اپنی آزادی کے 74 برسوں کے بعد بھی مستقل بحران کا شکار ہے۔ 16دسمبر 1971 کو پاکستان سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش پاکستان سے ترقی کے تمام انڈیکیٹرز میں آگے ہے۔ تعلیم، صحت، خواتین کی مردوں کے برابر نمایندگی، غربت کی شرح اور زچہ و بچہ کی اموات کے تناظر میں پاکستان بھارت، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ سے بھی پیچھے ہے۔ 70ء برسوں کے دوران ہر حکمراں کشمیر کی آزادی کا صرف نعرہ لگاتا رہا ہے۔
پاکستان کے بیشتر شہروں میں صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے اور ملک میں ایک ریلوے لائن اور بجلی کی ایک ہی ٹرانسمیشن لائن ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اولمپک کھیلوں میں کوئی تمغہ حاصل نہ ہونے کے باوجود ناکامی کا جشن بنایا گیا۔ پاکستان میں رونما ہونے والے تضادات کا حل بانی پاکستان کی 11اگست 1947 کی پالیسی تقریر اور مارچ 1948 میں بیرسٹر جناح کی اسٹاف کالج کوئٹہ میں کی گئی تقاریر پر عملی طور پر عملدرآمد پر ہی منحصر ہے۔