کے پی میں علمی آزادی خطرہ میں…
تعلیمی ادارے بنیادی طور پر سماجی ادارے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی نسلیں سماج کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تعلیمی اداروں میں یونیورسٹیوں کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یونیورسٹیوں میں بالغ نوجوان لڑکے لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ہی عملی زندگی میں کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے ارتقاء اور علم کے ادارہ (Knowledge) کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یونیورسٹیوں میں طلبہ محض تعلیم حاصل نہیں کرتے، بلکہ طلبہ اور اساتذہ تحقیق کا بنیادی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں انسانوں، جانوروں، پرندوں، زمین، آسمان و سمندر غرض ہر موضوع پر تحقیق کی جاتی ہے۔
تحقیق کے لیے وسائل کے ساتھ ساتھ آزادی کے ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے جس کو علمی آزادی Academic Freedom کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں اپنا نصاب خود تیار کرتی ہیں۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے تقرر بھی یونیورسٹیاں کرتی ہیں اور یونیورسٹیوں کے مختلف ادارے تحقیق کے موضوعات طے کرتے ہیں اور تحقیق کے معیار کی نگرانی کرتی ہیں۔ اسی بناء پر یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر خودمختار قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے تعلیم کو بنیادی اہمیت نہیں دی گئی، یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی حیثیت سپیریئر سروس کے افسروں کے مقابلہ میں ثانوی تھی۔ مختلف غیر ملکی منصوبوں کے تحت یونیورسٹیوں کی تعمیر اور سہولتوں کی فراہمی کے مراحل طے ہوتے تھے مگر پہلے کراچی میں قائم مرکزی حکومت اور پھر اسلام آباد کی مرکزی حکومت نے یونیورسٹیوں کی ترقی، یونیورسٹیوں کی خودمختاری پر توجہ نہیں دی تھی۔
جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے ادوار تک صوبائی محکمہ تعلیم یونیورسٹیوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا مجاز تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت 20 دسمبر 1971ء کو قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1972ء میں اپنی پہلی تعلیمی پالیسی پیش کی۔ اس پالیسی کے تحت نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ کیا گیا اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے بنیادی فرائض میں یونیورسٹیوں کومالیاتی اعانت فراہم کرنا اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے پروگراموں کا انعقاد کرنا تھا اور اسکالرشپ کے اجراء کا فیصلہ کرتا تھا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے یونیورسٹیوں کو مکمل خودمختاری دینے کے لیے نیا قانون بنایا۔ اس قانون کے تحت اساتذہ اور طلبہ کے نمائندوں کی یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں میں نمائندگی دی گئی اور اساتذہ کو سپیریئر سروس کے افسروں کے ابتدائی گریڈ 17 تفویض کیے گئے۔
وائس چانسلر وں کے لیے اسپیشل گریڈ نافذ ہوا اور وائس چانسلر کی حیثیت وفاقی سیکریٹری کے برابر کردی گئی اور فیکلٹی کے ڈین کے لیے اساتذہ کو تین سینئر پروفیسروں میں سے ووٹ کے ذریعہ انتخاب کا حق دیا گیا۔ اسی طرح علمی اداروں کے مستحکم ہونے کا عمل شروع ہوا، مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے اس قانون میں یکطرفہ تبدیلیاں کیں۔ یونیورسٹیوں کے بنیادی اداروں میں طلبہ یونین کی نمائندگی ختم کردی گئی، اساتذہ سے اپنے کلیہ کے ڈین کے انتخاب کا اختیار واپس لیا گیا اور یونیورسٹی کے اہم ادارے سنڈیکیٹ میں بیوروکریسی کی اراکین کی تعداد بڑھادی گئی۔
نئی صدی کے گلوبلائزیشن کے انقلاب کے ساتھ آغاز ہوا۔ جنرل پرویز مشرف حکومت نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا درجہ بلند کر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC قائم کیا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ایچ ای سی کو بھاری مقدار میں امداد دی۔ پرویز مشرف حکومت نے نئی یونیورسٹیوں کے قیام پر مکمل توجہ دی۔ پرویز مشرف کے دور میں خیبر پختون خوا کے دور دراز کے علاقوں میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ ان میں سے ایک یونیورسٹی مالاکنڈ میں قائم ہوئی۔
مالاکنڈ افغانستان کی سرحد سے قریب ہے۔ یہ علاقہ بہت عرصہ تک طالبان کے حملوں کی زد میں آیا۔ مالاکنڈ یو نیورسٹی کے اساتذہ نے مشکل ترین حالات میں سخت محنت کی۔ اس وقت یونیورسٹی میں 26کے قریب تعلیمی شعبے ہیں، جن میں میڈیا سائنس اور بزنس مینجمنٹ کے علاوہ بنیادی سائنس کے شعبے شامل ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں 6ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں جن میں خواتین کا تناسب 17 فیصد ہے، اگرچہ دیگر یونیورسٹیو ں کے مقابلہ میں یہ تناسب کم ہے مگر مالاکنڈ جیسے پسماندہ علاقہ میں خواتین کا یہ تناسب غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی میں 8کے قریب ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام چل رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عثمان کا شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن ہے۔ انھوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر کی ڈگری انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی، مالاکنڈ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا اور چین میں اعلی تعلیم کے لیے منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر عثمان نے 2011 میں چین کی ووہان یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر عثمان پاکستان آئے تو انھیں محسوس ہوا کہ مالاکنڈ یونیورسٹی کی انتظامی اور مالیاتی صورتحال بہتر نہیں ہے اور یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی بارے میں غور نہیں ہورہا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل اساتذہ مستقل نہ ہونے سے ڈپریشن کا شکار ہیں اور کچھ اساتذہ یونیورسٹی کو خداحافظ کہنے پر غور کررہے ہیں۔ مالاکنڈ یونیورسٹی کے اساتذہ نے متحد ہوکر اپنی تنظیم مالاکنڈ یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن قائم کی۔
اساتذہ کی انجمن نے اساتذہ کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے اور علمی آزادی کے ادارہ کو مستحکم کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ ڈاکٹر عثمان انجمن میں شامل ہوئے تو انجمن زیادہ فعال ہوئی۔ ڈاکٹر عثمان نے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنے بے باک خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین کے اجلاسوں میں شرکت کی اور لیکچرز دئیے۔ ڈاکٹر عثمان کا یہ تخلیقی کام ان کے لیے مشکل بن گیا۔ انتظامیہ نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کردی۔ خیبر پختون خواہ میں اب تک گورنر صاحب یونیورسٹیوں کے معاملات دیکھتے ہیں مگر گورنر ہاؤس بھی خاموش ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور علمی آزادی جیسے بنیادی حقوق کی اہمیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عثمان صاحب کو محض اپنے خیالات کی بناء پر عتاب کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر عثمان جو جدوجہد کررہے ہیں اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔
یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اپنے حق کے لیے ہر دور میں مثالیں قائم کی ہیں، ان میں ڈاکٹر ظفر عارف، ڈاکٹر نیر، ڈاکٹر پرویز ہودبھائی، ڈاکٹر ریاض احمداور ڈاکٹر سرفراز جیسے اساتذہ نے علمی آزادی کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی مثالیں قائم کی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں ڈاکٹر عمار اور ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے لیے یونیورسٹیوں میں داخلے بند کیے گئے۔
ولی خان یونیورسٹی میں مردان میں ایک ترقی پسند طالب علم مشال کو اس کے خیالات کی بناء پر یونیورسٹی میں قتل کیا گیا، یونیورسٹیوں کو مالی امداد نہ دے کر معاشی طور پر مفلوج کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ اب ڈاکٹر عثمان جیسے حریت پسند استاد کو مالاکنڈ یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کے منصوبہ پر کام ہورہا ہے۔ یہی وقت ہے کہ علمی آزادی کی اہمیت کو سمجھنے والے باشعور افراد کو ڈاکٹر عثمان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔