جرگہ کا نظام، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف
سندھ میں ایک تعلیم یافتہ خاتون نے ایک دوسرے قبیلے کے نوجوان سے شادی کا فیصلہ کیا۔ جب ان دونوں کے والدین اس رشتہ کے لیے تیار نہیں ہوئے تو انھوں نے اسلام اور آئین پاکستان کے اصولوں کے تحت شادی کا فیصلہ کیا۔ مگر ان کے اس فیصلہ سے دونوں قبائل کی فرسودہ روایات کو جھٹکا لگا اور قبائل کا جرگہ ہوا۔
اس جرگہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ لڑکی کا اپنا آئینی حق استعمال کرنے کا فیصلہ قبائل کی ہزار سالہ روایات کی پامالی کے مترادف ہے۔ اس بناء پر اس شادی کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں کے خلاف پنوں عاقل تھانہ میں زنا آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ اس واقعہ کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔
اختر بلوچ معروف محقق ہیں، وہ اس زمانہ میں انسانی حقوق کمیشن HRCP سندھ کے کو آرڈینیٹر تھے۔ اختر بلوچ نے اس جوڑے کی بازیابی کے لیے 3 نومبر 2003 کو ایچ آر سی پی کے وکیل امداد اعوان کے ذریعہ سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس روشن علی عیسانی اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے اس مقدمہ کی سماعت کی۔
معزز عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ جرگہ کا انعقاد غیر قانونی ہے اور قبائل کے جرگے انسانی حقوق پامال کرتے ہیں اور جرگہ کو قطعی طور پر حق نہیں کہ شادی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرے۔ اختر بلوچ اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس جوڑے کی جان خطرہ میں تھی اور انھیں مجبوراً یورپ جانا پڑا جہاں ایک ملک میں انھیں سیاسی پناہ مل گئی۔
سابقہ کمیونسٹ پارٹی کے فعال کارکن اور معروف وکیل شبیر شر نے اپریل 2004 میں قبائل کے جرگے کے انعقاد کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں عر ض داشت داخل کی تھی اور اس عرضداشت کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کی سکھر بنچ میں ہوئی۔ جسٹس رحمت حسین جعفری نے شبیر شر کی عرضداشت کو منظور کرتے ہوئے یہ معرکتہ الآراء فیصلہ قلم بند کیا تھا کہ جرگے کسی صورت جدید عدالتوں کا نعم البدل نہیں ہیں اور جرگوں کے فیصلے قانون کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہیں اور جرگوں کے فیصلوں سے آئین میں دئیے گئے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔
اس بناء پر پورے صوبہ میں جرگوں کے انعقاد پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد جرگوں کے انعقاد میں کمی آئی تھی اور جرگے منعقد ہوتے تھے اور ان کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی تھیں تو جرگوں میں شریک قبائلی سردار اور سیاسی رہنما اس کی تردید کرتے تھے مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ جرگوں کے انعقاد میں تیزی آئی اور جرگوں کے انعقاد کی خبریں مسلسل ذرائع ابلاغ کی زینت بننے لگیں۔
گزشتہ ہفتہ سکھر کے کچے کے علاقہ میں دو قبائل میں خونریز تصادم ہوا، یہ تصادم کئی دن تک جاری رہا۔ یہ تصادم سکھر سے پھیل کر اطراف کے علاقوں تک پہنچ گیا۔ اس تصادم میں دونوں طرف کے کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ پولیس نے اس تصادم کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔ تصادم کی وجہ جانوروں کی چوری اور کچے کی زمینوں پر قبضہ تھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنوعاقل کے علاقہ میں ان دو قبائل کے درمیان خونی تنازعہ کا تصفیہ سکھر کے مقامی ہال میں ہوا۔
اجتماع کے دوران فریقین کے بیانات لیے گئے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا گیا۔ اس فیصلہ کے مطابق ایک قبیلہ پر دوسرے قبیلہ کی تذلیل کرنے اور لوگوں کو زخمی کرنے پر مجموعی طور پر 17لاکھ روپے اور دوسرے قبیلہ پر پہلے قبیلہ کی تذلیل کرنے اور لوگوں کو زخمی کرنے پر مجموعی طور پر 14لاکھ روپے ہرجانہ عائد کیا گیا۔ نامہ نگار نے لکھا ہے کہ اس فیصلہ کے بعد فریقین شیروشکر ہوگئے۔ المیہ یہ ہے کہ پولیس شہریوں کے قتل، ان کے زخمی ہونے اور آتشی اسلحہ استعمال ہونے کا محض مشاہدہ کرتی رہی۔
سندھ میں اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ سند ھ مراد علی شاہ نے گزشتہ مہینہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کا فریضہ انجام دیا۔ ایپکس کمیٹی میں انتظامی افسران اعلیٰ، پولیس افسر اور رینجرز کے حکام شریک ہوئے۔ ایپکس کمیٹی کے ایجنڈا میں اندرون سندھ امن و امان کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ صوبہ میں جرگوں کے انعقاد کی اجازت دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا تعلق دادو سے ہے۔ انھوں نے امریکا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔
ان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ ایک روشن خیال تعلیم یافتہ رہنما ہیں مگر اس اجلاس میں جرگوں میں قانون اور انصاف کی پامالی جیسے اہم نکتہ اور اس بارے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نظرانداز کیا گیا۔ جرگوں میں عمومی طور پر کاروکاری، پسند کی شادی، زمینوں پر قبضے، جانوروں اور دیگر املاک کی چوری اور فرد کے قتل جیسے معاملات زیر غور آتے ہیں۔ جرگے صرف دو قبائل کے درمیان تنازعہ کی صورت میں منعقد نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی قبیلہ کے افراد کے درمیان تنازعہ بھی اسی قبیلہ کے جرگہ میں زیر غور آتے ہیں۔
جرگے میں خواتین کو مدعو نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی خاتون کو جرگے میں فیصلہ کرنے والے معزز افراد میں شامل کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر جرگوں میں خواتین سے متعلق امور پیش ہوتے ہیں، حتیٰ کہ جس خاتون کا مقدمہ پیش ہوتا ہے وہ بھی اس جرگہ میں پیش نہیں ہوسکتی۔
وومین ایکشن فورم Women Action Forum(WAF) ترقی پسند خواتین کی فعال انجمن ہے۔ وومین ایکشن فورم خواتین سے امتیازی سلوک کرنے والی خواتین کے خلاف مزاحمت کے لیے قائم ہوئی۔ وومین ایکشن فورم حیدرآباد میں خاصی متحرک ہے۔ فورم نے اندرون سندھ جرگوں کے مسلسل انعقاد اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں قبائلی سرداروں کو یہ ہدایات کہ تنازعات کے تصفیہ کے لیے جرگوں کو فعال کیا جائے کی شدید مذمت کی ہے۔
وومین ایکشن فورم کے اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ قبائلی نظام لاقانونیت اور بربریت کو تقویت دینے کا نظام تھا۔ اس نظام کے خلاف سندھ کی ترقی پسند قوتوں نے ہمیشہ جدوجہد کی تھی۔ ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی جدوجہد میں گزرا۔ اس قرارداد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ قبائلی نظام کے خاتمہ، غیرقانونی اسلحہ برآمد کرکے اور قبائلی سرداروں کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کے بجائے موجودہ پارلیمانی نظام ایک فرسودہ قبائلی نظام اور جرگوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔
ترقی پسند خواتین کا مشاہدہ ہے کہ تنازعات کے حل کے لیے جرگوں کے انعقاد سے عورتوں کے براہِ راست ضرب پڑتی ہے۔ اس قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے اس فیصلہ سے غیر جمہوری قوتوں کو قوت ملے گی۔ ترقی پسند قوتوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں قبائلی نظام کمزور ہورہا ہے مگر اب محسوس ہورہا ہے کہ ایک سازش کے تحت سندھ کے عوام کو فرسودہ قبائلی نظام کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
ڈاکٹر ریاض شیخ کا شمار معروف سماجی ماہرین میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریز دور میں جرگہ کا نظام نافذ کیا گیا جس کا مقصد عوام کو ظالمانہ نظام میں جکڑنا تھا۔ یہ نظام سندھ کے علاوہ بلوچستان اور سرحد میں بھی قائم ہوا اور سامراجی حکمرانوں نے اس نظام کے ذریعہ اپنے اقتدار کی عمر میں توسیع کی۔
ڈاکٹر ریاض شیخ کا مدعا ہے کہ ریاست کو اپنی ذمے داریوں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ عدالتی انصاف کے نظام کو آسان اور سستا بنانا چاہیے۔ پولیس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے، اسی طرح خواتین کے مقدمات کے لیے خصوصی دعدالتیں قائم ہونی چاہئیں، یوں سندھ ایک جدید معاشرہ کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ تحریک انصاف سربراہ تو اقتدار میں آنے سے پہلے قبائلی نظام اور جرگہ نظام کے مداح تھے، اب پیپلز پارٹی بھی وزیر اعظم کے نقشِ قدم پر چل پڑی ہے۔