دیکھنا ہے زورکتنا ، بازوئے قاتل میں ہے
گزشتہ سال ہونے والی قیامت خیز بارش نے کراچی کے انفرا اسٹرکچرکی زبوں حالی کو عیاں کردیا۔ اس بارش نے ایک طرف غریبوں کی بستیوں کو برباد کیا تودوسری طرف متوسط طبقہ کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی پلاننگ کی بھی خامیاں عیاں ہوگئیں اور تیسری طرف پوش ایریا کے امراء کے کروڑوں روپوں کے بنگلے ناقص ٹاؤن پلاننگ کی نذر ہوگئے۔
بارش کے پانی کی تباہی کی وجوہات منظرعام پر آئیں۔ ٹاؤن پلاننگ کے علاوہ جغرافیہ اور آبی انجینئرنگ کے ماہرین نے اس آراء پر اتفاق کیا کہ کراچی سے متصل کھیر تھر اور بلوچستان کے لسبیلہ کے علاقے سے پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں پر جب بارش ہوتی ہے تو یہ پانی نشیب میں سمندر میں جاگرتا ہے، کراچی کے آباد ہونے سے پہلے، پانی کے بہاؤ نے قدرتی ندیاں اور نالے بنا دیے تھے، ان نالوں کی تعداد 100کے لگ بھگ ہے۔
کراچی میں ٹاؤن پلاننگ کا فقدان ہے اور با اثر گروپ جن کی پولیس، مقامی انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں ہر دور میں سرپرستی کرتی رہی ہیں، ان گروہوں نے ملیر ندی، لیاری ندی اور مختلف نالوں میں کچی آبادیاں آباد کیں، نئی بستیوں اور صنعتی اداروں کا فضلہ ندی نالوں میں جمع ہوتا رہا۔
برسر اقتدار حکومتوں نے ہر دور میں دو بڑی ندیوں اور نالوں کی صفائی کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کیں مگر عرصہ دراز سے ان ندیوں اور نالوں کی صفائی کے لیے مختص رقم کہاں خرچ ہوئی کچھ لوگ یقینا یہ بات جانتے ہیں، مگرندی نالوں کی صفائی نہ ہونے سے ملیر اور لیاری ندی کے علاوہ چھوٹے بڑے نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہوا اور کچھ میں بالکل بند ہوا۔ بعض نالے کنکریٹ کی سڑکوں اور عمارتوں کے نیچے دب گئے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال پر ازخود نوٹس لیا اور تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے این ای ڈی یونیورسٹی کا آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ گجرنالہ، اورنگی نالہ اور محمود آباد نالہ وغیرہ کا سروے کرے۔
این ای ڈی کے ممتاز آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد جنھوں نے ہمیشہ مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے کی نگرانی میں سروے ہوا۔ اس سروے سے ظاہر ہوا کہ گجر اور اورنگی نالہ کے اطراف ساڑھے 5 ہزار مکانات ہیں۔ کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر اور کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والے فہیم الزماں کا اندازہ ہے کہ ان 5ہزار مکانوں میں 50 سے 55 ہزار افراد آباد ہیں۔
سروے کے نتائج کے بعد یہ تجویز پیش ہوئی کہ 30 فٹ چوڑی دو طرفہ سڑکیں تعمیر کی جائیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر سے ایک طرف ٹریفک کے دباؤ میں کمی ہوگی تو دوسری طرف نالوں کے اندر اور نالوں کے اطراف تجاوزات قائم نہیں ہونگی۔ فہیم الزماں کا مدعا ہے کہ ان سڑکوں کے درمیان گاڑیوں کے لیے یو ٹرن لینے کے لیے اور پیدل چلنے والوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پل تعمیر ہونے چاہئیں اور ان پلوں کے درمیان فاصلہ کم ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت نے این ای ڈی یونیورسٹی کے سروے کے مطابق فی مکان 15ہزار روپے ماہانہ کرایہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ کرایہ دو سال تک ہر مکین کو ملے گا مگر ساری صورتحال میں حکومت سندھ کا غریبوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ حکومت سندھ ہر فرد کو ایک پلاٹ اور مکان کی تعمیر کے لیے بلاسود قرضے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ خرم علی نوجوان مارکسٹ ہیں۔ ان کے والد نیر علی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مزدور تحریکوں کو منظم کرنے میں صرف کیا تھا۔
خرم علی طالب علم تھے تو این ایس ایف میں متحرک رہے۔ اب خرم علی عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کے کارکنوں کی ایک مضبوط ٹیم جس میں عریبہ فضاء قریشی، لیلیٰ وارث، فاطمہ فواد اور دیگر نوجوان شامل ہیں، کچی آبادیوں کے مکینوں کی مزاحمتی تحریکوں کو منظم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ خرم علی کا کہنا ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی کے سروے میں بنیادی خامیاں ہیں۔ اس سروے کے دوران کئی منزلوں پر مشتمل مکانات اور چھوٹے مکانات سے منسلک دیگر چھوٹے مکانات کو شمار نہیں کیا گیا۔ خرم علی کی ٹیم میں Dataجمع کرنے، قانون اور ٹاؤن پلاننگ کے شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ این ای ڈی کی سروے ٹیم نے زیادہ ڈیٹا ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعہ جمع کیا ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی بہت سے مکانات کی نشاندہی نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا تخمینہ ہے کہ ان علاقوں میں کئی کئی منزلہ مکانات ہیں اور ایک مکان میں چھ سے آٹھ افراد رہتے ہیں، اس بناء پر متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً ایک لاکھ کے قریب بنتی ہے۔
بیشتر مکانات کی لیز ہوئی ہے جس کی بناء پر بجلی اور گیس کے کنکشن لگے ہوئے ہیں۔ خرم علی کا مدعا ہے کہ 30فٹ کے بجائے 8فٹ چوڑی سڑک بہتر ہوگی۔ اس طرح کم لوگ متاثر ہونگے، اگر حکومت سندھ30فٹ کی سڑکیں تعمیر کرنا چاہتی ہے تو معاوضہ کی رقم ادا کی جائے۔ خرم علی کو غریبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر تین دفعہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔
گزشتہ روز خرم اور ان کے ساتھی اورنگی اور گجرنالہ کے متاثرین کے ساتھ بلاول ہاؤس جانا چاہتے تھے تاکہ بلاول بھٹو کے سامنے اصل حقائق پیش کیے جائیں مگر پولیس نے 150 کے قریب افراد کو حراست میں لے لیا۔ خرم علی کی قیادت میں متاثرین کے وفد کی وزیر تعلیم سعید غنی سے ملاقات ہوئی ہے مگر سعید غنی متاثرین کی دادرسی کے لیے واضح یقین دہانی کرانے سے گریز کررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بے نظیر کی سالگرہ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ مجبورا نالوں پر رہتے ہیں، سپریم کورٹ کو ان مکانات کو مسمار کرنے کے فیصلہ پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ مگر بلاول بھٹو کو ان کے مشیروں نے یہ بات نہیں بتائی کہ نالوں میں پانی آتا ہے تو ایک طرف قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوتی ہیں، دوسری طرف نالوں میں پانی کے بہاؤ سے سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ انھیں یہ بات بھی نہیں بتائی گئی کہ حکومت سندھ ان غریبوں کو اتنی زمین بھی نہیں دینا چاہتی، جس سے بہت زیادہ زمین اس نے ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کو کوڑیوں کے دام بیچ دی۔
پیپلز پارٹی اپنے بنیادی منشور سے انحراف کررہی ہے اور کراچی کے عوام مایوس ہورہے ہیں۔ خرم علی کا کہنا ہے کہ اپنا گھر ہر فرد کا بنیادی حق ہے، ریاست کو اس حق کو غصب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خرم علی اور ان کے ساتھیوں کو امید ہے کہ ان کی جدوجہد اسی طرح کامیاب ہوگی جیسی اوکاڑہ کے مزارعین کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔ خرم اور ان کے ساتھیوں کے حوصلے جواں ہیں اور وہ جواہر لعل یونیورسٹی بھارت کے طلباء کی طرح اس شعر کے امین ہیں۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے