چین کی ترقی کا حقیقی ماڈل
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ ایک کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کی ترقی کے ماڈل کو ایک کامیاب ماڈل قرار دیا۔
انھوں نے اپنی تقریر میں اس طرح کا تاثر دیا کہ چین کی ترقی کا سارا سہرا موجودہ صدر اور ان کے معاونین کو جاتا ہے۔ حقیقتاً چین کی ترقی اور خوشحالی کے پس منظر میں چین کے عوام کی تاریخی جدوجہد ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے افیون کی تجارت کے ذریعہ کروڑوں پونڈ کمائے اور افیون کا عادی بنا دیا، مگر 20 ویں صدی چین میں انقلاب کی صدی ثابت ہوئی۔
روس میں اکتوبر 1917 میں لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب آیا۔ دنیا کی پہلی مزدور ریاست قائم ہوئی تو سوویت یونین کے قیام کے اثرات چین پر پڑے۔ چین میں چند حریت پسندوں نے 1921 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں ایک ماؤزے تنگ تھے۔ ماؤ 26 دسمبر 1893کو Honan صوبہ کے علاقہ Shoshan میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے آبائی علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر استادکی تربیت لی۔ ماؤ روزگار کے لیے چین کے دارالحکومت پیکنگ (موجوہ بیجنگ)آگئے۔ انھیں پیکنگ یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازمت مل گئی۔ ماؤکوکتب بینی کا شوق تھا، یوں لائبریری میں فلسفی کارل مارکس کے فلسفہ اور زندگی کے بارے میں کتابوں کا مطالعہ کیا، وہ 1922 میں کمیونسٹ پارٹی کے بانی رکن بن گئے۔ انھوں نے 1923 میں ہیتان صوبہ میں کمیونسٹ پارٹی کا یونٹ قائم کیا۔
طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان چواین لائی بھی ان کے ہم رکاب ہوئے۔ چواین لائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ انھوں نے فرانس میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور چینی زبان کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی پر عبور رکھتے تھے، یوں چین میں انقلاب برپا کرنے کی تحریک تیز ہوئی۔ ماؤ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی نے ایک اور سیاسی جماعت کو ملتانگ کے ساتھ متحدہ محاذ بنایا مگر کچھ عرصہ بعد ہی یہ متحدہ محاذ ختم ہوا۔ کوملتانگ پارٹی کے سربراہ Kaishek (چن کائیشیک)نے کمیونسٹوں کے خلاف کارروائیاں تیزکیں۔ کوملتانگ کی قیادت کمیونسٹوں کوگھیرکر ختم کرنا چاہتی تھی۔
ماؤزے تنگ کی قیادت میں 1927 میں کمیونسٹوں نے لانگ مارچ شروع کیا۔ اس لانگ مارچ کا مقصد شمال مشرقی علاقہ تک پہنچنا تھا، ماؤ اور ان کے ساتھی گاؤں گاؤں سفر کرتے رہے۔ یہ ایک خطرناک مشکل سفر تھا۔ ان لوگوں نے 6ہزار میل کا سفرکیا اورکسانوں کوکمیونسٹ انقلاب کے لیے تیار کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کا سب سے بڑا نعرہ تھا کہ جاگیرداری ختم کردی جائے اور ریاست تمام زمینوں کی مالک ہوگی۔ اس طرح کسان اپنی زمین پر خود کاشت کریں گے اور ہر قسم کے استحصالی ہتھکنڈوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
1937 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جاپان نے چین پر حملہ کردیا۔ اب ماؤ اور چو این لائی کے سامنے دو دشمن جاپان اورکوملتانگ تھے مگر ماؤ نے بصیرت کا مظاہرہ کیا اور جاپان کی فوج کو چین سے نکالنے کے لیے اپنی مخالف جماعت کوملتانگ جس کی قیادت چن کائی شیک کررہے تھے کے ساتھ دوبارہ متحدہ محاذ قائم کیا۔
1945 میں جاپان کو شکست ہوئی۔ اب چین ایک اور خانہ جنگی کا شکار ہوا مگر اب کامیابی کمیونسٹ پارٹی کی تھی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے یکم اکتوبر 1949 کو چین کے دارالحکومت پیکنگ پر قبضہ کیا اور چیئرمین ماؤ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔
قوم پرست رہنما چن کائی شیک کی حکومت ایک جزیرہ تائیوان تک محدود ہوگئی۔ چیئرمین ماؤ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی نے چین میں بنیادی اصلاحات نافذ کیں، نئی کمیونسٹ حکومت نے سب سے پہلے پورے ملک سے جاگیردارانہ نظام کو ختم کیا اور تمام زرعی زمینیں ریاست کی ملکیت ہونگی اور یہ اصول لاگو ہوا کہ جو کسان زمین کاشت کرے گا زمین اس کے حصہ میں ہوگی۔ اسی طرح تمام صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ حکومت نے ہر فرد کو مکان، تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کی ضمانت دیدی، یوں چین کی تعمیر نو کا عمل شروع ہوا۔
سوویت یونین نے نیا زرعی اور صنعتی ڈھانچہ قائم کرنے میں مدد دی۔ 1958 میں چین اور سوویت یونین میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ چین کے 1970 تک پاکستان، بھارت اور سوشلسٹ ممالک سے تعلقات تھے۔ اقوام متحدہ میں تائیوان چین کی نمایندگی کرتا تھا۔ 1958 میں چین اور سوویت یونین کے اختلافات بڑھ گئے اور بین الاقوامی سطح پر چین اور سوویت یونین علیحدہ علیحدہ بلاک میں تقسیم ہوگئے۔ 1960 میں تبت کے تنازعہ پر چین اور بھارت میں مختصر مدت کی لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی میں چین کی فوج نے کامیابی حاصل کی مگر چین کی قیادت نے امریکا کی اس حکمت عملی کے پس پشت عزائم کو محسوس کیا اور بھارت سے صلح کرلی۔
اپنی فوج واپس بلا لی اور چین کی فوج نے بھارتی فوج کا جو سامان قبضہ میں لیا تھا وہ واپس کردیا گیا مگر ہماچل پردیش پر اپنے حق کو برقرار رکھا۔ چین کی اس پالیسی کی بناء پر امریکا کی یہ کوشش ناکام ہوئی کہ چین کو پڑوسی ممالک سے سرحدی تنازعات میں الجھا کر ترقی کی دوڑ سے دور کردینا چاہیے۔
چین نے یہ پالیسی تائیوان اور ہانگ کانگ کے لیے بھی اپنائی۔ چین کے وزیر اعظم چواین لائی نے یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو، بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو اور مصر کے صدر جمال ناصر کے ساتھ مل کر افرو ایشیائی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحدہ کرنے کی جستجو کی اورغیر جانبدار ممالک کا ایک نیا بلاک قائم کیا۔ چین میں ماؤ کی زرعی اصلاحات کے نتیجہ میں کسانوں میں اعتماد پیدا ہوا۔ حکومت نے مفت میں بجلی، کھاد اورکیڑے مار دوائیاں فراہم کیں۔
چین کی یونیورسٹیوں میں زراعت کے جدید طریقوں پر بڑے پیمانہ پر تحقیق ہوئی، یوں فی کس پیداوار میں اضافہ ہوا۔ پھر آبادی کم کرنے کی مہم چلائی گئی۔ ماؤزے تنگ کے بعد ڈین سیاؤ پنگ مرد آئن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ ڈین سیاؤ پنگ واحد کمیونسٹ رہنما ہیں جو کئی بار ڈوبے اورکئی بار ابھر کر سامنے آئے۔
ان کو جدید چین کا معمار قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسیوں کے نتیجہ میں چین میں سوشلسٹ معیشت کے متوازی فری مارکیٹ اکنامی قائم ہوئی۔ اب دنیا بھر سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں سرمایہ کاری کی۔ چین نے آئی ٹی کی صنعت میں زبردست ترقی کی، یوں ریاست کی طرف سے فراہم کردہ مراعات کی بناء پر زرعی اور صنعتی اشیاء پر آنے والی لاگت کم ہوگئی اور چین نے نہ صرف ترقی پزیر ممالک بلکہ یورپ اور امریکا کی مارکیٹوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ چین میں اب بھی ایک پارٹی یعنی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت ہے۔
90ء کی دہائی میں برطانوی تسلط کے خاتمہ پر ہانگ کانگ چین کا حصہ بنا۔ چین نے ایک ملک دو نظام کے اصول کے تحت ہانگ کانگ کا نظام برقرار رکھا مگر چین کی حکومت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کے جمہوری نظام کو کمزور کررہی ہے مگر ہانگ کانگ کی نئی نسل اپنی آزادیوں کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔
چین کا میڈیا ریاستی کنٹرول میں ہے مگر شاید یہ پالیسی وزیر اعظم عمران خان کے لیے کشش کا باعث ہوگی، البتہ چین کے نظام کو مکمل طور پر سمجھے بغیر چین کے ترقی کے ماڈل سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔