قائد اعظمؒ اور نظریہ پاکستان کے مخالفین کو جواب
ستمبر وہ ستمگر مہینہ ہے جس کی گیارہ تاریخ کو بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ہم سے بچھڑ گئے تھے۔ بابائے قوم کی جَلد وفات پورے پاکستان کے لیے ایک ایسا سانحہ تھا جس نے بحیثیتِ مجموعی سبھی کو شدید دھچکا اور دُکھ پہنچایا۔ واقعہ یہ ہے کہ قائد اعظم کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اُن کے احسانات اور مہربانیوں کا بدلہ کسی بھی شکل میں چکا ہی نہیں سکتا۔
بانیِ پاکستان کے احسانات کو یاد رکھنے کا ایک طریقہ اور سلیقہ یہ بھی ہے کہ ہم متحدہ ہندوستان کی اُن سیاسی جماعتوں، شخصیات اور گروہوں کو بھی یاد رکھیں جنھوں نے جی جان سے قائد اعظم کی ہر قدم پر مخالفت کی اور جنھوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر پاکستان کی راہ کھوٹی کرنے کی مذموم کوششیں کیں۔
اللہ تعالیٰ نے مگر تحریکِ پاکستان کے سب دشمنوں کو ناکام و نامراد کیا اور قائد اعظم کو بامراد و سرخرو۔ وطنِ عزیز میں صحافی اور محقق جناب منیر احمد منیر نے بہادری اور محنت سے، تنِ تنہا، قائد اعظم کی محبت کا بیڑہ یوں اُٹھا رکھا ہے کہ وہ قارئینِ کرام کو قائد اعظم کے احسانوں کی یاد بھی دلاتے رہتے ہیں اور اپنے تحقیقی نشترِ قلم سے متحدہ بر صغیر کی اُن شخصیات اور سیاسی جماعتوں کے چہروں سے، مستند حوالہ جات کے ساتھ، نقاب بھی اُلٹتے رہتے ہیں جنھوں نے تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کی ہر ہرمحاذ پر مخالفت کی۔ قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان کی سخت مخالفت کرنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد بھی تھے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی مولانا موصوف اپنے نظریات پر قائم رہے۔ اُن کی کتاب India Wins Freedom اس حوالے سے خاصی معروف ہے، اور اس کتاب کے وہ 30صفحات بھی جن کے بارے میں مولانا صاحب نے وصیت کی تھی کہ اُن کی موت کے 30برس بعد شایع کیے جائیں۔ پاکستان کی ایک معروف شخصیت نے اپنے کالموں میں بڑے دھڑلے کے ساتھ لکھا کہ " مولانا ابو الکلام آزاد کی پاکستان کے بارے میں ہر پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہُوئی۔" بس اِسی دعوے کو باطل ثابت کرنے کے لیے، جواباً، جناب منیر احمد منیر نے 500 صفحات پر مشتمل ایک معرکہ خیز تحقیقی کتاب لکھی ہے۔
اِس کا عنوان ہے: " انڈیا وِنز فریڈم، سچائی کتنی؟ " منیر صاحب نے اس تحقیق میں سات برس صرف کیے ہیں اور ٹھوس حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ(1) مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب تضادات کا مجموعہ ہے (2) مولانا موصوف کا قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان بارے ہر دعویٰ غلط تھا(3) اور قائد اعظم ہر گام پر سچے تھے۔ یاد رہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد صاحب مرحوم نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے: " پاکستان کا نام ہی میری فطرت اور مزاج کے خلاف ہے۔" فقط اِسی ایک جملے سے ان کے پاکستان بارے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ منیر صاحب نے زیر نظر کتاب میں بڑی جرأت اور متانت کے ساتھ پاکستان و قائد اعظم کے خلاف مولانا صاحب موصوف کے موقف کو غلط ثابت کیا ہے۔
منیر احمد منیر صاحب نے حیاتِ قائد اعظم پر بھی تین جلدوں پر مشتمل کتاب " گریٹ لیڈر" لکھی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے انھوں نے، وَن مَین آرمی کی طرح، خود کو قائد اعظم پر تحقیقات کے لیے وقف کررکھا ہے۔ اُن کے اس جنون کی داد بھی دینی چاہیے اور انھیں شاباش بھی۔"دی گریٹ لیڈر" منیر احمد منیر کے شوق اور جنون کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں "دی گریٹ لیڈر" کے زیر عنوان پہلے بھی دو والیم شایع ہو چکے ہیں اور اب اس عظیم پراجیکٹ کے تحت "دی گریٹ لیڈر" کی تیسری جِلد شایع ہو ئی ہے۔ "دی گریٹ لیڈر" جِلد سوم دراصل تین نقاب کشاانٹرویوز پر مشتمل ہے۔
تینوں شخصیات (کرنل ریٹائرڈ محمد سلیم ملک، میاں محمد صدیق اور ڈاکٹر ضیاء الاسلام) قائد اعظم سے کئی کئی ملاقاتیں کرنے، اُن سے متعدد بار مکالمہ کرنے اور اُن کی خدمت بجا لانے کا تاریخی اور منفرد اعزاز حاصل کرنے والوں کے براہِ راست مشاہدات پر مبنی ہیں۔ یہ تینوں صاحبان تحریکِ پاکستان کے ایام میں "مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن" کے باقاعدہ رکن رہے۔ منیر احمد منیر نے خود تینوں شخصیات سے مکالمہ کیا ہے اور تاریخِ تحریکِ پاکستان اور حیاتِ قائد اعظم کے کئی پہلوؤں کو مرتب کرنے میں کامیاب ہُوئے ہیں۔
کئی باتیں پہلی بار سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کونسے دو جری نوجوان (محمد صدیق اور محمد مالک) تھے جو تحریکِ پاکستان کے اولین شہدا کہلائے۔ محمد صدیق کو لدھیانہ میں مسلم لیگ مخالف احراریوں نے شہید کیا اور محمد مالک کو لاہور میں ہندوجنونیوں نے عین اُس مقام پر اینٹیں مار مار کر شہید کر ڈالا جہاں آجکل ایم اے او کالج واقع ہے۔ محمد صدیق کو احراریوں کے جس مشہور مسلمان سیاستدان کی شہ پر شہید کیا گیا، ان کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے ایک چچا(امان اللہ خان نیازی) نے قائد اعظم کا ساتھی بن کر جس طرح شاندار کردار ادا کیا، اس کا احوال بھی شاملِ تصنیف ہے۔ برصغیر کی جن مسلمان مذہبی شخصیات نے قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان کی بے پناہ مخالفت کی، عینی شاہدین نے وہ نام بھی ہمیں سنائے اور بتائے ہیں۔ اور متحدہ ہندوستان کے وہ عظیم اور قابلِ احترام علمائے کرام جنھوں نے دن رات قائد اعظم کا ساتھ نبھایا اور ہندو سیاستدانوں کی ہر چال کو ناکام و نامراد بنایا، ان کے اسمائے گرامی بھی سامنے لائے گئے ہیں اور صراحت کے ساتھ اُن کی خدمات بھی واضح کی گئی ہیں۔
یہ کتاب ہم پر یہ بھی منکشف کرتی ہے کہ ایک زمانے میں، چند دنوں کے لیے، سوویت روس نے چترال پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور اگر (بقول کرنل محمد سلیم ملک) ارباب سکندر خان خلیل نے ایک اسٹرٹیجک سڑک کی تعمیر بند نہ کروائی ہوتی تو روس یہ قبضہ مستقل کر لیتا۔ یہ حیران کن انکشاف ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس، جسٹس اے آر کارنیلیس، نے پاکستان بنتے ہی جس شوق کے ساتھ، بھارت کے بجائے پاکستان کا شہری بننا قبول کیا، کتاب میں شامل یہ کہانی بھی ہمارے لیے ایک نیا درس ہے۔
قائد اعظم کی رحلت پر قائد اعظم کی اکلوتی صاحبزادی، دینا جناح، کا جنازے میں شریک ہونے کا جو قصہ کتاب مذکور کے صفحہ 108پر بیان کیا گیا ہے، یہ شاید پہلی بار سامنے لایا گیا ہے۔ لاہور، کلکتہ اور ممبئی کے جو اخبارات اور صحافی تحریکِ پاکستان کی مخالفت کررہے تھے، یہ تاریخی احوال بھی عینی شاہدین نے خوب بیان کیا ہے۔ قائد اعظم نے مگر مخالف صحافیوں اور اخبارات کی کبھی گوشمالی کی نہ اُن سے ناراض ہُوئے۔ اس واقعہ میں ہمارے آج کے حکمرانوں کے لیے بھی کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ یہ دونوں کتابیں واقعی معنوں میں قابلِ مطالعہ ہیں۔