دل آزار فیصلہ!!
"نسیمِ ہدایت کے جھونکے" نامی یہ کتاب نہایت شاندار اور دلکشا تصنیف ہے۔ ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل یہ تصنیف دراصل مجھے پشاور سے ایک ایسے پیارے دوست نے تحفتاً بھیجی ہے جو دینِ اسلام سے گہری محبت بھی رکھتے ہیں اور جو بھارتی مسلمانوں و کشمیریوں کی بے بسی و بے کسی پر فکر مند بھی رہتے ہیں۔
ماضی قریب میں ہمارے یہ محترم دوست کے پی کے میں بیوروکریسی کا سب سے بڑا نام تھے۔ اب ریٹائرڈ ہیں لیکن مطالعہ کے بے حد شوقین۔ "نسیمِ ہدایت کے جھونکے" (جسے مہاراشٹر، بھارت، کے مفتی محمد روشن شاہ قاسمی صاحب نے مرتب کیا ہے) درحقیقت اُن درجنوں خوش قسمت بھارتی نَو مسلموں کی ایمان افروز کہانیوں پر مشتمل ہے جو دعوتِ اسلام پر لبیک کہتے ہُوئے ہندو مذہب چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہُوئے۔
ان عظیم افراد میں ماسٹر محمد عامر کی بھی بارہ صفحات پر پھیلی کہانی ہے جو پہلے "بلبیر سنگھ" تھے۔ بھارتی صوبہ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے بلبیر سنگھ اُن متعصب اور مسلم دشمن کٹر ہندو جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے 27 سال قبل دھاوا بول کر بابری مسجد کو شقاوت سے شہید کر ڈالا۔ جن ہندو نوجوانوں نے بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھ کر سب سے پہلے کدال چلائی، بلبیر سنگھ اُن کے لیڈر تھے۔ اس ظالمانہ اقدام نے بلبیر سنگھ کی دُنیا ہی بدل ڈالی۔
اُن کے ضمیر نے اس قدر انھیں ملامت میں مبتلا کر دیا کہ اس خلش سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بلبیر سنگھ کا نام محمد عامر رکھا گیا۔ کل کے بلبیر سنگھ اور آج کے ماسٹر محمد عامر صاحب بھارت میں قدیم اور ویران مساجد کو بحال کرنے میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ 9 نومبر 2019ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیا کی بابری مسجد کے خلاف فیصلہ سنایا تو ماسٹر محمد عامر اس ظلم پر ایک بار پھر زار زار روئے۔
نئی دہلی سے بجانبِ مشرق 550 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایودھیا کی بابری مسجد کا رقبہ تقریباً پونے تین ایکڑ تھا۔ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ اور فاتح، بابر، نے اسے تعمیر کروایا۔ مغلیہ دَور کے خاتمے کے بعد جب ہندوستان پر انگریزی سامراج قائم ہُوا اور مسلمان کمزور و مغلوب ہو گئے تو شہ پاکر ہندوؤں نے یہ منفی پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ "بابری مسجد در اصل ایک عظیم مندر کو مسمار کر کے بنائی گئی تھی اور یہ وہی جگہ ہے۔
جہاں رام جی پیدا ہُوئے تھے ( اور اسی وجہ سے بابری مسجد کو رام جنم بھومی کے نام سے بھی پکارا جانے لگا تھا) اس لیے اسے ہمارے حوالے کیا جائے تا کہ اس جگہ ہم دوبارہ رام مندر تعمیر کر سکیں۔ " یہ دعویٰ سرا سر بے بنیاد، باطل اور تاریخ سے متصادم تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مسلسل مناقشے اور ایک نہ ختم ہونے والے عناد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر کئی مقدمات بنے اور کئی فیصلے ہُوئے لیکن کبھی کوئی فیصلہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا اور کبھی ہندوؤں نے اسے قبولنے سے انکار کر دیا۔
کئی بار اس بنیاد پر کئی خونریز فسادات اور تصادم بھی پھوٹے اور کئی جانیں بھی ضایع ہُوئیں۔ بنیاد پرست ہندوؤں کا مگر دعویٰ رہا کہ ہم ہر صورت مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر ہی دَم لیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آر ایس ایس، بی جے پی اور وی ایچ پی ایسی متشدد اور متعصب بھارتی ہندو تنظیمیں اندر ہی اندر خوفناک منصوبے بناتی رہی ہیں ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بابری مسجد کے خلاف 90ء کے عشرے میں بی جے پی نے ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی اور بال ٹھاکرے وغیرہ ایسے اسلام دشمن بھارتی سیاستدان کی قیادت میں بھارت بھر میں "رتھ یاترا" نکالی جس نے بھارتی ہندوؤں کے تن بدن میں بابری مسجد کے خلاف نفرت کے انگارے بھر دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1992ء میں بی جی پی کی قیادت میں بابری مسجد کا نصف سے زائد حصہ شہید کر ڈالا گیا۔ اس یُد میں دو ہزار کے قریب مسلمان شہید بھی ہو گئے تھے لیکن بھارتی ہندو باز نہیں آئے۔
اس خونی سانحہ کے بعد بابری مسجد کے بارے میں مقدمہ ایک بار پھر بھارتی عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ 2010ء میں الٰہ آباد ہائیکورٹ نے اس مقدمے کا ایک عجب فیصلہ سنایا۔ اور وہ یہ تھا کہ بابری مسجد کی متنازع زمین تین حصوں میں تقسیم کر دی جائے، یوں کہ دو حصے ہندوؤں کو دے دیے جائیں اور ایک حصہ مسلمانوں کو۔ یہ فیصلہ فریقین میں سے کسی کو قبول نہیں تھا؛ چنانچہ یہ کیس ایک بار پھر عدالت میں چلا گیا اور اس بار بھارتی سپریم کورٹ میں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جس بنچ میں یہ مقدمہ لگا۔
وہ پانچ ججوں پر مشتمل تھا اور ان میں ایک جج مسلمان بھی تھا: جسٹس نذیر۔ اس دوران ایک بار یہ بھی کوشش کی گئی کہ فریقین عدالت سے باہر مل بیٹھیں اور آپس میں کوئی تصفیہ کر لیں اور عدالت کو آزمائش میں نہ ڈالیں لیکن اس پر بھی کوئی راضی نہ ہُوا۔ بابری مسجد تنازعے کے آخری مقدمے میں تین بڑے فریقین آمنے سامنے تھے : نمروہی اکھاڑہ، سُنی وقف بورڈ اور رام لیلا۔ ان کے علاوہ دو نسبتاً چھوٹے فریق بھی ساتھ شامل تھے : (۱) وشو ہندو پریشد کا تخلیق کیا گیا متشدد ہندوؤں کا ٹرسٹ "رام جنم بھومی نیاس" (۲) بھارتی شیعہ برادری کا شیعہ وقف بورڈ۔ ان کے بھی اپنے مطالبات تھے۔ عجب کھچڑی سی بن گئی تھے لیکن مقدمے کے اولین اور اہم تین فریق وہی تھے جن کا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
جس روز (9 نومبر 2019ء) بابری مسجد کا فیصلہ سنایا جانا تھا، بھارت بھر کی انتظامی حالت پریشان کن بھی تھی اور مضطرب بھی۔ ایودھیا سمیت بھارت کے بڑے بڑے شہروں (خاص طور پر وہ شہر جہاں خاصی تعداد میں مسلمان بس رہے ہیں ) میں اضافی پولیس کے دستے تعینات کیے گئے۔ بعض جگہ فوج بھی متعین تھی۔ بابری مسجد کے شہر ایودھیا، جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً60 ہزار ہے، میں پولیس کے ساتھ پانچ ہزار پیرا ملٹری فورس بھی لگائی گئی۔ ممبئی میں 40 ہزار کی تعداد میں اضافی پولیس فورس کھڑی کی گئی تاکہ کسی بھی فساد اور ہنگامے سے نمٹا جا سکے۔
انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (رانجن گوگوئی) کی سیکیورٹیZ تک بڑھا دی گئی۔ ان کڑے انتظامات کے بعد، دوپہر سے پہلے پہلے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ بھارتی ہندوؤںکے حق میں سنا دیا اور بھارتی مسلمان منہ تکتے رہ گئے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ بھارتی ہندوؤں کو بابری مسجد کی جگہ "رام مندر" بنانے کا مکمل اختیار ہے اور ساتھ ہی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہُوئے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کی زمین کے متبادل کے طور پر ایودھیا کے مسلمانوں کو 5 ایکڑ زمین دی جائے گی جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق مسجد بنا سکتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد تشدد پسند ہندوؤں نے شور مچایا ہے کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کے قریب ہر گز زمین نہ دی جائے اور اگر اُن کا یہ مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ شہر کو آگ لگا دیں گے۔ اس دھمکی نے بھی اثر دکھایا ہے۔ اور اب یہ انکشاف ہُوا ہے کہ انڈین سپریم کورٹ نے مسلمانوں کو جو پانچ ایکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ ایودھیا شہر سے 15 کلومیٹر دُور دی جائے گی۔
اس نئے دھوکے نے بھی بھارتی مسلمانوں کو مزید ناراض اور مایوس کیا ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کے دوسرے دَورِ حکومت میں بھی بھارتی مسلمانوں پر پے در پے جو ظلم کیے جا رہے ہیں، عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ بابری مسجد کے خلاف فیصلہ تو سب سے بڑا، تازہ ظلم ہے۔ حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ اس ظلم کے باوجود کئی سینئر بھارتی مسلمان علما ( مثلاً : دہلی کی شاہی مسجد کے امام سید احمد بخاری) اور مسلمان دانشور (مثلاً: مشہور شاعر جاوید اختر) کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے کو دل سے تسلیم کر تے ہُوئے خاموش ہو جانا چاہیے۔