آج حکومت، اپوزیشن اور میڈیا ورکرز کا امتحان ہے!
آج ستمبرکی13تاریخ ہے اور آج حکومت، اپوزیشن اور پاکستان بھر کے میڈیا وابستگان کی اپنی اپنی کمٹمنٹ کی پھر آزمائش ہے۔ جناب عمران خان کی زیر رہنمائی حکومت اور حضرت مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت "پی ڈی ایم" اپنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنی اپنی ضدوں پر اڑے اور ڈٹے ہُوئے ہیں۔
اپنی مرضی و منشاکے مطابق انتخابی اصلاحات منظور کروانے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کو ہر صورت میں اگلے انتخابات میں بروئے کار لانے کے لیے وزیر اعظم، حکومت اور حکومتی وزرا کے موڈ میں جارحیت کا عنصر روز افزوں ہے۔
صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی بھی اس ضمن میں حکومت کے ہم نظر اورہمنوا بن چکے ہیں، حالانکہ اُن پر لازم ہے کہ وہ اپوزیشن اور حکومتی جذبات و خیالات کو یکساں اور متوازن رکھنے کی سعی کریں۔ حکومت جس طرح ہر حال میں ای وی ایم کو انتخابات میں استعمال میں لانے کی سخت جدوجہد کررہی ہے۔
اِس نے حکومتی ارادوں اور عزائم کو مشکوک بنا ڈالا ہے۔ حکومتی وزیر اور مشیر اپنے وزیر اعظم صاحب کی خواہش کی تکمیل میں اِس حد تک چلے گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔
شائد تاریخِ پاکستان میں پہلی بار پاکستانی عوام نے یہ افسوسناک منظر دیکھا ہے کہ کسی وفاقی وزیر نے بے دریغ اور بلا جھجک الیکشن کمیشن آف پاکستان پر پیسے لینے کی سنگین تہمت عائد کی ہے۔ اپوزیشن سمیت سب عوام اس الزام پر دہل کر رہ گئے ہیں ؛ چنانچہ اپوزیشن بجا طور پر مطالبہ کررہی ہے کہ حکومت اُس سیاسی جماعت کا نام بتائے جس نے الیکشن کمیشن کو بطورِ رشوت پیسے دیے ہیں۔
حکومت آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں "ای وی ایم " کو منظور کروانے بارے ایک بِل لا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس سے صدرِ مملکت عارف علوی صاحب خطاب فرما رہے ہیں لیکن اپوزیشن اس خطاب کے خلاف اپنے مسلز آزمانا چاہتی ہے۔
پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ آج وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت تو ضرور کرے گی لیکن سخت احتجاج بھی کرے گی اور صدرِ مملکت کے خطاب کا مقاطع بھی ہوگا۔ اپوزیشن تو ویسے بھی حکومت کے خلاف غصے میں بَل کھا رہی ہے اور اب گزشتہ روز وفاقی وزیر (اعظم سواتی) نے جس بے محابہ لہجے میں الیکشن کمیشن پر تہمت عائد کی ہے۔
اس نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف بپھرنے اور احتجاج کرنے کا ایک اور نادر موقع فراہم کر دیا ہے ؛ چنانچہ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یُد پڑنے کا خدشہ ہے۔ اس یُد کو حکومت کس طرح کنٹرول کرے گی اور اپوزیشن اِسے اپنے مفادات کے حصول میں کیونکر استعمال کر سکے گی، یہ ہر دو فریقین کا امتحان ہے۔
حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کو ویسے بھی بہت غصہ ہے کہ اُس کی حکومت مخالف چلائی گئی تحریک ٹھس ہو کر رہ گئی ہے۔ اس میں مگر کسی کا بھلا کیا قصور؟ پی ڈی ایم کے باطنی تضادات اور اندرونی خلفشار نے اِسے عوام کی نظروں میں سرخرو نہیں کیا ہے۔ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کے خلاف احتجاج کرکے پی ڈی ایم دراصل اپنا کھویا ہُوا وقار اور اعتبار بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔
پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ملکی میڈیا پر بھی مکمل کنٹرول چاہتی ہے۔ اس خواہش کا عملی اظہار پی ٹی آئی نے مرکز میں حکومت سنبھالتے ہی کر دیا تھا۔ پچھلے تین برسوں کے دوران بھی خان صاحب کی حکومت ملکی میڈیا کو زیر دام لانے اور اپنے ڈھب پر کرنے کی لاتعداد کوششیں کر چکی ہے۔ کئی صحافی اور میڈیا ورکرز لمبے حکومتی ہاتھوں کا ہدف بنے ہیں۔
اور اب حکومت PMDA(پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے نام پر ملک بھر کے صحافیوں، میڈیا اور میڈیا ورکرز کو پابجولاں کرنا چاہتی ہے۔ اس خواہش کو قانون کی شکل دینے کی حکومتی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے آج تیرہ ستمبر کو ملک بھر کے میڈیا وابستگان بطورِ احتجاج پارلیمنٹ کے سامنے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ یہ میڈیا ورکرز اور پریس کلبوں کے عزم کا بھی امتحان ہے۔ اپوزیشن کی ساری قیادت اور ملک کی نمایاں وکلا تنظیموں نے بھی میڈیا ورکرز کے اس احتجاج میں شرکت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ وعدہ کہاں تک ایفا ہوتا ہے۔
ایک علم افروز اور چشم کشا کتاب کا تذکرہ: مصری دارالحکومت، قاہرہ، قدامت و عظمت میں بے مثال ہے۔ چند سال قبل اس کے علمی اور تاریخی شکوہ کا راقم خود بھی مشاہدہ کر چکا ہے۔ قاہرہ جامعہ الازہر، اُمِ کلثوم کی سحر انگیز آواز، شاندار کتابوں کی اشاعت، عظیم الشان علمائے کرام اور فراعنہ کے ہزاروں سال قدیم و پُراسرار اہراموں کے کارن ساری دُنیا میں منفرد شہرت کا حامل شہر ہے۔ مصر کے اِسی شہر نے "اخوان المسلمین"کے اسلام پسند اور جری شہید لیڈروں کی للکار سُن رکھی ہے۔ اب تو اخوانوں پر عالمِ عرب کے کئی دولتمند ممالک نے پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔
بیروت اور قاہرہ دلکش اور دلکشا کتابیں شایع کرنے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ قاہرہ میں جنم لینے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف وایوارڈ یافتہ مورخ استاد احمد عادل کمال نے تقریباً پندرہ، بیس سال قبل ایک وقیع اور موقر کتاب بعنوان " اطلس الفتوحات الاسلامیہ" تالیف کی۔ جلد ہی عالمِ عرب میں اس بے نظیر کتاب نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ اسے قاہرہ کے مشہور پبلشر "دارالسلام " نے شایع کیا تھا۔ تاریخِ اسلام و فتوحاتِ اسلام سے دِلی اور گہری محبت کھنے والوں نے اسے ہاتھوں لیا۔
اب احمد عادل کمال صاحب کی یہی تالیف اُردو زبان میں شایع ہو گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کے جس پبلشر نے اِسے محبت و عشق کے ساتھ شایع کیا ہے، یہ بھی "دارالسلام" ہی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس ادارے کے مالک و مدیر جناب عبدالمالک مجاہد نے مصری پبلشر سے اس کتاب کے اشاعتی حقوق خرید کر اسے اُردو زبان میں بعنوان "اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ" شایع کیا ہے۔ ہمارے معروف اور محترم دانشور جناب محسن فارانی نے نہایت محنت، احتیاط اور عرق ریزی سے اسے اُردو زبان کے قالب میں ڈھالاہے۔
تقریباً500صفحات پر بڑی تقطیع میں شایع کی جانے والی یہ چہار رنگی، پُر شکوہ اور جاذبِ نظر کتاب گلیزنگ پیپر پر منصہ شہود پر لائی گئی ہے۔ ظاہری اور معنوی، ہردو اعتبار سے، یہ حسین اور دل افروز ہے۔ یہ تالیف اسلامی فتوحات کی عہد بہ عہد سنہری تاریخ بیان کرتی ہے۔
خلافتِ صدیقی سے خلافتِ عثمانیہ کے عروج تک اور وسط ایشیا سے مراکش و اندلس اور وسطِ یورپ تک کی ساری ایمان افروز داستانیں ایک جگہ پر سمٹ آئی ہیں۔ کتاب میں ایک سو سے زائد نایاب نقشے بھی دیے گئے ہیں۔ ان کی مدد سے متعدد فتوحاتِ اسلامیہ کی تفہیم و تاریخی مقامات کی نشاندہی سہل ہو جاتی ہے۔
مترجم و اضافہ نگار، محسن فارانی صاحب، نے مہربانی یہ بھی کی ہے کہ قدیم عربی نقشوں کو اُردو میں ڈھال دیا ہے۔ یوں کتاب کی انفرادیت، معنویت اور اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ کئی واقعات کے حوالے سے توضیحی حواشی بھی رقم کیے گئے ہیں۔ مفتوحہ ممالک اور شہروں کے قدیم ناموں کو عربی اور اُردو میں بھی متعارف کروایا گیا ہے۔
یوں قارئین کے لیے آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔"اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ" نامی یہ خوبصورت کتاب ڈرائنگ روم میں بھی رکھنے کے قابل ہے، مطالعہ کے لیے بھی خوب ہے اور تحقیق کا شوق رکھنے والے کے لیے تو ایک بے مثال ارمغان ہے۔ مترجم و پبلشر دونوں ہی مبارکباد کے مستحق ہیں۔