Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Tanveer Qaisar Shahid
  3. Aafia Siddiqui, Bagram Fauji Adda Aur Americi Shikast

Aafia Siddiqui, Bagram Fauji Adda Aur Americi Shikast

عافیہ صدیقی، بگرام فوجی اڈہ اور امریکی شکست

بیسویں صدی عیسوی کے آخری اور اکیسویں صدی عیسوی کے پہلے دو عشروں کے دوران سوویت رُوس اور امریکا نے عالمِ اسلام کے چار بڑے ممالک پر بڑے مظالم ڈھائے ہیں۔ دونوں سپر طاقتوں نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دریا بہائے ہیں اور ان قبیح جرائم کے باوجود دونوں ممالک خود کو مہذب کہلاتے ہیں مسلمان خون کی بیدردی سے دل کھول کو ہولی کھیلنے والے ان دونوں ممالک کے ہولناک اور گھناؤنے جرائم کے خلاف دُنیا کی کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکا ہے۔

دونوں طاقتور ممالک میں سے کوئی ایک بھی خونِ مسلم کا حساب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سوویت رُوس اور امریکا، دونوں نے مل کر کمزور افغانستان کو جس طرح برباد کیا ہے اور جس بربریت سے افغانستان کے کوہ ودمن کو بھنبھوڑا اور چچوڑا ہے، اسے اکیسویں صدی عیسوی کا سب سے المناک سانحہ کہا جارہا ہے۔

گزشتہ چار عشروں کے دوران امریکا نے افغانستان، امریکا اور عالمِ عرب میں تین ایسی بدنامِ زمانہ جیلوں کو تشکیل دیا جسکے تذکرے ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ امریکا میں گوانتانامو بے کی جیل، عراق میں ابو غریب جیل اور افغانستان میں بگرام ایئر پورٹ کے اندر لرزہ خیز مظالم کی داستانوی جیل۔ گوانتا نامو جیل میں سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی اور افغانی قیدیوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے جن کی یاد ہی سے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔

ان قیدیوں میں وہ بے گناہ پاکستانی بھی تھے جن پر ہمارے ایک سابق غیر منتخب حکمران نے مہربانی "فرمائی" تھی اور اس کا ذکر موصوف نے فخر سے اپنی کتاب میں بھی کیا۔ عراق میں امریکیوں کی تعمیر کردہ ابوغریب جیل کی ہوشربا کہانیاں امریکی میڈیا نے شایع کیں تو سہی لیکن امریکی حکام کی آنکھیں نم نہ ہو سکیں۔

افغانستان میں بگرام کے فوجی اڈے کے اندر قائم کی گئی امریکی جیل نے اپنے زندانیوں پر ایسے ایسے غیر انسانی مظالم کے پہاڑ توڑے کہ ان کی بازگشت سے افغانستان کے پہاڑ سہم کر رہ گئے۔ بگرام کی اس منحوس اور ملعون بندی خانے میں پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کو بھی طویل عرصہ تک قید رکھا گیا۔ عافیہ صدیقی پر امریکیوں نے ایسے بے بنیاد اور بودے الزام عائد کیے کہ خود امریکی اور مغربی اخبار نویس بھی شرما کررہ گئے۔ معروف مغربی خاتون صحافی، ریڈلی، نے بگرام کی ہوشربا جیل میں قید عافیہ صدیقی کی چیخیں خود سُنی تھیں اور اس ظلم کی گواہی بھی دی تھی۔ بگرام کے امریکی فوجی اڈے کے اندر استوار کی گئی اس جیل میں قیدکی گئی عافیہ صدیقی کو "قیدی نمبر 650" کا نام دیا گیا تھا۔ بگرام جیل ہی سے عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کیا گیا تھا۔

وہاں اُن پر پُر اسرار حالات اور ناقابلِ فہم الزامات کے تحت مقدمہ چلا اور پھر انھیں 86سال کی لمبی سزا سنا دی گئی۔ بگرام کے امریکی فوجی اڈے کی جیل سے امریکا کے شہر "ٹیکساس" کی جیل میں آجکل قید عافیہ صدیقی کی کہانی ظلم و ستم کی ایک اشکبار داستان ہے۔ اب تو اس کہانی پر اشک بہانے والے بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دن رات مہم چلانے والی اُنکی چھوٹی ہمشیرہ بھی بوجوہ خاموش ہو چکی ہیں۔

بگرام کے جس امریکی فوجی اڈے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایسے سیکڑوں بے گناہ پاکستانیوں اور افغانیوں پر ستم آزمائے گئے، اب یہ بدنامِ زمانہ فوجی اڈہ جولائی 2021 کے پہلے ہفتے خالی کر دیا گیا ہے۔ 45مربع کلومیٹر پر پھیلا بگرام کا یہ فوجی اڈہ مسلسل 20برسوں تک امریکی اور نیٹو افواج کے زیر استعمال و زیر قبضہ رہا۔ یہ امریکی اڈہ عیاشی اور بدمعاشی کا مرکز بھی تھا۔

عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب کوئی جری لکھاری اُٹھے گا اور بگرام کے اندر ڈھائے جانے والے سبھی مظالم کی جزئیات بھری داستان لکھے گا۔ ممتاز امریکی جریدے "دی نیویارکر" کے تحقیق نگار صحافی نکولس شمیڈل (Nicholas Schmidle) نے اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب یکم اور دو مئی 2011 کی درمیانی رات امریکی جنگی ہیلی کاپٹروں نے اسامہ بن لادن پر حملہ کیا تو یہ امریکی جنگی ہیلی کاپٹر بگرام کے فوجی اڈے ہی سے اُڑے تھے۔ امریکیوں نے افغانستان پر فوجی قبضے کے بعد جب تورا بورا کے پُراسرار اور سنگلاخ غاروں میں چھپے طالبان پر ہلاکت خیز ڈیزی کٹر ہوائی حملے کیے تو یہ حملہ آور جنگی امریکی جہاز بھی بگرام ہی کے امریکی فوجی اڈے سے اپنی اُڑان بھرتے تھے۔

اب بگرام کا منحوس و ملعون امریکی فوجی اڈہ امریکی قابض فوجیوں سے آزاد اور خالی ہو چکا ہے۔ وہاں اب سہمی سہمی ہوائیں چلتی ہیں یا دِل تھامے افغان فوجی پھرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مستقبل بارے متشوش ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر بگرام کا فوجی اڈہ اب لرزہ بر اندام افغان فوجیوں (ANA) کے سپرد کر دیا گیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ کوئی دن جاتا ہے جب افغان طالبان فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے بگرام کے فوجی اڈے پر بھی قابض ہو جائینگے۔

اگرچہ بگرام کا یہ اڈہ خالی کرنے سے قبل امریکیوں نے اس کا اہم انفرااسٹرکچر بم دھماکوں سے تباہ کر ڈالا ہے تاکہ کوئی افغانی اسے استعمال ہی نہ کر سکے۔ ہمیں ہمہ دَم آگے بڑھتے اور کابل کی جانب دھیرے دھیرے پیشقدمی کرتے افغان طالبان سے کوئی بلند توقعات نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت تو تسلیم کرتے ہی بنے گی کہ افغانستان میں امریکا کی عسکری شکست مکمل ہوچکی ہے اور اس جنگ کا اصل فاتح فریق افغان طالبان کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

دُنیا بھرکے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بھی ایسے گروہوں اور افراد کی کمی نہیں ہے جو یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کو یہ معنی نہ پہنائے جائیں کہ افغانستان میں امریکا کو شکستِ فاش ہُوئی ہے اور یہ کہ اس جنگ کے فاتح افغان طالبان ہیں۔ افغانستان کے حوصلہ شکن پہاڑوں سے جس ذلت اور ہزیمت کے ساتھ امریکا کی نام نہاد "افواجِ قاہرہ" منہ چھپا کر رخصت ہو رہی ہیں، اسے مکمل امریکی فوجی شکست سے موسوم نہ کیا جائے تو اسے کس نام سے پکارا جائے؟ سابق برطانوی آرمی چیف، لارڈ بینیٹ، جو چند سال پہلے ہی ریٹائر ہُوئے ہیں، نے بھی گزشتہ روز ایک برطانوی اخبار میں شایع ہونے والے اپنے مفصل آ رٹیکل میں تسلیم کیا ہے کہ طالبان افغان جنگ جیت چکے ہیں۔ امریکا 20برس قبل جس غرور اور غرے کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہُوا تھا، آج ناکام ونامراد ہو کر واپس واشنگٹن کی راہ ناپ رہا ہے۔

افغانستان میں قبضہ کرنے کے جتنے بھی امریکی مقاصد تھے، سب ناکام ہُوئے ہیں۔ امریکا نے دو عشرے قبل افغانستان پر حملے کے وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ طالبان کا وجود مٹاکر رکھ دے گا لیکن طالبان اب بھی ایک زندہ قوت کے طور پر افغانستان میں موجود ہیں اور عنقریب تنہا ہی افغانستان کے حاکم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ امریکی افواج نے سر زمینِ افغانستان، افغان عوام اور افغان سماج کو سوائے کامل تباہی اور بے انت مایوسی کے کچھ نہیں دیا۔ افغانستان واقعی برطانوی، رُوسی اور امریکی فوجوں کے لیے قبرستان ثابت ہُوا ہے اور اب امریکی افواج نے افغانستان سے یوں انخلا کیا ہے کہ افغانستان پر خانہ جنگی کے سیاہ بادل چھا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور بھارتی سرمایہ کاری تقریباً ڈُوب گئی ہے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf