بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں؟
ہم جیسوں کے لیے بدلتے رویے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اسی تبدیلی کی زد میں ہمارا کلچر اور سماجی رویے بھی آ چکے ہیں۔ جوائنٹ فیملی کلچر تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس میں نظریات کی تبدیلی اور عدم برداشت کے ساتھ ساتھ مہنگائی، چھوٹے گھر اور دیگر وجوہات بھی ہیں۔
پرائیویسی کے نام پر ہم اتنے تنہا ہوتے جا رہے ہیں کہ خوف آنے لگا ہے۔ اب ہمارے گلی محلوں میں اجنبی کو آتا جاتا دیکھ کر کوئی الرٹ نہیں ہوتا، جس کا نقصان بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات کی صورت سامنے آنے لگا ہے۔ اب محلے کی بہو بیٹی سانجھی نہیں رہی، محلے کے بزرگ "چاچا جی " نہیں رہے، اب انہیں آتا دیکھ کر نہ تو محلے کی کوئی بیٹی سر پر دوپٹہ رکھتی ہے اور نہ ہی گلی کی نکڑ پر کھڑے لڑکے سگریٹ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جنریشن گیپ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔ گلی محلے کی کرکٹ اور تھڑے کی گپ شپ کو سوشل میڈیا ایپس کھا گئی ہیں۔ شرم و حیا ہمارے اطوار سے نکل کر دیکھنے والے کی آنکھ تک محدود کر دی گئی ہے۔ ہمارے جنازے مختصر ہونے لگے ہیں یہاں تک کہ میت کو قبرستان لیجانے کے لیے کندھے کم پڑ گئے ہیں لہذا میت بھی گاڑی میں لیجانا پڑتی ہے۔ تعزیت کے لیے ایک ایس ایم ایس یا فون کال کافی سمجھی جاتی ہے، بیماری کے لیے تعزیت بھی موبائل فون کی اطلاع تک محدود ہو چکی ہے۔ سچ کہوں تو آج کے دور میں ہم ہجوم کے درمیان بھی تنہا ہو چکے ہیں۔
مجھے لگنے لگا ہے کہ بہت جلد اولڈ ہومز کی تعداد بڑھنے لگے گی۔ بچوں کی مصروفیت اور جوائنٹ فیملی سسٹم کی تباہی کی وجہ سے یہ ہماری سوشل مجبوری بن جائے گی۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے اولڈ ہائوس بن جائیں گے جہاں اخراجات ادا کرکے بڑھاپا گزارا جا سکے گا کیونکہ ہم جس سوشل تنہائی اور پرائیویسی کا شکار ہو رہے ہیں یہ جوانی میں اچھی لگتی ہے لیکن بڑھاپے میں عذاب بن جاتی ہے۔ یہ تو ہمارے رویے اور کلچر ہیں جس پر ہم جیسے اپنا دل جلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ یہ اسی بہائو میں بدلتا رہے گا۔
دنیا کی تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔ ہم اسی کا شکار ہیں۔ ممکن ہے کسی دور میں احساس ہو تو لوگ واپس پہلی روایات کو اپنانے لگیں۔ بہرحال اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بھی والدین کہیں نہیں ہیں۔ اگلے روز عمر چودھری کے ساتھ بیٹھا تھا۔ عمر چودھری موٹرسائیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر رہے ہیں۔ یہ سر پھرے نوجوان موٹر سائیکل پر پاکستان بھر کا سفر کر چکے ہیں اور ویڈیو تصاویر کے ذریعے دنیا بھر کو پاکستان کی خوبصورتی سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کی بائیک اور ہیلمٹ پر لگے کیمرے سنگلاخ چٹانوں سے برف پوش پہاڑوں تک ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ عمر چودھری کے برادر نسبتی عدنان یعقوب ٹریفک پولیس میں وارڈن تھے۔
2018 میں وہ ایک حادثہ میں فوت ہو گئے۔ عدنان مرحوم کے بوڑھے والد ان کے ساتھ رہتے تھے۔ جواں بیٹے کی موت نے بوڑھے باپ کی کمر توڑ دی۔ آج وہی بوڑھا باپ کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ بیٹے کی وفات کے بعد سرکار کے پاس اس بوڑھے باپ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ٹریفک پولیس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ مجموعی طور پر ہمارا قانون ہے جو ہر محکمے میں لاگو ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری ملازم فوت ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کوریج اس کے بوڑھے والدین کی ہوتی ہے۔ جذباتی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ اگر بیٹا فورسز میں ہو تو بوڑھا باپ اس کی میت وصول کرتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بیٹے کی تدفین کے بعد بوڑھے ماں باپ کو کچھ نہیں ملتا۔ سرکاری و غیر سرکاری طور پر آپ کی فیملی میں صرف بیوی اور بچے شامل ہیں۔ عموماً شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ شوہر کی تنخواہ یا پنشن اسی کو ملتی ہے۔ اگر دوسری شادی کر لے تو بچوں کی گارڈین کے طور پر بھی عموماً ہر ماہ ملنے والے پیسے بیوہ کے اکائونٹ میں جاتے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے۔ شریک حیات کے طور پر یہ سب بیوہ کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بوڑھے والدین کا حق کہاں ہے؟ بڑھاپے میں وہ کمانے کی سکت نہیں رکھتے۔ جس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے سب کچھ لگا دیا وہ فوت ہوگیا ہے۔ بڑھاپے کا سہارا تو چلا ہی جاتا ہے لیکن سرکار بھی انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔
پاکستان میں ایسے کئی بوڑھے ہیں جو جوان بیٹے کی وفات کے بعد بے سہارا ہو چکے ہیں۔ کرایہ کا گھر، ادویات، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے انہیں دوسروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ عمر بھر کما کر کھانے اور کھلانے والے کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔ اگر حکومت قوانین میں کچھ ترمیم کر لے اور سروس کے دوران وفات پانے والے ملازم کے والدین کا بھی کچھ شیئر رکھ لے تو شاید ان کے دکھ اور مسائل کا کچھ ازالہ ہو جائے گا۔ نجی اداروں کو بھی ایسی ہی کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ پاکستان میں کئی عدنان یعقوب اپنے والدین کا سہارا تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بوڑھے والدین رل گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی دستاویزات میں آپ کی فیملی میں والدین شامل نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں؟