حقیقت تو کچھ اور ہے
امریکا کا اگلا صدر کون ہو گا؟ اس کا فیصلہ تو امریکی عوام آج کریں گے۔ امریکی صدارتی انتخابات کی روایت کے مطابق، ویسے تو دوسرے دن تک جیتنے والے کا اعلان ہو جاتا ہے، لیکن اس بار صورت ِ حال کچھ مختلف اس لحاظ سے ہے کہ کووِڈ 19 کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے اس بار لوگوں نے بہت ووٹنگ کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بار ووٹوں کی گنتی میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا کی نظریں امریکی صدارتی الیکشن پر لگی ہوتی ہیں۔ مجھے 2016 کے امریکی صدارتی الیکشن امریکا جا کر کور کرنے کا موقع ملا تھا اور یقین کریں کہ ہر تجزیہ، رائے اور ندازا، سب کچھ اس وقت غلط ثابت ہو گیا، جب ہیلری کلنٹن ہار گئی۔ ہر کوئی حیران تھا کہ ہیلری کیسے ہار گئیں؟ 2016 کے بعد تو امریکی سیاست ہی جیسے بدل گئی۔ ٹرمپ کی جیت نے صرف امریکا کو ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ خاص طور پر پوری دنیا کے مسلمان حیران و پریشان تھے، کیونکہ صدر ٹرمپ کے خیالات مسلمانوں کے بارے میں کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ٹرمپ کا رویہ تمام امریکی صدور کی نسبت مختلف رہا ہے، کون بھول سکتا ہے کہ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے بعد ہی جہاں تارکین ِ وطن کی آمد پر پابندی لگائی، وہیں کچھ مسلم ممالک کے مسافروں کے لیے امریکا کے بارڈر بند کر دئیے۔ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے چار سال میں بہت سے ایسے اقدامات کیے، جو شاید کسی اور کے لیے کرنا مشکل ہوتا؛ ٹرمپ نے اپنے ہی میڈیا کو بہت مایوس کیا۔ میڈیا کبھی ٹرمپ کے سامنے Comfortable نہیں رہا۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدوں کو ختم کر دیا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے امریکا کو اتنا پریشان کیا کہ چین کی کئی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں، پھر ٹرمپ کا بھارت کا دورہ بھی پاکستان کے لیے بڑا اہم پیغام تھا کہ امریکا ہندتوا سوچ کے ساتھ ہے اور صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، امریکا یہ بھی نہیں سوچے گا کہ مودی، مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی کس انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ خیر۔۔۔ ٹرمپ کی تو اپنی سوچ مسلمانوں کے لیے ظالمانہ ہے۔
اب، ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا 77 سالہ جو بائیڈن، ٹرمپ کو ٹف ٹائم دے پائیں گے؟ جو، ٹرمپ کو امریکا کی تاریخ کا بد ترین صدر قرار دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو بائیڈن کی عمر 77 برس سے زیادہ ہے اور وہ اگر صدر بن بھی گئے تو کافی بوڑھے صدر ہوں گے، ان کو اگر اپنی عمر کی وجہ سے پیشگی ریٹائرمنٹ لینی پڑ گئی تو ان کی نائب صدر کمالہ ہیرس(جو کہ ایک خاتون ہیں ) صدر بن جائیں گی اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ صدر بن گئیں، تو وہ غیرملکیوں بالخصوص اپنے رنگ و نسل کے افراد کے لیے امریکا کے دروازے کھول دیں گی۔ اس کے ساتھ اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کے آنے سے پاکستانیوں کو کم اور انڈیا کے لوگوں کو بشمول بنگلہ دیش کو زیادہ مراعات ملنے کی امید ہے؛ چنانچہ اس خطرے کو شکست دینے کے لیے بھی ٹرمپ کا دوسری دفعہ صدر بننا اہم قرار دیا جا رہاہے۔ دوسری طرف حالیہ صدارتی مباحثے یہ بتاتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے جارحانہ رویے کی وجہ سے جو بائیڈن پر بھاری ہیں، لیکن دونوں امیدواروں پر تنقید یہ ہو رہی ہے کہ امریکی تاریخ کے دو بوڑھے ترین سیاسی حریف ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی لڑائی میں مصروف ہیں ؛ یہ اس ملک کے عوام کے لیے کیا کریں گے؟ اب یقیناً بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہو گا کہ صدارتی مباحثوں سے کیا ووٹرز، ووٹنگ کے لیے اپنا ذہن بدلتے ہیں؟ میں نے اس پر اپنے بہت سے امریکی دوستوں سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ وہ ان مباحثوں میں بہت حد تک امیدواروں کی سوچ کھل کر سامنے ا آتی ہے کہ وہ کیا سوچ اورپالیسز لے کر چلنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ امریکا ہے، پاکستان نہیں، جہاں نعرے، دعوے صرف الیکشن کی مہم تک ہی محدود رہتے ہیں۔ امریکا کے لوگوں کے لیے تعلیم، صحت اور روز گار سب سے بڑا Concern ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن آپ ذرا حقیقت سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ کیوں ہمارے ذہنوں میں امریکا اور امریکی صدر دنیا کے طاقتور ملک اور طاقتور صدر کے طور پر رچے بسے ہوئے ہیں؟ ہم بالکل غلط سوچتے ہیں، کیونکہ کورونا وائرس نے اس دنیا کی اصلیت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ایک وائرس نے کس طرح ہمیں مفلوج کر دیا ہے؟ کس طرح ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے سے دْور ہو چکے ہیں؟ دنیا کے بہترین صحت کے نظام، کس طرح Expose ہوئے ہیں؟ کیا امریکا اور امریکی صدر ٹرمپ طاقتور ہونے کے باوجود اور امیر ترین ملک ہونے کے باوجود، اپنے لوگوں کو مرنے سے بچا سکا؟ کیا پورپ اپنے لوگوں کو مرنے سے بچا سکا؟ حقیقت یہ ہے کہ نہیں بالکل نہیں!!کوئی بھی ملک غریب ہو یا امیر، کوئی یہ نہیں کر سکا کہ ہم تو اپنی مرضی سے ایک سانس بھی نہیں لے سکتے۔ آج یورپ میں بھی کورونا واپس آ رہا ہے، امریکا میں بھی؛ حتی کہ ہمارے ملک میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں، تو پھر سوچئے؛ کون طاقتور ہے؟ کس کی حکمرانی ہے؟ کیوں دنیا نے حتی کہ ہم ہمیشہ امریکا کے انتخابات کو اپنے سر پر ایسے سوار کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے جینے، مرنے کے فیصلے، ہماری قسمت کے فیصلے امریکا نے کرنے ہیں۔ حقیقت کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکا ہو یاپورپ ہو، کسی کا کوئی اختیار نہیں، اگر کسی کے پاس اصل طاقت ہے، اختیار ہے یا جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، وہ صرف اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے کورونا کا جھٹکا ہی کافی ہے۔ جی ہاں! واقعی حقیقت تو کچھ اور ہے!