پھیکی عید
غم اور خوشی کا انحصار انسان کے حالات اور محسوسات پر ہوتا ہے، اگر حالات ناسازگار ہوں تو کوئی شے بھی اچھی نہیں لگتی اور اگر حالات خوشگوار ہوں تو ہر چیز میں رنگینی نظر آتی ہے۔ بس یوں کہیے کہ:
دل کا موسم اگر سہانا ہو
سارے موسم حسیں لگتے ہیں
قلبی کیفیات پر ہی انسان کے مزاج کا تمام تر دار و مدار ہوتا ہے اردگرد کا ماحول اگر اچھا نہ ہو تو مسرت بخش تہوار میں بھی کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ بیزاری کی کیفیت میں ان شا اللہ خان انشاؔ کا یہی شعر بے ساختہ زبان پر آتا ہے:
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھ کھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
گزشتہ عید کے موقع پر یہی کیفیت رہی جس کے نتیجے میں میٹھی عید، پھیکی عید میں تبدیل ہوگئی۔ پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی عید کی خوشیاں کورونا کی وبا کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ گلی کوچے اور بازار جو کبھی عید کی آمد سے قبل ہی عید کی تیاریوں کی وجہ سے رونقوں سے مالا مال ہوتے تھے، وہ سنسان اور ویران ہوگئے تھے اور تاجر اور دکاندار عید کے موقع پر گرمی بازار سے محروم دکھائی دیتے تھے، ہر طرف بے رونقی کا عالم تھا۔ خواتین جو عید کی تیاریوں میں ہمہ تن مصروف نظر آیا کرتی تھیں اپنے اپنے گھروں میں قید تھیں۔ مرد حضرات کی حالت اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ بقول شاعر:
یا ہم سے پریشاں تھی خوشبو یا بند ہے اب کلیوں کی طرح
یا مثلِ صبا آوارہ تھی یا گھر سے نکلنا مشکل ہے
کورونا کی تیسری لہر نے تباہی مچائی ہوئی تھی، ہر کوئی خوفزدہ اور ہراساں تھا، ہر ایک کے سر پر موت کی تلوار لٹکی ہوئی تھی۔ میڈیا پر بار بار کورونا سے احتیاط کے اعلانات ہو رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض لاپرواہ حضرات نے احتیاطی تدابیر کو یکساں نظرانداز کردیاتھا اور وہ شتر بے مہار کی طرح گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔
حکومتی ہدایات کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے یہ لوگ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے سے بھی گریزاں تھے۔ انتہا یہ کہ بہت سے لوگوں نے ماسک بھی نہیں پہنا، اکثر لوگوں نے حفاظتی ویکسین لگوانے سے بھی احتراز کیا۔ چنانچہ اس غفلت کے نتیجے میں بہت سی انسانی جانیں خوامخواہ لقمہ اجل بن گئیں جس کے باعث عید سعید کے موقع پر بہت سے گھر ماتم کدے بن گئے۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے "خود کردہ علاج نیست۔" جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ بھیڑ چال کا یہ عمل خودکشی کے مترادف ہے۔ حکومت کی جانب سے مئی کی 8 تاریخ سے 16تاریخ تک تعطیلات کا اعلان اگرچہ بظاہر سخت تھا لیکن یہ اعلان خیر مستور ثابت ہوا۔ بازاروں اور ٹرانسپورٹ پر عائد کی گئی پابندیاں باعث تکلیف ضرور تھیں لیکن حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھیں۔ ان پابندیوں کا مقصد کورونا کی ممکنہ ہلاکت خیزی سے زیادہ سے زیادہ بچاؤ کرنا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ان اقدامات کی وجہ سے عوام عید سعید کو حسب معمول بارونق بازاروں اور مسرتوں سے محروم رہے لیکن جان ہے تو جہان ہے۔
عید پیاروں کی دید ہوتی ہے، یہ بات بالکل صحیح ہے۔ ہماری طرح جن لوگوں کے پیارے عید کے موقع پر گھروں سے دور دیار غیر میں رہتے ہیں، عید کے موقع پر وہ مسرتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عید ان کے لیے اداسی کا باعث ہوتی ہے۔ وہ خوشی کے اس موقع پر ناآسودہ محسوس کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پیارے خوشی کے اس موقع پر ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتے ہیں ان کی کیفیت تو ناقابل بیان ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بیماروں اور ناداروں کے لیے بھی عید کی خوشیاں ناپید ہوتی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو ایسی صورتحال درپیش ہو۔
پوری مسلم امہ ایک جسد یعنی جسم کی طرح ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے چنانچہ عید کے عین موقع پر فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی وحشیانہ اور درندہ صفت یلغار پر پوری امت کی افسردگی ایک فطری امر ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ جسم کا ایک حصہ تکلیف کا شکار ہو اور بقیہ جسم اس سے متاثر نہ ہو۔ چنانچہ ایمان کی حرارت رکھنے والوں کو عید سعید کے اس موقع پر شدید رنج و الم سے دوچار ہونا پڑا۔ اصل بات احساس کی ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
افسوس صد افسوس کہ بعض ممالک نے جنھیں اسلامی ممالک کہا جاتا ہے اسلام دشمن اسرائیل کے ناجائز وجود کو نہ صرف تسلیم کرلیا ہے بلکہ ان کے ساتھ پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔
ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں
یہی حال مملکت خداداد پاکستان کا ہے جس کا پڑوسی ملک بھارت ازلی دشمن ہے اور جو بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر نت نئے ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اور جس کی حکومت نے بھارت کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہود و ہنود کے اس ناپاک گٹھ جوڑ کے خلاف متحد ہو کر تمام مسلم ممالک مورچہ بند ہو جاتے جس کے نتیجے میں یہ اسلام مخالف قوتیں گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور ہو جاتیں لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
مسلم ممالک اسلام دشمن ملکوں کے خلاف قدم اٹھانے کے بجائے سیاسی مصلحتوں کے تحت ان کے ساتھ اپنے روابط روز بروز بڑھاتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ اور گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں جگہوں پر مسلمانوں کا خون بری طرح بہہ رہا ہے اور اسلام دشمنوں کو مسلمانوں کے خون سے کھلم کھلا ہولی کھیلنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
اگر دنیا کے تمام مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو مجال نہیں کہ اسلام دشمن قوتیں کسی بھی مسلم ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکیں، اگرچہ او آئی سی کی صورت میں مسلم ممالک کی ایک متحدہ تنظیم موجود ہے لیکن اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حقیقی اور مکمل اتحاد اور مصلحت پسندی ہے۔ اس تنظیم میں اخلاقی جرأت اور عملی اقدامات کرنے کا شدید فقدان ہے۔ اس کی موجودہ حالت اصلی شیر کے بجائے قالین کے شیر کی سی ہے۔ اس تناظر میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
گزشتہ عید ہمارے علم میں پھیکی عید تھی جو ناقابل فراموش رہے گی۔ حادثاتی طور پر ہم اس مرتبہ آشوبِ چشم کا شکار ہونے کی وجہ سے بینائی سے محرومی کے سبب اپنے پیاروں کی دید سے محروم رہ گئے۔ ہمارے معالجین ڈاکٹر حارث شہزاد اور ان کے والد بزرگوار ڈاکٹر شہزاد ہماری بینائی کی بحالی کے لیے انتہائی خلوص سے مسلسل کوشاں ہیں۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو کامیاب فرمائے۔ (آمین)