پاک روس تعلقات
وطن عزیز پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک سوویت یونین اور دوسرا یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا (USA)۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں میں سے کسی بلاک کا انتخاب کیا جائے۔ یہ کام بہت آسان نہیں تھا کیونکہ اس میں ملکی مفاد کا خیال رکھنا ضروری تھا اور جغرافیائی پس منظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا، یہ دور سوویت یونین کے عروج کا دور تھا۔
اس وقت سوویت یونین (روس) جسے عرف عام میں روس کہا جاتا تھا۔ امریکا کے مقابلے میں قدرے ترقی یافتہ تھا اور بہ ظاہر اس کا پلہ بھاری تھا چنانچہ دونوں نو آزاد ممالک یعنی بھارت اور پاکستان کے لیے سوویت بلاک کا انتخاب زیادہ بہتر نظر آ رہا تھا۔ بعض سیاسی ناقدین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے روس کے دورے پر امریکا کے دورے کو ترجیح دے کر بڑی غلطی کی تھی جب کہ اصل معاملہ کچھ اور تھا۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے ایک سابق انتہائی سینئر سفارت کار سمیع اللہ قریشی نے اپنی ایک کتاب میں کیا ہے۔
یہ محض انکشاف ہی نہیں بلکہ بڑی زبردست سفارتی کوشش تھی، جس کی تفصیل کتاب میں درج ہے، سفیر موصوف اس کوشش میں برابرکے شریک تھے۔ پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ روس کی تاریخ بھی طے کردی گئی تھی لیکن یہ تاریخ ٹھیک اس دن کی تھی جب پاکستان کے قیام کا تاریخی دن تھا۔ چنانچہ پاکستان کی طرف سے کسی اور ممکنہ تاریخ کے تعین کی درخواست کی گئی جس کا کوشش بسیارکے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا اور یوں یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ عقدہ یہ کھلا کہ بھارتی لابی اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں کامیاب ہو گئی تھی۔
یوں بھارت روس تعلقات کی بنیاد پر بعد کے دنوں میں بیس سالہ روس بھارت دفاعی معاہدہ طے پا گیا جس سے بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ بھارت کی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس جو کانگریس کے نام سے مشہور ہے اس کے بعض لیڈر اشتراکی نظام کے حامی تھے جن کا روسی قائدین پر خاصا اثر تھا۔
شاید اس لیے بھی روسی قیادت بھارت کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھی۔ بھارت روس تعلقات کے حوالے سے ہم نے بھارت کے ایک سینئر سیاستدان کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ مغربی اور مشرقی حصوں پر مشتمل پاکستان کی حیثیت قینچی کے دو حصوں کے درمیان کاغذ جیسی ہے، جب یہ دونوں حصے مل جائیں گے توکاغذ کٹ جائے گا۔ 1971 میں پیش آنے والا سقوط مشرقی پاکستان کا عظیم سانحہ اس کی غمازی کرتا ہے۔
ہماری آنکھوں میں وہ منظر ابھی تک محفوظ ہے جب روسی صدر مارشل بلگانن اور روسی وزیر خارجہ خروشیف نے بھارت کے دورے پر بھارت روس دوستی کی بنیاد رکھی تھی اور ایک بہت بڑے جلسے سے دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ بغل گیر ہونے کے بعد خطاب کیا تھا۔ ایسا ہی منظر ہم نے اس وقت دیکھا جب چینی وزیر اعظم چو این لائی اور پنڈت نہرو وزیر اعظم ہندوستان بھارت چین دوستی کے حوالے سے اسی رام لیلا گراؤنڈ میں ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے، لیکن میدان سیاست میں ثبات کسی کو حاصل نہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اس کی تازہ ترین مثال پاک چین دوستی ہے جو روز بہ روز گہری سے گہری اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے اور دونوں ممالک یک جان دو قالب بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکا آج کل بھارت پر مہربان ہے جب کہ کبھی پاکستان اس کا منظور نظر ہوا کرتا تھا۔
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے
ملکی دوستیاں اور دشمنیاں عالمی سیاست کے تقاضوں پر منحصر ہوتی ہیں۔ باہمی مفادات ان کی بنیاد ہے جس میں موڈ یا پسند اور ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کا انحصار باہمی مفاد پر ہوتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا حالیہ دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہ بھارت کے دورے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئے۔
سیاسی حلقوں میں اس دورے کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دورہ محض رسمی نہیں بلکہ اس کے پس پشت کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ افغان جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین کا انہدام ہو گیا جس کے نتیجے میں پاک روس تعلقات سرد پڑگئے تھے اور کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ آیندہ کبھی ان کا بحال ہونا ناممکات میں سے ہے لیکن روسی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے نے اس قسم کی قیاس آرائی کو غلط ثابت کردیا ہے۔ بقول شاعر:
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
پاک روس تعلقات کے بحال ہونے میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی میں پاک روس تعلقات کا خوشگوار آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان اسٹیل ملز جیسا عظیم پروجیکٹ معرض وجود میں آیا تھا اور مزید پروجیکٹ قائم ہونے کے آثار نظر آرہے تھے۔ پاکستان اسٹیل ملز بہت بڑا منصوبہ تھا جس نے نہ صرف پاکستان کی ترقی کے لیے بہت بڑا موقعہ فراہم کیا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ یہ عظیم منصوبہ بدانتظامی کی بھینٹ چڑھ گیا جس کے نتیجے میں یہ ایک عظیم سرمایہ ہونے کے بجائے ایک بوجھ بن گیا۔ ہماری روایتی مفاد پرستی اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے یہ نہایت اہم ادارہ بند پڑا ہے جس کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ غلط پالیسیوں، بدعنوانیوں نے پاکستان اسٹیل ملز کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اگر اور زندہ رہتے تو شاید پاکستان اسٹیل مل جیسے اور کئی ادارے قائم ہو جاتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور سب کچھ بدل گیا۔ سوویت یونین نے افغانستان کا رخ کیا اور گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس ملک پر چڑھائی کردی یوں افغان جنگ کا آغاز ہوا، جس میں امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اگرچہ یہ معاملہ براہ راست کوئی اثر نہیں ڈال رہا تھا مگر اس کے مضمرات پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے نہایت سنگین تھے۔
چنانچہ پاکستان نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مطلوبہ حکمت عملی اختیار کی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے سابق حکمران بھارت کی شے پر ہمیشہ پاکستان کے خلاف کارروائی میں ملوث رہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نزدیک ترین پڑوسی اور اسلامی رشتے کے لحاظ سے برادر ملک ہونے کے باوجود افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا کہ جس نے ایک آزاد مملکت کے قیام کو سب سے آخر میں تسلیم کیا۔
سابق افغان حکمرانوں کی پاکستان سے مخاصمت کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ قصہ کوتاہ روسی بلاک کھلم کھلا پاکستان مخالف تھا۔ سیاست بھی بڑا عجیب وغریب کھیل ہے کہ جس میں کوئی نہ ہمیشہ کا دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن۔ جوں جوں حالات بدلتے رہتے ہیں یہ دوستیاں اور دشمنیاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ سب کچھ حالات کے جبر اور تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ پاک روس تعلقات کے فروغ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔