ذرا زبان سنبھال کر!
زبان اور لہجہ بدل جائے تو سمجھ جائیے کہ اگر کوئی خرابی نہیں بھی ہے تو اب پیدا ہو جائے گی۔ ہم سب حدود پھلانگ چکے ہیں۔ دل نہیں چاہتا کہ اس گند میں الجھوں، وگرنہ کیا کچھ نہیں کہا جا رہا۔ تاہم ایک بات پر مجھے تشویش ہے۔ ایک ہی صوبہ وفاق کی براہ راست قلمرو میں نہیں ہے۔ اور وہ ہے سندھ۔ یہاں پیپلزپارٹی کی ایک مضبوط حکومت قائم ہے جو وفاقی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چنانچہ اسے صوبے اور وفاق کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ مراد علی شاہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ یقینا جن لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے حقوق کے لیے سینہ سپر رہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ محب وطن نہیں۔ ان کے جس فقرے کو اچھالا جارہا ہے، وہ کسی وطن دشمن کا فقرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ انتہائی دکھ سے کسی محب وطن شخص کی دل کی گہرائیوں سے اچھلی ہوئی آہ ہے۔ یہ کہنا کہ میں ملک کو ٹوٹتا ہوا دیکھ رہا ہوں، ایک دکھ بھرا فقرہ ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ میں ملک ڈبونے والوں کے ساتھ ہوں۔ یہ تو اس دکھ کا اظہار ہے کہ ملک دشمن قوتیں اس کے درپے نظر آتی ہیں۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ اس وقت ہم جس کیفیت میں ہیں۔ اس میں ہر محب وطن پاکستانی کا دل اسی طرح تلملا رہا ہے۔ ایک بے بسی کا اظہار بھی اس بات سے ہوتا ہے۔ اگر یہ بات غلط ہے تو جواب میں یہ کہنا اس سے زیادہ غلط ہوگا کہ پاکستان نہیں سندھ کے غداروں کو خطرہ ہے۔ پاکستان نہیں سندھ ٹوٹ رہا ہے یا ڈوب رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک نوجوان تو بہت آگے بڑھ گیا۔ رعایت دینا ہے تو دونوں طرف دینا ہوگی، تاہم وفاق اور سندھ کا مسئلہ اس سطح پر بنا دینا کہ اس کی حدیں غداری اور حب الوطنی کو چھونے لگیں ایک خطرناک کھیل ہوگا۔ میں اس وقت ان بیانات کو نظر انداز کررہا ہوں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے ایک دن اسمبلی آنے کے نتیجے کے طور پر جنم لیا۔ ایک تو خود عمران کا چہرہ جس درشتگی اور تلخی کا اظہار کررہا تھا اس سے لگتا تھا کہ ابھی وہ پارلیمانی سیاست کے عادی نہیں ہوئے۔ انہیں تنہا اس طرح سیاست کرنے کی عادت ہو گئی ہے جہاں آخری فیصلہ ان کا ہونا ہے۔ تمام پارٹی ان کی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے۔ یہ قیادت کی جہاں مضبوطی کی علامت ہے، وہاں اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ یہ آمرانہ رجحانات کو جنم دیتی ہے ؎ دیوتا بننے کی خواہش میں معلق ہو گئے خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا کسی قیادت کے بارے میں ایسے بیانات آئے کہ کسی کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے قائد کے بارے میں ایسی باتیں کرے یا یہ کہ جیل میں پہلے ہی ہیں، مزید رہنے کا ارادہ ہے۔ ہم آپ کے پروڈکشن آرڈر منسوخ کردیں گے۔ اس طرح کے بیانات کا ایک سلسلہ ہے جو ملک کی سیاست ہی کو خراب نہیں کرتا، اس قیادت کا امیج بھی خراب کرتا ہے جس کی حمایت میں یہ سب باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایک ایسی کرشماتی شخصیت کی پارٹی کے ارکان تو ایسی باتیں سننے پر مجبور ہوتے ہیں مگر مخالف یا دوسری حریف جماعتوں کے افراد یہ سب کیوں سنیں۔ جسے جمہوریت کہتے ہیں یا خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت اس کا ایک بنیادی وصف یہ ہوتا ہے کہ اپنی پارٹی سے باہر کے افراد سے بھی نباہ کرنا آنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اس کام کے لیے آپ کو کسی جہانگیر ترین یا مخدوم شاہ محمود قریشی کی ضرورت پڑے۔ ان کی ضرورت سے پہلے ہزاروں تلواریں آپ کی حمایت میں چل چکی ہوں، تیر انداز تیر چلا چکے ہوں اور آپ سخت غصے اور ناراضی میں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے ہوں۔ اس کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے وزیراعظم کا دنیا میں تاثر یہ ہے کہ وہ ایک شائستہ اور دیانتدار شخص ہیں، مغرب میں گھومے پھرے ہیں، جدید تہذیب کے طور اطوار سے واقف ہیں۔ شاہی خاندانوں تک سے مراسم ہیں۔ جب ان کے طرف دار گالم گلوچ کا سہارا لے کر ان کا دفاع کرتے ہیں تو ان کا یہ امیج خراب ہوتا ہے۔ ان کی اصل طاقت ان کا یہی امیج ہے۔ کبھی کبھی جب وہ بھی غصے میں آ کر اس سے ملتی جلتی زبان کا استعمال کرتے ہیں تو مخالفین یہی بات پھیلاتے ہیں کہ ان کے حامیوں کا طرز بیان ان کی شہہ پر ہے۔ اس وقت بات پھر بگڑی ہوئی ہے۔ اچھا پارلیمانی لیڈر تو وہ ہے کہ جب مخالف اس پر وار کریں تو وہ چٹکیوں سے اس کو اڑا دیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ایک پاکستانی حیثیت سے میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونہی یہ توڑا مروڑی رہے گی تو کاہے کو یہ دنیا نگوڑی رہے گی۔ تحریف کے لیے معذرت، کم از کم اخبار کے صفحات اصل کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر جس صوفی کو اس پر حال آیا تھا، اس نے اس کا یہی مطلب لیا تھا۔ کار مملکت یوں چلنے والا نہیں جب سے نئی حکومت بنی ہے، ہم ایسی ہی کیفیات سے گزر رہے ہیں۔ اس کی ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں ہے، اس کے مخالف بھی کم نہیں رہے۔ عجیب کشمکش ہے۔ میرا ارادہ خود کو صرف سندھ تک محدود رکھنے کا تھا۔ بہت سے مسائل کا بھی ذکر کرنا تھا۔ آج شیخ رشید نے بھڑک ماری ہے کہ سرکلر ریلوے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ سرکلر ریلوے چلا کرتی تھی۔ کراچی کا سارا پلان اس بات کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا تھا کہ اس ریلوے کا راستہ کھلا رہے۔ فلائی اوور بنا کر درمیان میں ریلوے لائن تھی۔ کیا کیا بتائوں۔ کہاں کہاں قبضہ مافیا نے قبضہ نہیں کیا۔ کراچی کا سنٹرل ریلوے سٹیشن گلشن اقبال میں بننا تھا۔ ساری زمین پر قبضہ ہوگیا۔ ریلوے ٹریک پر تجاوزات قائم ہو گئیں۔ اب سپریم کورٹ کہتا ہے کہ سب صاف کرو۔ اس حکم کے بغیر آپ اس ٹریک کو صاف تک نہ کرا سکے تھے بنانا تو دور کی بات ہے۔ یہ صاف نہ ہو تو ایک نہیں، لاکھ شیخ رشید بھی آ جائیں سرکلر ریلوے بنانے کا سوچ نہیں سکتے۔ میں 73ء سے کراچی کو دیکھ رہا ہوں۔ زندگی کا بڑا حصہ وہاں گزارا ہے۔ میں نے تو ایمپریس مارکیٹ کے گرد تجاوزات کو پہلے دن سے اسی طرح دیکھا تھا۔ چڑیا گھر یا گاندھی گارڈن کے گرد عمارات یوں لگتا تھا کہ اجازت سے بنائی گئی ہوں۔ کراچی کا ایک ماسٹر پلان تھا۔ عدالت کہتی ہے شہر کو اس حالت میں بحال کرو۔ پتا چلا کہ 500 عمارتیں ڈھانا پڑیں گی۔ وزیر بلدیات کہتے ہیں مجھے ایسا کرنا پڑا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ بیس سال سے یہاں ماس ٹرانسپورٹ کے کئی منصوبے بنائے جاتے رہے۔ ایک پرعمل نہیں ہوا۔ اب ایک گرین لائن بن رہی ہے۔ نوازشریف نے آغاز کیا تھا۔ یہاں بھی وفاق اور صوبہ الجھے ہوئے ہیں۔ وہاں کے ہسپتالوں کے حوالے سے بھی مرکز و صوبے میں لڑائی ہے۔ کراچی شہر مرکز، صوبے اور بلدیہ کے درمیان بٹ گیا ہے۔ تینوں پر الگ الگ پارٹیوں کا قبضہ ہے۔ سب اپنے اپنے اختیارات چاہتے ہیں مگر کسی کو شہر سے محبت دکھائی نہیں دیتی۔ کسی دن ان دکھوں کا بھی تذکرہ کروں گا۔ یہ جو امراض قلب کا قومی ادارہ ہے جس کے ساتھ جناح پوسٹ گریجوایٹ ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال ہیں۔ یہ وفاق سے صوبے کے نیچے تھے، اب عدالت کہتی ہے انہیں وفاق سنبھالے۔ سندھ والے کہتے ہیں ہم 18 ویں ترمیم کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ اس جھگڑے میں خرابی کیا ہورہی ہے، اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ سب جھوٹ بول رہے ہیں، یقین کیجئے سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ چھوٹے لیول پر بھی اور بڑی سطح پر بھی۔ سیاست بازی ہورہی ہے اور کسی کو ملک کی فکر نہیں۔ ہم کبھی وفاق کو بچانے نکلتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اس سے ان خرابیوں کا تدارک نہیں ہو سکتا جو پیدا ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف کبھی صوبائی خودمختاری کا نعرہ لگاتے ہیں اور نظرانداز کردیتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں کیا کیا خرابیاں کر رہی ہیں۔ یہ سب جعلی جنگیں ہیں۔ کہیں ہم اسی میں کھپت نہ رہیں۔ ہمیں سنبھلنا ہوگا۔ اوپر سے لے کرنیچے تک اپنے بیانیے درست کرنا ہوں گے۔ کہیں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جتنی خرابیاں ہیں، ہم اپنی باتوں سے ان خرابیوں کو کئی گنا کر جاتے ہیں۔ زبان اور لہجہ بگڑ جائے تو جو خرابی نہیں بھی ہوتی، اس کے پیدا ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ کیا ہم اپنی زبان نہیں سنبھال سکتے۔