فاروق عبداللہ سے گلگت و بلتستان تک
میں وہمی شخص ہوتا تو جانے کتنے سوال اٹھا دیتا۔ ویسے بھی میں کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے اور ایک متشدد پاکستانی ہونے کے ناتے کبھی شیخ عبداللہ کے خانوادے سے مطمئن نہیں ہوا۔ ان کی تین نسلوں نے مقبوضہ کشمیر پر حکومت کی ہے۔ وہ سونے کے بن کر بھی آ جائیں تو بھی مجھے ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ آدمی کو ویسے اتنا بھی سنگدل نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی وہاں سے خیر کی بارش ہو جاتی ہے جہاں سے اس کا گمان تک نہیں ہوتا۔ طائف میں بدترین ظلم کرنے والوں کی ہدایت کی حضور ﷺ نے یونہی دعا نہیں کی تھی۔
خیر فاروق عبداللہ نے جو بیان دیا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں کوئی سنجیدہ تجزیہ تو نہیں دیکھا۔ مگر بعض لوگوں کو ہنہناتے سنا ہے کہ ہم نہ کہتے تھے چین سے بچ کر رہو۔ یہ دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی بن سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا میں وہمی شخص نہیں جو اپنی فکر کو اس راستے پر ڈالوں۔ تاہم فاروق عبداللہ کے بیان سے میرے اندر ایک کھد بد سی ہو رہی ہے۔ مطلب یہ کہ اب کشمیر کا ایک تیسرا فریق بھی ہو سکتا ہے۔ تیسرے فریق سے مری مراد کشمیری عوام نہیں۔ وہ تو فریق اول ہیں بلکہ چین ہے۔ ہم بہت خوش ہو رہے ہیں کہ چین نے کشمیر کے اس علاقے پر جسے لداخ کہتے ہیں، اپنے پنجے گاڑ کر بھارت کو زچ کر دیا ہے۔ ہمیں چونکہ اس علاقے کے حوالے سے زیادہ تشویش نہیں ہے۔ کیونکہ ثقافتی لحاظ سے وہ بدھ مت کے پیرو کاروں کا علاقہ ہے۔ ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ لے بھئی چین بھی اب کشمیر کے مسئلے پر دبائو ڈال رہا ہے۔ مگر ہمیں کبھی تشویش نہیں ہوئی تھی کہ اصل کشمیر پر چین کی کوئی نظر ہے اور ہے بھی نہیں۔ مگر شیخ عبداللہ کے بیٹے کے تازہ فرمان نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کشمیر کے عوام یا کشمیر کے بعض لیڈر چین کو بھی ایک آپشن سمجھ سکتے ہیں۔ درست کہ فاروق عبداللہ نے یہ بات بھارت کو زچ کرنے کے لئے کہی ہے کہ کشمیری کبھی خود کو بھارتی نہیں سمجھتے۔ جو بالکل درست بات ہے۔ تاہم انہوں نے اتنا اضافہ کیا کہ اگر یہاں چینی فوج بھی آ جائے تو وہ اس کو ترجیح دیں گے۔ درست یہ صرف ایک اظہار ہے۔ مگر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ فاروق عبداللہ نے کبھی پاکستان کے حق میں ایسا کلمۂ خیر کہا ہو جبکہ کشمیر کے حریت پسند پاکستان کا پرچم لہراتے اور اپنے شہیدوں کو اس پرچم میں لپیٹ کر اٹھاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ چین کے کبھی اس علاقے میں توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کی نام نہاد "سیاسی" قیادت جو پاکستان کی طرف جھکائو نہیں رکھتی۔ اب مگر انہیں چین یاد آ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے اس علاقے میں عملی طور پر آن بیٹھنے سے عالمی سطح پر مسئلے کو تقویت ملی ہے۔ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمیں کیا کرتے رہنا چاہیے۔ دنیا تو فتنہ فساد دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک بار عالمی میڈیا میں یہ خبر آئی کہ پاکستان گلگت و بلتستان کے علاقے میں چین کی مدد سے سرنگیں کھود رہا ہے تاکہ اس میں اپنا ایٹمی اسلحہ محفوظ طور پر چھپایا جا سکے اور سات ہزار چینی فوج یہاں آن بیٹھی ہے۔ میں نے بغیر معلومات کے اندازہ لگایا کہ یہاں کیا ہو رہا ہو گا۔ چین کے بڑے تعمیراتی کام ان کی پیپلز آرمی ہی کرتی ہے۔ اس لئے ظاہر تھا کہ شاہراہ قراقرم کی کسی سرنگ کی تعمیر کے حوالے سے یہ لوگ سرگرم عمل ہوں گے۔ بعد میں تصدیق ہوئی کہ عطا آباد جھیل بن جانے سے چین نے پاکستان کی مدد کی اور اس جھیل کے نیچے کئی کلو میٹر لمبی سرنگ تعمیر کر کے شاہراہ قراقرم کے راستے میں حائل اس رکاوٹ کو زیادہ مضبوط بنیادوں پر دور کر دیا۔ وہ اسے ایٹمی اسلحہ چھپانے والی سرنگ سمجھے اور پیپلز آرمی کے جوانوں کو چین کی فوجی موجودگی بنا ڈالی۔ اس وقت ہمارے ہاں گلگت و بلتستان کو بھی پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کی بات چل رہی ہے۔ اس میں کئی مصلحتیں ہیں۔ ہم نے بھاشا ڈیم بھی تعمیر کرنا ہے۔ دنیا کو منگلا ڈیم جھیل کے آزاد کشمیر تک جانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر اب بھاشا ڈیم کے گلگت بلتستان میں ہونے پر اعتراض ہے۔ ہمارے لئے مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ اعتراض دور کرتے کرتے کہیں کشمیر کے مسئلے پر اپنے بنیادی موقف میں ایسی تبدیلی پر مجبور نہ ہو جائیں، جو بعد میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کر دے۔ یہ حساس اور نازک معاملہ ہے، اب اس پر بات چل رہی ہے۔ جس کا اثر آئین پاکستان پر بھی پڑتا ہے۔ سینٹ میں سیٹیں دینے کا مسئلہ ہے۔ ایسے ہی نازک معاملات فاٹا کے علاقوں میں بھی تھے۔ ہم نے اسے بھی دیر میں طے کیا۔ ابھی تک بہت کچھ ہونا باقی ہے جو ہم نہیں کر پا رہے، گلگت بلتستان کا معاملہ اس سے بھی نازک ہے۔ پھر کیا بیچارہ آزاد کشمیر ہی رہ جائے گا جو متنازعہ ہو گا۔ میں ماہر قانون نہیں جو رائے دوں۔ پارلیمنٹ کو بھی اس بارے میں فیصلے کرتے ہوئے بہت کچھ سوچنا ہو گا۔ معاف کیجیے۔ سو بار معاف کیجیے، وہ مشہور بات ہے کہ جنگ اتنا غیر اہم معاملہ نہیں کہ اسے صرف جرنیلوں پر چھوڑا جا سکے۔ اس طرح فاٹا، گلگت و بلتستان بھی اتنے حساس معاملے ہیں کہ انہیں محض کچھ اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پارلیمنٹ پر بھی زیادہ اعتبار نہیں رہا۔ یہ کسی بھی بات کو بلڈوز کر سکتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ ترین تھنک ٹینک تشکیل پانا چاہیے جو ہر پہلو کا جائزہ لے۔ قانونی بھی اور عملی بھی۔ شمالی وزیرستان میں ہم پر روز حملے ہوتے ہیں۔ صوبوں سے ہم وہ حصہ بھی نہیں لے سکے جو اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے ضروری ہے۔ گلگت بلتستان میں تو بہت کچھ ہونا درکار ہو گا۔ یہ بہت حساس علاقہ ہے۔ ہر ادارے کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ وہ بہت یکسوئی سے بھی فیصلہ کریں گے تو وہ ان کے اپنے مزاج کے مطابق ہو گا۔ پارلیمنٹ کے بارے میں عرض کیا کہ اس کے بارے میں بھی اطمینان نہیں۔ کیا کریں ہم۔ عدلیہ کو میں بیچ میں نہیں لانا چاہتا۔ کیا کوئی قانون دان اہل دانش ڈھونڈے جائیں یہ بھی اور بہت سارے بھی۔ پتا نہیں ہمارے ہاں ماہرین سیاست ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ بہترین سفارت کاری جاننے والے بھی درکار ہوں گے۔ بہت زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہو گی۔
چلئے بات کدھر نکل گئی۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ کشمیر پر ہمارے لئے اب نئے نئے سوال اٹھ رہے ہیں اور ان کا جواب ہمارے کسی ایک ادارے کے پاس نہیں، وگرنہ میں کہتا کہ قائد اعظم کی طرح اپنی مسلح فوج کو حکم دیا جائے کہ وہ سری نگر پر جھنڈا لہرا کر آئیں۔ اس وقت یہ سب جذباتی باتیں ہوں گی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کشمیر میں ہر روز نئے پہلو کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ فاروق عبداللہ کے بیان کا یہی مطلب ہے۔ ہمیں سوچ بچار کا کچھ بندوبست کرنا چاہیے۔