آخر سچ ہے کیا!
دھڑا دھڑ بجٹ آ رہے ہیں اور ان کی آڑ میں بڑے بڑے دعوے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے گویا ملک کا مقدر بدل کر رکھ دیا ہے۔ قومی معیشت جو چند روز پہلے بستر مرگ پر تھی، اب حیات نو پا چکی ہے۔ مقابلہ پہلے والوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک کو تباہ حال چھوڑا تھا۔ ہم نے اسے دوبارہ پائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ اعداد و شمار کا انبار لگایا جا رہا ہے۔ جو اب میں بھی بڑے بڑے دعوے ہو رہے ہیں۔ اعداد و شمار کی ایسی جنگ جاری ہے کہ لگتا ہے کہ سب سچ کہہ رہے ہیں۔ کوئی بھی غلط نہیں ہے۔ پہلوں نے اتنا قرض چھوڑا جسے ہم نے ادا کر دیا اور اب ملک کو درست سمت پر گامزن کر دیا ہے۔ اپوزیشن بھی ان اعداد و شمار کی دھجیاں بکھیرتی نظر آتی ہے۔ آخر سچ ہے کیا؟
سچ وہ ہے جس سے عوام کو روز گزرنا پڑتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عام آدمی بڑی مشکل میں ہے۔ اس سے اگر پاکستان کے مسائل کے بارے میں پوچھیں تو اس کی زبان پرصرف تین لفظ آتے ہیں۔ یاد رکھیے گا مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے یا بے روزگاری کا بتائے گا یا پھر وہ غربت کا نام لے گا۔ یہ تین لفظ مہنگائی بے روزگاری اور غربت آج عام پاکستانی کی زندگیوں کا خلاصہ بنی ہوئی ہیں۔ وہ دن گئے جب ہم کوئی اور بات گنواتے تھے کہ صوبہ پرستی یا علاقائی پرستی ہے۔ ہم میں قوم کی حیثیت سے یکجہتی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم دین سے دور ہو گئے ہیں یا ہم دقیانوسی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے جس لبرل اور سائنسی اپروچ کی ضرورت ہے ہم میں اس کی کمی ہے۔ اب ہم بالکل ان باتوں پر غور نہیں کرتے بھوک اور افلاس نے یکایک قوم کو ایسا مار رکھا ہے کہ اب انہیں اور کچھ نہیں سوجھتا۔ آپ کے سب اشاریے بے معنی ہیں اگر اس کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ کسی کو اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ بجٹ سیشن میں عوام کے نمائندے کیا کر رہے ہیں۔ بھاڑ میں جائے سب کچھ۔ ان کی بحثوں سے کون سے گلاب کھلنے والے ہیں۔ سب کے پاس مضبوط دلیلیں ہیں۔ غلط باتیں بھی اتنے اعتماد اور ڈھٹائی سے بیان کی جا رہی ہیں کہ لگتا ہے ہر کوئی سچ بول رہا ہے۔ شہباز شریف بھی اور اسد عمر بھی بلاول بھٹو بھی اور حماد اظہر بھی۔ سب سچے ہیں۔ ؎
تم بھی سچے ہم بھی سچے
عشق میں سچ ہی کا رونا ہے
حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ثابت کرنا ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے جبکہ تین چار ماہ پہلے وہ اعتراف کرتے تھے کہ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ اپوزیشن مضبوط ہوتی تو ہمیں نکال باہر کرتی۔ یہ جو نیا بیانیہ بنا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمار کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ بہت پہلے پروفیسر غفور احمد کے بارے میں لکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ وہ اکائونٹس کے آدمی ہیں۔ حساب کتاب کے ماہر ہیں، عدد کی سچائی کی طرح وہ خود بھی کھرے ہیں۔ ہندسہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اب جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ اعداد و شمار کی آڑ میں جتنا جھوٹ ہم بولتے ہیں وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کون سچ بول رہا ہے۔ شہباز شریف جو بتاتے ہیں کہ انہوں نے سستے ترین بجلی گھر مختصر ترین مدت میں لگائے جن پر لاگت بھی کم آئی اور جن کے مفید اور فائدہ مند ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ انہوں نے کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر ساہیوال میں کیوں لگایا جب کہ کوئلہ کراچی کی بندرگاہ پر آتا ہے۔ شہباز شریف جواب دیتے ہیں کیونکہ بجلی کا لوڈ یہاں خرچ ہونا تھا وہ ٹرانسمیشن وغیرہ میں انرجی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں اس وقت بجلی گھر کاجو تخمینہ نیپرا نے لگا رکھا تھا یہ اس سے کہیں سستے تھے اور یہ کہ قرضے پر نہیں بنے، چین کی سرمایہ کاری ہے۔ وہ کہتے ہیں شرائط ایسی ہیں کہ بجلی مہنگی پڑتی ہے۔ جواب آتا ہے کہ اپنی بیوقوفیوں سے مہنگی کر دو تو تمہاری مرضی۔ وگرنہ اس وقت سستی ترین بجلی یہ تھی۔ صرف ہائیڈرو پاور اس سے سستی ہے۔ مگر ڈیم بنتے تو وقت لگتا ہے یہ سارے ڈیم بھاشا اور داسو وغیرہ انہوں نے شروع کئے تھے مگر انہیں کارآمد ہونے میں وقت لگے گا۔ ایٹمی بجلی گھر کا منصوبہ بھی کراچی میں میں چل رہا ہے۔ یہ سب وقت مانگتے ہیں اتنی دیر کیا ملک اندھیروں میں ڈوبا رہتا۔
سخت مقابلہ ہے اور سخت گرما گرمی بھی ہے۔ فیصلہ کون کرے گا۔ فیصلہ عوام کریں گے۔ فیصلہ وہ کریں گے جن پر بیت رہی ہے۔ تقریروں کو چھوڑو، عام آدمی کے پاس جا کر پوچھو تم کیا کہتے ہو۔ وہ کہتے ہیں مہنگائی بہت ہے، بجلی پہلے سستی تھی اب مہنگی ہے، کھانے پینے کی اشیا تب وافر تھیں اور عام آدمی کی دسترس میں بھی۔ اب دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیاہے۔ کہا جا رہا ہے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو رہا ہے اس لئے بجلی مہنگی ہو گی اور پٹرول بھی۔ مگر یہ کیا سن رہے ہیں کہ اشیائے خورو نوش پر بھی ٹیکس لگ رہا ہے۔ آٹے، انڈے، چینی، دودھ سب پر ٹیکس لگے گا۔ یہ ہے فلاحی ریاست، یہ ہے ریاست مدینہ کا جدید ماڈل۔ خدا مجھے معاف کرے اگر میں نے کبھی یوں سوچا ہو۔ یہ سوچنا بھی گناہ ہے۔ اتنا تو شوکت ترین نے بجٹ کی گرما گرمی میں مان لیا کہ پٹرول پر لیوی کی مد میں 600ارب اکٹھا کرنے ہیں جس کا مطلب ہے پٹرول 25سے 30روپے مہنگا ہو گا۔
اب اگر آپ کہیں کہ معیشت مستحکم ہو گئی ہے اوریہ کہ ہم ٹرکل ڈاون کا انتظار بھی نہیں کریں گے اورباٹم اپ سے عام آدمی کو فوراً فائدہ پہنچائیں گے تو اس کے آثار تو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ سچ وہی ہے جس کی ٹینشن جمہور کو محسوس ہوتی ہو۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کیا کہ تمہاری فارن ایکسچینج میں کتنے ڈالر ہیں یا تمہاری حساب کتاب میں کتنی ترقی ہوئی۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں روٹی کا حصول بھی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ میں نہیں کہتا یہ کس کا ایجنڈا ہے مگر اتنا تو کہنے دیجیے کہ یہ ہماری بیوقوفی کا ثمر ہے۔ سچ وہی ہے جو عوام محسوس کریں اور اسے تین لفظوں میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری۔ ابھی حال ہی میں جاری ہونے والے ایک سروے میں تقریباً70فیصد لوگوں نے الگ الگ انہی تین باتوں کا ذکر کیا ہے۔ رہ گئے تمہارے اعداد و شمار تو انہیں چاٹنا ہے؟