کر بھلا سو ہو بھلا
ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ حسب حال سا ہے۔ ہمارے ایک قریبی جاننے والے کرامت علی مرحوم شہر ملتان شریف میں رہتے تھے، کوئی ایسے امیر کبیر تو نہیں تھے، بس عزت کے ساتھ گزر بسر ہوتی تھی۔ بہن بھائیوں میں مثالی اتحاد اور پیار تھا۔ دستر خوان پر اکٹھے کھانا کھاتے، جب تک سارے بہن بھائی جمع نہ ہوجاتے، کھانا شروع نہیں ہوسکتا تھا۔
ایک اور خاص بات بھی تھی کہ ان کے گھر میں سبزی کبھی نہیں پکتی تھی۔ وہ لوگ صرف گوشت کھاتے تھے اور وہ بھی بکرے کا۔ دستر خوان پر بیٹھ کر سارے بہن بھائی، ایک دوسرے کو اچھی اچھی بوٹیاں اٹھا اٹھا کر دیتے۔"بھائی جی! یہ بوٹی کھاؤ، بہن جی! یہ بوٹی لو۔" ایسا اتفاق اور پیار کہیں کہیں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوئر مڈل خاندان ہونے کے باوجود بہن بھائی ایک دوسرے کا سہارا بنتے تھے۔ کوئی بہن ذرا پیسے کے حوالے سے کمزور ہے تو دوسرے بہن بھائی اس کا مہینہ باندھ دیتے۔ جب تک کہ اس کے معاشی حالات بہتر نہ ہوجاتے۔ فی زمانہ تو بہن بھائی ایک دوسرے کا سہارا بننا تو دور کی بات، گرتے ہوئے کو ایک دھکا اور مار دیتے ہیں، مگر یہ خاندان کمال کا خاندان تھا۔ جو ایک دوسرے کا سہارا بنتے تھے۔
میں نے اوپر لکھا ہے ناں! کہ ان کے ہاں صرف گوشت کھایا جاتا تھا۔ دال سبزی کا داخلہ ان کے ہاں بند تھا۔ ایک بار ان کے گھر دو چار دن رہنے کا اتفاق ہوا تو میں نے فرمائش کرکے رام توری سبزی پکانے کو کہا، تو میں حیران پریشان ہوگیا کہ توری کے گول گول ٹکڑے شوربے میں تیرتے نظر آرہے تھے، جب کہ توری کو پیاز کے ساتھ ملاکر بھجیا کی شکل میں پکایا جاتا ہے، جو نہایت لذیذ سالن بنتا ہے، مگر ان کے گھر میں دال سبزی کا رواج ہی نہیں تھا کہ وہ بے چارے ایسی ہی سبزی پکا سکتے تھے۔
مسلسل مرغن گوشت کے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرامت علی کے گردے فیل ہوگئے۔ اس وقت کراچی میں ہی ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کا اسپتال تھا کہ جہاں ڈائیلائسز کی سہولت موجود تھی۔ کرامت علی صاحب کے بچوں نے مجھ سے رابطہ کیا، میں نے فوراً سے پیشتر انھیں کراچی پہنچنے کا کہہ دیا اور خود ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب کے اسپتال پہنچ گیا تاکہ کرامت علی صاحب کے لیے اسپتال میں داخلے کا بندوبست کیا جائے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب ہمارے برے بھائی حبیب جالب صاحب کے بہت مہربان دوست بلکہ پرانے تحریکی ساتھی ہیں اور اتفاق کہ خالی بیڈ بھی مل گیا۔
کرامت علی صاحب اسی شام کو اپنے بیٹے کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز ملتان سے کراچی آگئے۔ میں ایمبولینس کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھا اور کرامت علی صاحب کو ایمبولینس کے اسٹریچر پر ڈال کر سیدھا اسپتال لے گئے۔ اسپتال میں داخلے کے انتظامات ہو چکے تھے۔ ہوں کرامت صاحب کا ڈائیلائسز کا کام شروع ہوگیا۔
کرامت علی صاحب کا علاج جاری تھا اور وہ تیزی سے بہتر ہو رہے تھے۔ اس دوران ان کے بچے ملتان سے کراچی آئے تاکہ بیمار باپ سے ملاقات کرسکیں۔ کرامت علی صاحب کو ویسے تو اپنے سبھی بچے عزیز تھے، مگر خصوصاً وہ اپنی بڑی بیٹی صبا سے بہت پیار کرتے تھے۔
میں اسپتال میں موجود تھا، جب کرامت صاحب کی چہیتی بیٹی صبا باپ سے مل رہی تھی، بیٹی نے باپ سے پوچھا "ابو جی! کیسی طبیعت ہے، کیا حال ہے؟" تو جواباً کرامت علی صاحب نے یہ مشہور شعر پڑھا:
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
کرامت علی صاحب نے چہیتی بیٹی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور باپ بیٹی ایک دوسرے میں محو تھے۔"ابو جی! آپ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔" بیٹی کا ہاتھ باپ کے ہاتھ میں تھا اور وہ بیٹی سے کہہ رہے تھے "صبا! تم یاد رکھنا، تم بہت بھاگوان ہوگی، نصیبوں والی، یہ تیرے بیٹے بہت ترقی کریں گے اور تُو آسودہ حال زندگی گزارے گی۔" واقعی ایسا ہی ہوا۔ کرامت علی تو کچھ عرصہ جی کر اللہ کے پاس چلے گئے مگر صبا کے پانچ بیٹے ترقی کرکے آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے ماں باپ کا بہترین سہارا بنے ہوئے ہیں۔
کرامت علی صاحب کے سبھی بچے نیک، اچھے اور ترقی والے نکلے۔ مگر خصوصی پیار ولی بیٹی صبا اور اس کا شوہر بیمار رہنے لگے ہیں۔ بچے اپنے بیمار ماں باپ کا ساتھ خوب نبھا رہے ہیں۔
آج مدت بعد مجھے یہ بھولا بسرا واقعہ یوں یاد آگیا کہ بھائی کرامت علی واقعی شدید علیل تھے۔ اسی لیے میں انھیں ایئرپورٹ سے سیدھا اسپتال لے کر گیا، جہاں ان کے لیے تمام ضروری انتظامات کرلیے گئے تھے۔"کر بھلا سو ہو بھلا، انت بھلے کا بھلا" جھوٹ، فریب، دھوکے کا انجام برا ہی ہوتا۔