عورت
کائنات میں رنگ وجود زن سے ہیں، عورت اور مرد کائنات کا پھیلاؤ۔ اللہ نے اکیلے آدم کو بنایا تھا، پھر حوا کو بھی بنا ڈالا، کہتے ہیں اکیلے آدم کا جی نہیں لگتا تھا حالانکہ آدم جنت کا مقیم تھا۔
کیا کچھ نہ تھا جنت میں ! سب سے بڑھ کر حوریں موجود تھیں، مگر آدم کو ایک ساتھی درکار تھا، بس ایک ساتھی۔ جو حور نہ ہو بلکہ خاص اسی کے لیے ہو۔ دن رات کا ساتھی۔ سو اللہ نے آدم کے وجود سے حوا کو نکالا۔ آدم مرد تھا اور حوا عورت تھی۔ کائنات کی پہلی عورت۔ آدم اور حوا، جو تمام دنیا کے انسانوں کے باپ اور ماں ہیں۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی آدم! بابا آدم ہیں اور حوا! اماں حوا۔
آدم اور حوا دونوں جنت میں رہ رہے تھے دودھ شہد کی نہریں، لذت بھرے پھل، پرندے سب مزے ان دونوں کے لیے تھے۔ سب کچھ اچھا تھا کہ اللہ نے آدم و حوا کو امتحان گاہ میں چھوڑ دیا اور امتحان شروع ہو گیا۔ اللہ نے سبق نمبر 1 دیتے ہوئے دونوں سے کہا " دیکھو! جنت کی تمام نعمتیں تم دونوں کے لیے ہیں، خوب کھاؤ پیو مگر! اس پودے کے قریب بھی نہ جانا اور نہ ہی اسے چکھنا، یہ گیہوں کا پودا ہے، اگر تم نے میرے سبق کی نافرمانی کرتے ہوئے اس پودے کے دانے کھا لیے، تو تم کو جنت سے نکال دیا جائے گا۔"
بس اللہ کے کہے "مگر" کا ہی سب کیا دھرا تھا اور اللہ نے شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی تھی کہ "جاؤ شیطان! تمہیں کھلی چھٹی ہے تم بہکاؤ میرے بندوں کو، مگر یاد رکھنا! جو میرے سچے بندے ہونگے وہ تیرے بہکاوے میں نہیں آئینگے" شیطان نے اللہ کا چیلنج قبول کیا اور جنت میں بابا آدم اور اماں حوا کے پاس پہنچ گیا اور انھیں کہا "جنت کی ساری نعمتیں کھا پی رہے ہو، مگر اس گندم کے دانوں کا مزہ بھی لو۔ کبھی انھیں بھی چکھو۔"
ہمارے بابا، اماں شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، گندم کا پیٹ میں جانا تھا کہ ایک آگ سی تن بدن میں بھڑک اٹھی اور سزا کے طور پر اللہ نے بابا آدم اور اماں حوا کو دنیا میں الگ الگ اتار دیا۔ یہاں سے معافیاں مانگنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بابا آدم اور اماں حوا یوں ہی اپنے اپنے سفر میں گم " کہیں دور میں، کہیں دور تم/چلے جا رہے تھے جدا جدا" کہ معافیوں کی قبولیت کے بعد آپس میں مل گئے اور پھر حضرت شیث علیہ السلام پیدا ہو گئے اور آج یہ دنیا ہمارے سامنے ہے۔ یہ دنیا، دیکھ رہے ہیں نا! یہ دنیا۔ اس گندم کی ہی یہ دنیا، یہ سارا پھیلاؤ ہے۔ گندم پوری دنیا کی بنیادی غذا۔ اسی گندم کا ہی سارا "رولا گولا" ہے۔ گندم اگاتے ہاتھ خود اسی گندم سے محروم رکھے جاتے ہیں، ساری گندم "زمینی خدا" اٹھا کر لے جاتے ہیں اور گندم اگاتے انسان صرف آنسو بہاتے ہیں۔ آہیں بھرتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں۔ جالبؔ 1961میں شعلہ بار تھا کہ:
جب شباب پر آ کر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں، کون مسکراتا ہے
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی، کیوں صدائیں آتی ہیں
آدم اور حوا کے "جائے" دنیا پر جانے کتنی بار قیامت بن کر ٹوٹے ہیں، ایسی ایسی قیامتیں اس انسان نے ڈھائی ہیں کہ ملک کے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ کس کس قیامت کا رونا روئیں انسانی تاریخ خون سے لتھڑی ہوئی، لاشوں کی سڑاند سے بھری ہوئی، عزتیں عصمتیں تار تار۔ اور ان تمام مظالم میں مرد اور عورت دونوں ہی برابر کے شریک ہیں۔ مرد اگر بادشاہ ہے تو عورت داشتہ کے روپ میں موجود ہے اور داشتاؤں کا یہ سلسلہ آج بھی خوب ہرا بھرا ہے۔
آج کی عورت اپنے حقوق، اپنی آزادی مانگتی ہے تو حقوق سلب کرنے میں مرد اور عورت دونوں ہیں۔ مرد اگر اقتدار میں ہے تو عورت وہاں داشتہ کے روپ میں بیٹھی ہے۔ ان داشتاؤں کا بھی خاتمہ بہت ضروری ہے۔ یہ پنج ستارہ اور ست ستارہ ہوٹلوں کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں عورت کے حقوق اور آزادی کی جنگ نہیں چلے گی۔ اصل جنگ کا میدان پاکستان کے گاؤں، گوٹھ، دیہات ہیں۔ عورت جہاں قید ہے جہاں عورت خوف کے سایوں اور ظلم کے پہروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
تھر میں آج بھی عورت بربریت کا نشان ہے اور اس مظلوم کی رنگین پینٹنگز بنا بنا کر لاکھوں روپوں میں بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔ وہ عورت جو پانی کی تلاش میں میلوں پیدل چلتی ہے، جھلستے موسم میں جھلستی ہے، اور اس کی مفلسی کو پینٹ کر کے لاکھوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ وہی طبقے، وہی مخلوق، وہی لوگ جن کی وجہ سے انسانی معاشرہ مفلوج ہے انھی مکروہ انسانوں کے اربوں کھربوں کے مکانوں میں مظلوم عورت کی تصاویر سجائی جاتی ہیں۔ یقینا وہ مظلومیت کے شاہکار دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہونگے۔ افسوس! مگر کاہے کا افسوس! کئی بار مجھے شاعر نصرت صدیقی (فیصل آباد) کا شعر یاد آ جاتا ہے۔ کیا بولتا شعر ہے اورکیا ظالم و مظلوم کی صف بندی ہے:
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے، کون سے گھرانے سے
کیا سادہ سا صاف سا دو ٹوک شعر ہے اور سچی بات ہے کہ ہماری جنگ بھی صاف اور دو ٹوک ہے۔ ہمیں ظالم و مظلوم کے درمیان لکیر کھینچنا ہو گی۔ اے مظلوم کے لشکریو! اے مظلوم کے حمایتیو! اپنی مضبوط صف بندی کر لو کیونکہ " اسی میں ہے تری مکتی۔"
جالبؔ نے عورتوں کے حق میں بہت لکھا بلکہ سب کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیا کے دور میں عورتوں کی "آدھی گواہی" کے خلاف عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں نکلنے والے جلوس مال روڈ، ریگل چوک لاہور میں پولیس والوں کی لاٹھیاں بھی کھائیں، زخمی ہوئے اور یہ بھی حبیب جالبؔ کے ساتھ ہوا انھی کی ایک نظم لکھتا ہوں :
عورت
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
دیوار ہے وہ اب تک، جس میں تجھے چنوایا
دیوار کو آ توڑیں، دیوار کو آ ڈھائیں
انصاف کی خاطر ہم سڑکوں پہ نکل آئیں
مجبور کے سر پر ہے، شاہی کا وہی سایہ
بازار ہے وہ اب تک جس میں تجھے نچوایا
تقدیر کے قدموں پر سر رکھ کے پڑے رہنا
تائید ستم گر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا
حق جس نے نہیں چھینا، حق اس نے کہاں پایا
کٹیا میں ترا پیچھا، غربت نے نہیں چھوڑا
اور محل سرا میں بھی زر دار نے دل توڑا
اُف تجھ پہ زمانے نے کیا کیا نہ ستم ڈھایا
تو آگ ہے اے عورت، زندہ بھی جلی برسوں
سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں
تجھ کو کبھی جلوایا، تجھ کو کبھی گڑوایا