سانحے دہرائے جا رہے ہیں
جنوری کا آغاز سانحوں سے بھرا ہوا ہے۔ کچھ سانحات کے درمیان ایک پراسرار سی مماثلت ہے۔ ایسی کہ جسے آپ قطعًا نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ سنا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر یہاں تو سانحے اور بدترین حادثات بھی اپنے آپ کو دہراتے ہیں۔
نہ کوئی حالات کی رفو گری کرتا ہے نہ کہیں سے بہتری کی آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ جنوری 2021ء ہے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے لاشے لیے ان کے لواحقین اس یخ بستہ سردی میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ ان مظلوموں کو 2 جنوری کو بولان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں نے ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اس بستی میں جہاں انصاف ایک جنس نایاب ہے، ان مظلوموں کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت تک دریدہ بدن، لاشوں کو نہیں دفنائیں گے جب تک وزیراعظم عمران خان ان کے پاس مذاکرات کے لیے نہ آئیں۔ مگر عمران خان اس وقت وزیراعظم ہیں۔ مستند اقتدار پر بیٹھے ہوئے شخص میں انسانی ہمدردی کے جذبات کم ہوتے ہیں۔ اقتدار نے بے حسی اور لاتعلقی کا لبادہ پہنا ہوتا ہے۔
ورنہ یہی عمران خان تھے، اور 2013ء جنوری کے ایسے ہی یخ بستہ شب و روز تھے، پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ ظلم گزیدہ ہزارہ برادری ایسے ہی اپنے پیاروں کی دریدہ بدن، بے شناخت لاشیں لے کر کوئٹہ کی خون منجمند کردینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھی دلخراش ظلم پر سراپا احتجاج، اس وقت کے اصل حکمران آصف علی زرداری کی منتظر تھی کہ وہ آئیں، ان سے مذاکرات کریں۔ قاتلوں کو گرفتار کرنے کی یقین دہانی کروائیں تو وہ دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے ہزارہ برادری کے سو سے زائد مظلوموں کی لاشیں دفنائیں گے۔
اس وقت عمران خان چونکہ وزیراعظم نہیں تھے اس لیے ان کے دل میں انسانی ہمدردی سے معمور دل کھڑکتا تھا او رپھر سیاست کا تقاضا بھی یہی تھا کہ حکومت وقت کی بے حسی اور ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت پر احتجاج کریں اور ہزارہ برادری کے عزاداروں کے پاس جا کر اظہار یکجہتی کریں۔ سو تحریک انصاف کے چیئرمین عران خان کوئٹہ پہنچے اور قطار در قطار رکھی ہوئی لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہزارہ برادری کے احتجاجی عزاداروں کے ساتھ زمین پر بیٹھے اور حکومت وقت کو کوسنے اور برا بھلا کہنے کے تمام روایتی جملے ادا کئے۔
2013ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ اصل حکمران تو صدر مملکت آصف علی زرداری ہی تھے۔ انہوں نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو کوئٹہ بھیجا مگر عزاداروں کا مطالبہ یہی تھا کہ آصف علی زرداری جب تک نہیں آئیں گے وہ منجمند کردینے والی سردی میں لاشوں کے ساتھ احتجاج جاری رکھیں گے۔ بالآخر تیسرے دن آصف علی زرداری کو جانا پڑا۔ اس دن احتجاجی دھرنا ختم ہوا اور مرنے والوں کو سپرد خاک کیا گیا۔
ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والا ظلم اور بربریت کا یہسانحہ ایک پراسرار انداز میں دہرا گیا ہے۔ وہی یخ بستہ جنوری ہے۔ ظالموں نے 11 قیمتی جانوں کو بے دردی سے شناخت کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہزاروں برادری لاشیں رکھے کھلے آسمان سراپا احتجاج، ایک بار پھر حکمران وقت کی منتظر ہے اور اس بار حکمران وقت خود عمران خان ہیں۔ وہی عمران خان جو جنوری 2013ء میں ان مظلوموں کو پرسا دینے اور اظہار یکجہتی کے لیے فوراً ان کے پاس پہنچے تھے۔ آج حکمران ہیں تو ان کا وہی وتیرہ ہے جو کل آصف علی زرداری کا تھا اور جیسے انہوں نے اپنے تندوتیز انداز میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ نہ جانے اس خطے کے سیاستدان حکمران بنتے ہیں احساس اور ہمدردی سے عاری کیوں ہو جاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ کوئٹہ پہنچتے اور دہشت گردی سے نڈھال، ہزارہ برادری کے دکھی لوگوں کو گلے سے لگاتے، ان کے آنسو پونچھتے۔ لیکن وہ بھی ایک روایتی سیاستدان ہی نکلے۔ اپنی جگہ شیخ رشید کو بھیج دیا۔ مذاکرات ان کے ساتھ تو ناکام ہو چکے ہیں۔
ہمارے سامنے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی مثال موجود ہے۔ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کے لواحقین کو کیسے انہوں نے گلے سے لگایا۔ ان کے آنسو پونچھے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ریاست میں کوئی قانون، ضابطہ اور اصول ہو تو ریاست اپنے شہریوں کے لیے ایک ماں کی طرح مہربان ہوتی ہے۔ جیسنڈا آرڈرن کے الفاظ میں ایک لیڈر کو حساس اور ہمدردی سے بھرا ہوا ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے جرأت اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ہمدردی اور مہربانی کرنے کے سبق پڑھاتے ہیں لیکن جب بات سیاست اور سیاستدانوں کی حکمرانوں کی آتی ہے تو یہ خصوصیات ہمیں ناپید دکھائی دیتی ہیں۔ یہ میرا طرز حکمرانی ہے کہ ایک حکمران کو ہمدرد اور عوام کے احساسات کو سمجھنے والا ہونا چاہیے۔
اس آئینے میں دیکھیں تو ہمیں ہمارے حکمران بے حس اور بزدل دکھائی دیں گے۔ کالم اختتام ہونے کو ہے۔ اگلے کالم میں پھر اس پر بات ہی ہوگی کہ سانحے خود کو پراسرار انداز میں دہرا رہے ہیں۔ ہم بہتری کی طرف کیوں نہیں جا رہے۔ ہمارا دھڑا ہوا بے حس نظام کون رفو کرے گا۔ ساحر لدھیانوی کہہ گئے
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی