روحانی خلاء کو بھرنے کی ضرورت ہے
گزشتہ کالم میں نے ایک سوال پر چھوڑا تھا کہ بظاہر دنیاوی آسائشوں سے آراستہ زندگی گزارتے ہوئے، کیوں کسی کو اپنی زندگی اتنی بے مقصد اور بے معنی محسوس ہونے لگتی ہے کہ وہ اس کا بوجھ اتار کر موت کے پار اتر جاتا ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والا مذہب سے دور ایک کمزور ایمان رکھنے والا شخص ہوتا ہے کیونکہ اسلام میں خود کشی ایک سنگین گناہ ہے۔ زندگی ایک عظیم نعمت ہے جو ہمیں خالق کائنات کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے۔ ایمان کی مضبوطی یہی ہے کہ ایک شخص اس پر کامل یقین رکھے کہ زندگی میں ملنے والی کامیابیاں، نعمتیں، خوشیاں سب خالق کائنات کی طرف سے ہیں اور زندگی میں آنے والے دکھ مسائل اور تمام تر آزمائشیں بھی اسی رب کی طرف سے ہیں جو ستر مائوں سے زیادہ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ زندگی آزمائش کی کسی بھی کٹھن راہ سے گزر رہی ہو، اسلام میں مایوسی کو کفر قرار دے کر انسانوں کو امید کا واضح پیغام دیا ہے کہ ہر حال میں پر امید رہیں اور پر امید رہنے والا شخص خودکشی تو کیا ڈیپریشن سے بھی بچا رہتا ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان یہ میرا ایمان ہے، لیکن جب میں نے اس سوال کے جواب کو غیر مسلم معاشروں کے تناظر میں ڈھونڈنا شروع کیا تو اس پر ہونے والی ریسرچ پڑھ کر حیران رہ گئی۔ امریکہ میں سنٹرفارڈیزیز اینڈ پری ونیشن ایک ادارہ ہے جس نے اپنے ایک ہیلتھ جرنل میں ڈاکٹر ایبن الیگزینڈر کا ایک ریسرچ آرٹیکل شائع کیا جس نے خودکشی کی وجوہات پر تحقیق کرنے والوں کی سوچ کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ اس میں ڈاکٹر الیگزینڈر نے لکھا کہ
''Suiscide deaths are result of spirtual vaccum in our secular culture''
اس میں spirtual vaccum اور سیکولر کلچر کی اصطلاحیں بہت معنی خیز ہیں۔ ان کو استعمال کرنے والا کوئی مسلم عالم دین نہیں بلکہ ایک غیر مسلم امریکی ڈاکٹر ہے۔ جو اپنی برس ہا برس کی تحقیق اور سینکڑوں مریضوں کی کیس ہسٹری کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جب انسان کے اندر روحانی سطح پر خالی پن پیدا ہوتا ہے تو تمام مادی آسائشوں کے باوجود زندگی بے مقصد اور بے معنی لگنے لگتی ہے اور اس روحانی خلا کے ساتھ جب انسان زندگی سے جڑے دکھوں، مسائل، ناکامیوں سے گزرتا ہے تو پھر مایوسی کے اندھیرے اسے ایک دلدل کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ جس سے چھٹکارا پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جائے۔
اور بات صرف خودکشی کی نہیں یہ تو ایک انتہائی قدم ہے۔ ڈیپریشن انزائٹی اور مسلسل ذہنی دبائو اس روحانی خلا میں جنم لیتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر دوسرا شخص انزائٹی کا مریض ہے یہاں تک کہ نری مادیت پرستی کے اس دور میں اب بچوں میں ڈیپریشن اور ذہنی دبائو بڑھنے لگا ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ڈاکٹر ایبن الیگزینڈر اپنے اس آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ انسانی صحت کی بہتری کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
1- physical well being
2- mental well being
3- spirtual well being
آج کے مادی دور میں انسان اپنی جسمانی اور ذہنی بہتری کے لئے تو ضرور کوشش کرتا ہے۔ لیکن اپنی روحانی صحت سے مکمل طور پر غافل ہے۔ ڈاکٹر الیگزینڈر لکھتے ہیں کہ مادیت پرستی نے آج کے انسان کو جس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے وہاں ایک طرف isolation کا عذاب ہے تو دوسری طرف meaning lessness یعنی بے مقصدیت کی اذیت ہے۔ یہ خیالات ایک غیر مسلم مغربی معاشرے سے تعلق رکھنے والے فلسفی کے ہیں۔ اب ایک واقعے سے اسی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اداکارہ نور بخاری پاکستان کی مشہور فلمسٹار تھیں۔ فلم، ماڈلنگ، ٹی وی، مارننگ شوز۔ ہر جگہ کامیابی اور شہرت نے نور بخاری کو خوش آمدید کہا۔ مداحین اور عاشقوں کا ایک ہجوم لیکن ذاتی زندگی میں اداکارہ کو چار ناکام شادیوں کا دکھ سہنا پڑا۔ پہلی، دوسری، تیسری اور پھر چوتھی شادی بھی ناکام ہوئی تو اس نے خود کو مایوسی کے ایک گہرے پاتال میں پایا۔ انزائٹی اور ڈیپریشن کے آکٹوپس نے اس کو ایسے جکڑ لیا کہ امید کے تمام چراغ بجھ گئے۔ اب خودکشی ہی واحد راستہ تھی۔ جو اسے زندگی کے اس بوجھ سے نجات دے سکتی۔
اللہ نے اس کے دل کو بدلنا تھا تو اس تاریکی میں اسے کوئی ایک روحانی شخصیت کے پاس لے گیا جس کے سامنے اس نے اپنے تمام دکھوں اور وحشتوں کو بیان کیا۔ اس اللہ والی شخصیت نے اداکارہ کے روحانی بنجر پن کی تشخیص کر لی اور اسے دین سے جڑی ہوئی زندگی کی طرف راغب کیا۔ توبہ کی طرف مائل کیا اور اللہ کے نام کی تسبیحات پڑھنے کو دیں۔ اداکارہ نے مرشد کی بات پر عمل کیا۔ پیاس بجھنے لگی۔ روحانی خلاء کسی روشنی سے بھرنے لگا۔ خودکشی کا ارادہ ترک کیا اور زندگی کو ایک عظیم مقصد سے جوڑ دیا۔ زندگی کے مقصد کو اپنی ذات کی تنہائی اور مادی ضرورتوں سے نکال کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ذات سے جوڑ دیا۔ فلم، ماڈلنگ اداکاری سب ماضی کا قصہ ہے۔ نور بخاری کا دل بدلا تو زندگی کا راستہ بھی بدل گیا۔ ان تمام خیالات کا اظہار نور بخاری نے شوبز چھوڑنے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ اور یہ بات شاید بہت سوں کے لئے حیرانی اور دلچسپی کا باعث ہو کہ نور بخاری کے روحانی خلا کو تشخیص کرنے والی اور اسے خودکشی جیسے سنگین گناہ سے بچانے والی روحانی شخصیت ہمارے وزیر اعظم کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی ہے۔ یاد رکھیں اگر زندگی کے سارے مقاصد آپ کی اپنی ذات کی خوشی سے جڑے ہوں گے تو آپ کامیابی، اور دنیاوی ترقی کی بلندیوں پر پہنچ کر ایسے یہ روحانی خلا سے دوچار ہو جائیں گی جس میں زندگی بے معنی اور بے مقصد محسوس ہوتی ہے۔ استاد اپنے طلب علموں کو اور والدین اپنے بچوں کو زندگی کے عظیم تر مقاصد سے جوڑیں۔ محض سی ایس ایس کرنا، ڈاکٹر بن جانا، انجینئر بننا، فلاں تعلیمی ادارے کا ٹیگ اپنے نام کے ساتھ لگا لینا۔ کینیڈا، امریکہ میں سیٹل ہونا اگر یہی زندگی کا مقصد ہے تو اسے پھر سے سوچنے اور ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔
خود کو اپنے بچوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جوڑیں۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا سکھائیں۔ تاکہ جسمانی اور ذہنی بہتری کے ساتھ ان کے اندر کے روحانی خلاء بھی بھر سکیں۔ !