کیا انہیں موت کا الہام ہو گیا تھا
یہ کالم میں 24 جنوری 2020ء کو لکھ رہی ہوں، پورے دس برس بیت گئے دو ہزار دس کے 24جنوری کو، جب ارشاد احمد حقانی اس فانی دنیا سے اگلے جہانوں کو رخصت ہوئے۔ مجھے آج بھی یہ بات حیران کر دیتی ہے کہ آخر ان کو اپنی موت کا الہام کیسے ہو گیا تھا اور چار چھ مہینے پہلے سے انہوں نے باقاعدہ اپنی رخصتی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ حالانکہ وہ بستر سے لگے ہوئے ایسے بیمار نہ تھے۔ صحت کے اتنے ہی مسائل ان کو بھی تھے جو اسی سال کے کسی بھی بزرگ کو عمومی طور پر ہو سکتے ہیں۔ وہ دفتر بھی بھی باقاعدگی سے آتے تھے ہاں حرف تمنا جو ان کا مقبول کالم تھا اس میں بعض اوقات تازہ ابتدائیے کے ساتھ پرانے کالم دھرا دیتے تھے۔ ان کے نئے کالموں میں گزشتہ چھپے ہوئے حرف تمنا کے حوالے بڑھنے لگے تھے۔ گفتگو میں لہجہ وہی دبنگ اور آہنگ بلند تھا۔
24 جنوری کو جب ان کی وفات کی خبر ملی تو غالباً اتوار کا روز تھا۔ گلبرگ میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچی تو لاہور میں ان کی نماز جنازہ ہو چکی تھی۔ جسد خاکی ایمبولینس میں تھا اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں آبائی شہر قصور کی مٹی کا پیرھن اوڑھنا تھا۔ میں نے سفید کفن میں گلاب کے سرخ پھولوں کے فریم میں ان کا زندگی سے عاری چہرہ دیکھا۔ ان کے چہرے پر ایسا سکون اور اطمینان تھا کہ مجھے سورہ فجر کی آیت نمبر 23 اور 28 یاد آ گئی۔ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ جا۔
اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ان کی وہ تمام باتیں اور واقعات فلم کے فلیش بیک کی طرح چلنے لگے جس میں اکثر و بیشتر وہ دنیا سے جانے کے حوالے ایک مخصوص ٹائم فریم کا ذکر بالکل نارمل انداز میں کر دیا کرتے لیکن مخاطب جس کو سن کر چونک سا جاتا۔ اس بات کی گواہی ان کے پی اے شفقت حسین دے سکتے ہیں اور واصف ناگی جو میر خلیل الرحمن سوسائٹی کے چیئرمین تھے اور حقانی صاحب اس کے سرپرست اعلیٰ تھے۔
کچھ واقعات مجھے یادآتے ہیں جن کی کڑیاں آپس میں ملائیں تو آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ کیا ان کو اپنی موت کے ٹائم فریم کا علم ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری چند مہینوں میں اپنے معاملات کو باقاعدہ وائنڈ اپ کرنا شروع کر دیا تھا:
یہ جنگ اخبار کے دفتر کا ایک منظر ہے۔ حقانی صاحب کے ہاتھ میں مہمانوں کی ایک فہرست ہے اور وہ مجھے بتا رہے ہیں کہ میر خلیل الرحمن سوسائٹی اور پنجاب حکومت کے تعاون سے ان کی صحافتی خدمات کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی جا رہی ہے۔ مہمانوں کی فہرست میں بڑے بڑے مشاہیر کے نام موجود ہیں۔ تقریب کی نظامت میں میرا نام بھی لکھوا دیا تھا۔ وہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے اس تقریب کی نظامت کرنی ہے۔ میں اس کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں، میں نے کہا۔ کچھ روز کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تقریب بوجوہ مارچ 2010ء میں رکھی جا رہی ہے۔ حقانی صاحب ایک دن باتوں میں کہنے لگے کہ میں نے واصف ناگی صاحب کو منع کر دیا ہے کہ تقریب کے انتظامات نہ کریں کیونکہ مارچ 2010ء میں دنیا میں نہیں ہوں گا۔ یہ الفاظ سن کرمیری جگہ کوئی بھی ہوتا تو چونک جاتا۔ میرا بھی یہی تاثر تھا۔ میں نے جواباً کہا کہ اللہ آپ کو صحت اور سلامتی عطا کرے اور آپ بہت جئیں۔ حقانی صاحب اس دعا کے جواب میں صرف مسکرا دیے۔ پھر وہ واقعی 2010ء کا مارچ آنے سے پہلے ہی 24جنوری کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اپنی موت سے چند ماہ پہلے انہوں نے اپنی ملکیت میں موجود تمام چیزوں کو بانٹنا اور دوسروں کو دینا شروع کر دیا تھا۔ اپنے گھر اور دفتر کی لائبریری کی کتابیں بھی دینا شروع کر دیں تھیں۔ زیادہ کتابیں راولپنڈی کے ایک کالج کی لائبریری کو گئیں جن کے پرنسپل پروفیسر نعیم قاسم حقانی صاحب کے بڑے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔ دفتر میں حقانی صاحب کا کمرہ میرے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ دوسرے فلور پر بالکل سامنے لکڑی کا ایک دروازہ ان کے دفتر کے اندر کھلتا اور اسی کے سامنے ایک راہداری شروع ہوتی جس کے ساتھ بائیں طرف پہلا کمرہ میگزین کے لوگوں کا تھا۔ فاخرہ تحریم، اعجاز بٹ، وکیل انجم بھی یہیں بیٹھا کرتے تھے۔ حقانی صاحب ہم جیسوں کے تو رول ماڈل تھے مگر انہوں نے میرے کام کو اس وقت نوٹس کرنا شروع کیا جب 2007ء میں میرا کالم چھپنے لگا۔ میرا اعزاز ہے کہ میرا پہلا کالم حقانی صاحب کے کالم کے عین نیچے شائع ہوا۔ اس روز کیسی خوشی تھی بیان کرنا مشکل ہے۔ پہلے ان سے فلور پر اکثر صرف سلام دعا ہوتی تھی۔ مگر جب میرے کالم چھپنا شروع ہوئے تو وہ ازراہ حوصلہ افزائی ان کی بہت تعریف کیا کرتے اور جس روز حقانی صاحب میرے کالم کی تعریف کر دیتے مجھے لگتا کہ آج کوئی ایوارڈ مل گیا ہے مجھے۔ ان کے حوالے سے اتنی یادیں ہیں کہ ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ میں پھر اسی موضوع پر آئوں گی کہ میں نے ان کی زندگی کے آخری مہینوں میں انہیں جیسا دیکھا وہ آج بھی حیران کن ہے۔ ایک روز مجھے بھی انہوں نے کہا کہ آپ کو جو کتابیں پسند ہیں وہ آپ لے سکتی ہیں۔ کیونکہ اب اپنی تمام چیزوں کو دوسرے کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔ ان کی دی ہوئی چند کتابیں آج بھی میری لائبریری میں موجود ہیں۔ صرف کتابیں ہی نہیں۔ انہوں نے اپنی ملکیت میں موجود ہر شے کو تقسیم کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ان سلے تھری پیس سوٹوں کے کپڑے بھی سب کو بانٹ دیے۔ ایک روز انہوں نے بتایا کہ یہ تحائف کی صورت میں ملے ہوئے کپڑے تھے جو ان کی مرحومہ اہلیہ نے صندوق میں سنبھالے ہوئے تھے اب میں جانے سے پہلے یہ سب بانٹ رہا ہوں۔
انہیں اپنی موت کے ٹائم فریم کا اس قدر اندازہ تھا کہ اپنی وفات سے پہلے ہی انہوں نے اپنے خصوصی معاون شفقت حسین کی ایک معاصر اخبار میں نوکری کا بندوبست کر دیا تھا۔ شفقت حسین حقانی صاحب کے دست راست تھے۔ آج کل وہ ایک معاصر اخبار میں اپنے شعبہ کے انچارج کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی ہاتھ کی لکھی ایک تحریر آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو انہوں نے میرے کالموں کے حوالے سے لکھی۔ مجھے وہ تحریر دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے اپنے کالموں کی کتاب میں شامل کرنی ہے۔ یہ میرے لئے ان کی ایک دعا تھی۔ وہ میرے لئے ایک باپ کی سی شفقت رکھتے تھے اور کئی حوالوں سے میرے لئے پریشان رہا کرتے۔ مجھے اپنی بیٹی اسماء کے گھر مدعوکیا تو اسماء باجی کہنے لگیں کہ ابیّ آپ کا ایسا تذکرہ کرتے ہیں جیسے آپ ان کی تیسری بیٹی ہیں۔ اپنی خود نوشت وہ تحریر کر چکے تھے۔ اس کا کام آخری مرحلے میں تھا۔ میرا ایک مضمون بھی اس میں شامل تھا۔ افسوس کہ ان کی وفات کے بعد پبلشر نے کتاب شائع نہیں کی۔ حالانکہ اس میں ایک عہد کی سیاسی اور صحافتی تاریخ قاری کو پڑھنے کو ملتی۔
موت کی آہٹ کی چاپ حقانی صاحب نے سن لی تھی۔ ان کی اپنی دلچسپی اس میں کم ہو چکی تھی۔ صرف اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ دفتر نہیں آئے ورنہ وہ باقاعدگی سے دفتر آتے۔ ان کی بیٹی اسماء نے ان کی خصوصی تیمار داری کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ جس صبح وہ دنیا سے رخصت ہوئے تمام رات وہ بلند آواز میں آیت کریمہ پڑھتے رہے اور صبح ہی آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔