Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Phupho Aur Khala

Phupho Aur Khala

پھوپھو اور خالہ

وہ عورت جو ایک ہی دن میں دو گھروں کے صحن کا حصہ ہوتی ہے، ایک دروازے پر داخل ہو تو "خالہ جان" کہلا کر بچوں کے گلے لگتی ہے اور دوسرے دروازے پر قدم رکھے تو "پھوپھو" بن کر نگاہوں میں ایک انجانا سا کھٹک چھوڑ جاتی ہے۔ وہی چہرہ، وہی لہجہ، وہی ہاتھ۔۔ مگر رشتے کا نام بدلتے ہی جذبات کی لغت بھی بدل جاتی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جو رشتوں کو کردار نہیں، کرداروں کو رشتوں کے نام سے تولتا ہے؟

یہ سوال مجھے پہلی بار تب چونکا گیا جب میں نے ایک ہی عورت کو دو گھروں میں دو مختلف روپوں میں جیتے دیکھا۔ ایک گھر میں وہ بچوں کے بال سنوارتی، جیب خرچ دیتی اور بچوں کے لیے "ماں جیسی خالہ" کہلاتی تھی۔ دوسرے گھر میں وہی عورت ذرا اونچی آواز میں بول دیتی تو "پھوپھو کی مداخلت" قرار پاتی۔ وہاں اس کی خاموشی بھی شکایت تھی اور بولنا بھی الزام۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ مسئلہ عورت کا نہیں، ذہنوں میں پلنے والی کہانیوں کا ہے۔

ہمارے معاشرے میں "خالہ" کو ماں کے نرم عکس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ماں کا دکھ، ماں کی کمی، ماں کی محبت۔۔ یہ سب خالہ کے دامن میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس "پھوپھو" کو طاقت، اختیار اور سوال کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ شاید اس لیے کہ پھوپھو باپ کے خاندان کی نمائندہ ہوتی ہے اور باپ کا خاندان ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں اکثر طاقت کے توازن، وراثت، جائیداد اور فیصلوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جہاں طاقت ہو، وہاں خوف بھی جنم لیتا ہے اور خوف، طنز میں بدل جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بچے خود یہ فرق ایجاد نہیں کرتے۔ یہ بیج بڑے بو دیتے ہیں۔ ماں انجانے میں کہہ دیتی ہے، "پھوپھو کو مت بتانا"، باپ ہنستے ہوئے کہہ دیتا ہے، "پھوپھو آ گئی ہے، اب پوچھ گچھ ہوگی" اور یوں بچے کے لاشعور میں ایک تصویر بن جاتی ہے۔ خالہ محفوظ پناہ گاہ ہے، پھوپھو خطرے کی گھنٹی۔ وقت کے ساتھ یہ تاثر پختہ ہو جاتا ہے اور ایک عورت اپنے ہی وجود کے دو حصوں کے بیچ تقسیم ہو جاتی ہے۔

میں نے بارہا اس کا اردگرد بغور مشاہدہ کیا ہے۔ ایک حقیقت سے قریب کردار "زینب" کو دیکھا ہے۔ زینب اپنی بہن کے گھر جائے تو بچوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر کہانیاں سناتی ہے، کوئی اسے روکتا نہیں۔ وہی زینب جب بھائی کے گھر جاتی ہے تو اس کی ہر بات کو ناپا جاتا ہے: "زیادہ نہ بولے، کہیں غلط نہ سمجھ لی جائے"۔ زینب نے ایک دن آہستہ سے کہا تھا، "میں تو وہی ہوں، صرف رشتہ بدل جاتا ہے، الزام بدل جاتا ہے"۔ اس ایک جملے میں ہمارے پورے خاندانی نظام کی کہانی سمٹی ہوئی تھی۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم رشتوں کو انسانوں سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ ہم نے "پھوپھو" کے کردار پر صدیوں کے قصے، لطیفے اور شکایات چپکا دی ہیں۔۔ کبھی جائیداد کی دشمن، کبھی گھر توڑنے والی، کبھی سازشی۔ جبکہ "خالہ" کو بےضرر، بےلوث اور صرف محبت بانٹنے والی بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رشتہ نہیں، انسان رویہ بناتا ہے۔ ایک خالہ بھی ظالم ہو سکتی ہے اور ایک پھوپھو بھی ماں سے بڑھ کر مہربان۔

ایک جگہ پڑھا تھا کہ "مسئلہ رشتوں میں نہیں، نیتوں میں ہوتا ہے"۔ شاید ہم نے نیتوں کی ذمہ داری رشتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیا ہے۔ آسان ہے کہنا کہ "پھوپھو ایسی ہی ہوتی ہیں"، مشکل یہ ماننا کہ ہم نے خود اس عورت کو کبھی غیرجانبدار موقع ہی نہیں دیا کہ وہ بس ایک انسان بن کر جی سکے۔

تحریر کا حاصل یہی ہے کہ جب تک ہم بچوں کے ذہنوں میں رشتوں کے نام پر تعصب بھرتے رہیں گے، تب تک وہ عورت جو بیک وقت خالہ بھی ہے اور پھوپھو بھی، کہیں پوری نہیں ہو پائے گی۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں کو یہ سکھائیں کہ محبت رشتے کے نام سے نہیں، رویے سے پہچانی جاتی ہے اور طنز بھی سیکھا یا سکھایا ہوا عمل ہے، فطرت نہیں۔

Check Also

Kamyabi Ke 2 Formulae

By Javed Chaudhry