Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Khalid Mahmood Faisal
  3. Shopping Ka Branded Culture

Shopping Ka Branded Culture

شاپنگ کا برینڈیڈ کلچر

دنیا کے مشکل ترین کاموں میں خواتین کو شاپنگ کروانا بھی ہے، اک زمانہ تھا جب سربراہ بازار جاتا تو گھر کے سارے افراد حتیٰ کہ خواتین کے ملبوسات لے آتا، مردوں اور عورتوں کے لئے ایک ایک تھان خرید کیا جاتا، سب ہنسی خوشی قبول کرتے، کپڑوں کے رنگ ہی سے خاندان کی پہچان ہوتی۔ اُس دور میں عید، شادی، سالگرہ کے الگ الگ کپڑے نہیں بنائے جاتے اُن پر تبصرہ ہوتا تھانہ ہی کوئی ناک منہ چڑھاتا۔

اب ہم بری طرح برینڈیڈ کلچر کا حصہ بن چکے ہیں، اس میں آسانیاں بھی ہیں اور بڑی قباحتیں بھی۔ ، پہلے دور میں رنگ، ڈیزائن کاانتخاب دوکان دار کی صوابدید پر ہوتا۔ کچھ معاونت سڑک کنارے لگے اشتہارات بھی کرتے تھے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تو سماج کی "فیبرکس" ہی بدل کر رکھ دی، اب کلر، ڈیزائین، برینڈ نام آنا فاناً اینڈرئڈ موبائل سے دنیا بھر میں پہنچ جاتا ہے، سیل کہاں ہے کب تک رہے گی، یہ معلومات گھر بیٹھے آپ کو پہنچائی جاتی ہیں، اس سے گھر کا ہر فربالخصوص خواتین ہمیشہ آگاہ رہتی ہیں، خریداری کی فیوض برکات سے والدین کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش بچے کرتے ہیں کہ "سیل"سے شاپنگ کرنا "کار ثواب" ہے۔

جس طرح نت نئے برینڈ مارکیٹ میں وارد ہو رہے اس سے لگتا یوں ہے، ضروریات زندگی کی ہر شہ کو اس کا مزہ چکھناپڑے گا، اس کلچر نے اگرچہ مقابلہ کی فضااورچوائس بھی بڑھا دی ہے مگر خواتین کے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں، اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے انھیں شاپنگ مال میں در در کی خاک چھاننا پڑتی ہے، مثلاََ اگر انھوں نے جوتا پہلے خرید کر لیا تو اب اس رنگ سے کپڑوں کا انتخاب فرض عین سمجھا جاتا ہے، ہروکان کی یاترہ مقدرمیں لکھی جاتی ہے۔

اگر کلر مل جائے تو یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ سوٹ ٹوپیس ملاہے، نئی پریشانی اب کھڑی ہوتی ہے کہ اس رنگ کاد وپٹہ کیسے ملے گا، اسکی تلاش میں نکلتے ہیں تو ایک اور دریا کا سامنا کے مصداق آتے ہیں، دوپٹہ کی چوائس ھل من مزید کی کیفیت پیدا کرتی ہے، یہ شفون ہو، کرنکل، جار جٹ، یا کرش کا ہو یا سادہ اس پریشانی میں پہلے دوپٹہ پھر کلر میچنگ درد سر بن جاتی ہے، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہربرینڈیڈ کمپنی صنف نازک کو ہر حال میں اذیت سے دو چاررکھنا چاہتی ہے، ورنہ اسلامی سماج میں خواتین کے لئے دوپٹہ کے بغیر سوٹ بنانا ہی خلاف عقل ہے۔

شاپنگ کے دوران مگر کچھ پریشانیاں از خود پیچھا کرتی ہیں مثلاً سنگل پیس شرٹ اگر کسی خاتون کو پسند آگئی، اس کا چھوڑنا ایسا ہی ہو جیسے بھوک میں کھانا، دیوانہ وار انہیں نکلنا پڑتا ہے کہ پاجامہ بھی اسی رنگ کا مل جائے، تھوڑی سی ریاضت کے بعد رب کریم یہ مہربانی کر بھی دے تو اب تیسرے پیس کے طور پر دوپٹہ کا رنگ ملانا"مقصدحیات" بن جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے تھری پیس سوٹ اچھا مل جائے تو جوتے کی کلر میچنگ واجب ہو جاتی ہے، اس مرحلہ کے بعد خواتین کو نئے امتحان سے واسطہ پڑتا ہے کہ کونسی لیس لگائی جائے، اس میں بھی بڑی چوائس موجود ہے، باریک، چمکیلی یا سادہ ہو، رنگ کیسا ہو، سائزبڑا یا چھوٹا، رنگ شوخ یا ہلکا ہو۔

اس میدان تو اب بزرگ خواتین بھی کود پڑی ہیں، ان کے سوٹ بھی گوٹہ کناری کے بغیر تیار نہیں ہوتے، یہ بیچاری دو راہے پر کھڑی نظر آتی ہیں کہ فیشن بھی ہو مگر زمانے کی نظروں سے بچ بھی نکلیں۔

جوتے، کپڑے کے بعد لیس کی کلر میچنگ کے بعد بھی خواتین کی مشقت میں کمی نہیں آتی، اس کے بعد دوپٹہ کو پیکو کروانے کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے، عید کے تہوار پر چوڑیوں کے انتخاب کی باری آتی ہے، کلر میچنگ کی کوفت یہاں بھی اُٹھانا ہوتی ہے۔

ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ مہنگائی کے معاملہ میں سرکار خواہ مخواہ بدنام ہے اصل شرارت تو ان برینڈ یڈ کمپنی کی ہے، جنہوں نے محض ایک لباس کے پہنوانے میں ہزاروں بکھیڑے پیدا کر رکھے ہیں، خواتین نے بھی ایسے شغل پال کر اپنی حیاتی آپ تنگ کر رکھی ہے، برینڈیڈ شاپنگ کا ایک فائدہ بہر حال یہ ہے کہ بارگینگ نہیں کرنا پڑتی، معقول قیمت میں اچھا لباس مل ہی جاتا ہے۔ اب تو یہ "سٹیٹس سمبل" بھی بن گیا ہے۔ برینڈیڈ شاپنگ کاسب سے زیادہ فائدہ دیار غیر میں بسنے والی دوشیزاؤں کو بھی ہے، جو ڈالر، ریال، پونڈ میں آن لائین خرید داری اس لئے نہیں کرتیں کرنسی کی ضرب دینے سے یہ مہنگی لگتی ہے، عزیزو اقرباء کی وساطت سے ارض وطن میں برینڈ کی سیل سے مستفید ہوتی ہیں اور اپنی کرنسی میں اشیاء خرید کر محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔

تاہم معاون خریدار کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو، تو براہ راست ملبوسات یا دیگرآرٹیکل دکھا کر بھی خرید داری کی جاسکتی ہے۔ صاحب ثروت خواتین آن لائین بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہیں، بعض اوقات اس انداز سے خریداری قابل بھروسہ نہیں ہوتی، آن لائین شاپنگ کا کلچر تو یہاں بھی آبادہے مگر بد اعتمادی کی فضا بھی موجود ہے، دکھائی اور بھیجی جانی والی چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ہر برینڈ پر یہ الزام تو دھر ا نہیں جاسکتا مگر چکھنے کو دیگ کا ایک دانہ ہی کافی ہے۔

مرد حضرات البتہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں، انھیں کلر میچنگ جیسے عذاب سے گزرنا نہیں پڑتا، اب تو مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے برانڈ لانچ کئے ہیں، قیمتی زار بند کی دھوم بھی سوشل میڈیا پر تھی، اس کے استعمال میں معاملہ ایسا ہے جیسے صرف بندے اور خدا کا ہو، حاسدین نے شر با قیمت کے حوالہ سے پرکی آڑائی، ان کا خیال ہے مولویوں کا برینڈیڈ مال سے کیا لینا دینا، ہم سمجھتے ہیں کہ خودداری، بہتر طرزندگی کے لئے ہر مولوی کو تجارت کرنی چاہئے۔

بازار میں خرید داری تک مرد کا وہ حشر ہوتا ہے کہ میدان حشر ہی یاد آجاتا ہے۔ دوران شاپنگ انکی حالت قابل رحم ہوتی ہے جنہیں بچوں کو اٹھانا بھی پڑتا ہے، ساری تحقیق اس پر ہے کہ کس طرح مرد ناکردہ گناہ سے نجات سے پا سکتا ہے، کیوں نا وہ کلچر آباد کیا جائے جس میں گھر کا بڑا سب کی پسندیدہ شاپنگ کر لائے، گلوبل ولیج کے اس عہد میں تو ہماری امید دم توڑتی نظر آتی ہے، کیونکہ برینڈیڈ کلچرنئی نسل کو منتقل کیا جارہا ہے۔ گمان ہے کہ روشن خیال خواتین اکثر عبائیہ پہننے اور پردہ کرنے کا تکلف اس لئے نہیں کرتیں کہیں کلر میچنگ پر کی گئی سرمایہ کاری ہی ضائع نہ ہو۔

مغربی خواتین نے اگرچہ اپنے لباس کے ساتھ کچھ اچھانہیں کیا مگر خودد کو کلر میچنگ کی فکر اور اس کمپلکس سے آزاد کرکے"کتاب کلچر" کو جنم دیا ہے، شرٹ، قمیض، پاجامہ، دوپٹہ، چوڑیاں، جھمکے، بُندے، لپ اسٹک، مہندی، کیچر، گھڑی، گجرے کے ساتھ کلر میچنگ دیکھ کر اقبال کے شعر کا مصرع یوں

یاد آتا ہے کہ وجود زن سے ہے کاروبار میں رنگ۔

جرمن چانسلر اینگلا مرکل کو کلر میچنگ کی نجانے کیوں نہ سوجھی ورنہ وہ تین دہائیوں تک ایک سوٹ میں ملبوس رہ کر اقتدارسے یوں نہ رخصت ہوتیں، انھوں لباس سے زیادہ اپنی سادگی اور پر اعتمادی کو اہمیت دے کر تاریخ رقم کی ہے، جس میں دیگر خواتین کے لئے اہم پیغام پو شیدہ ہے۔

Check Also

Mazori, Bojh Nahi, Qudrat Ka Shahkar Hai

By Imran Amin