Insani Sehat Ka Raz, Muhammad Ke Qadmon Mein (2)
انسانی صحت کا راز، محمد ﷺ کے قدموں میں (2)

یہ میرا دوسرا کالم ہے، یہ تسلسل ہے جس کا آغاز میں نے اپنے پہلے کالم سے کرچکا ہوں، جس میں سیرتِ نبوی ﷺ کے ھر ایک ایسے عمل پر روشنی ڈالی جائے گی جو آج جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں ایک مکمل طرزِ زندگی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جن پر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں مستقل عمل فرمایا، تو بسم اللہ کرتے ہیں۔
حضرت محمد ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں سو کر جسم کو آرام دیتے اور رات کے آخری حصے کو عبادت، قرآن کی تلاوت اور ذکرکے لیے مختص کرتے تھے۔ یہ عادت آپ ﷺ کو دن بھر متحرک، توانائی سے بھرپور اور متوازن زندگی گزارنے میں مدد دیتی تھی۔
دنیا بھر کے سائنسدان اور آج کی جدید تحقیق صحت، ذہنی سکون اور توانائی کے راز تلاش کر رہی ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ راز صدیوں پہلے حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں عملی طور پر موجود تھا۔
جدید نیورو سائنس کہتی ہے کہ رات 10 بجے سے صبح 4 بجے کے درمیان انسانی جسم "Self-Healing Mode" میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس دوران دماغ میں موجود Glymphatic System فعال ہو جاتا ہے، دماغ خود کو زہریلے پروٹینز سے صاف کرتا ہے۔ الزائمر اور یادداشت کی کمزوری پیدا کرنے والے مادے خارج ہوتے ہیں۔ سائنسدان حیران ہیں کہ اگر اس وقت نیند پوری نہ ہو تو دماغ کی صفائی ادھوری رہ جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جسے سیرت میں "سکونِ شب" کہا جا سکتا ہے۔
گروتھ ہارمون (Growth Hormone) اور کولسٹرول کا توازن برقرار رہتا ہے، جو عمر درازی اور توانائی کے لیے اہم ہیں۔ دماغ دن بھر کی معلومات کو ترتیب دیتا ہے، یادداشت بہتر ہوتی ہے اور ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیند کا باقاعدہ اور صحیح وقت جسم، میں دماغ اور روح تینوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
جدید سائنس یہ واضح کر چکی ہے کہ نیند اور جاگنے کے اوقات کا جسم پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وقت پر سونے سے دل کی بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
رات کو دیر تک جاگنے والے افراد میں ڈپریشن اور اضطراب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ باقاعدہ نیند میٹابولزم اور ہارمونل توازن برقرار رکھتی ہے، جس سے وزن کنٹرول میں رہتا ہے۔ جسمانی اور دماغی توانائی زیادہ رہتی ہے، جس سے کام کی کارکردگی اور توجہ میں بہتری آتی ہے۔
صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ یہ عادت روحانی اور اخلاقی ترقی میں بھی مددگار ہے۔ صبح کے وقت عبادت اور ذکر انسان کے دل و دماغ کو سکون اور توانائی فراہم کرتے ہیں۔ صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نظم و ضبط اور وقت کی پابندی، کامیاب اور بابرکت زندگی کے لیے لازمی ہیں۔
اگر ہم آج بھی رات کو تقریباً 10 بجے سوئیں اور صبح 4 بجے اٹھیں، تو نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوگی بلکہ ذہنی سکون اور روحانی ترقی بھی حاصل ہوگی۔ دن کی شروعات مثبت اور فعال رویے سے ہوگی، جس سے کام کی کارکردگی اور زندگی کی خوشی میں اضافہ ہوگا۔
میں نے یہاں پر اگر "قیلولہ" کا ذکر نہ کیا تو تحریر ادھوری رہ جائے گی۔ قیلولہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس سے مراد دن کے وسط میں، زوالِ آفتاب کے قریب یا اس کے بعد کی جانے والی مختصر نیند یا آرام کو قیلولہ کہتے ہیں۔ یہ تقریبآ 20 سے 25 منٹ ہوتا ہے۔ دوپہر کے وقت تھوڑا سا آرام کرنا یا سونا نبی کریم ﷺ کا معمول تھا، آپ ﷺ دوپہر کے وقت قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔
ایک اور روایت میں نبی ﷺ نے فرمایا: "قیلولہ کیا کرو، کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا"۔ (المعجم الاوسط للطبرانی)
جو چیز نبی ﷺ نے 1500سال پہلے سنت بنا دی اسی کو آج نیورو سائنس "Brain Reset Button" کہہ رہی ہے۔ نیورو سائنس کے مطابق مختصر قیلولہ دماغ کے Frontal Lobe کو ری اسٹارٹ کرتا ہے، یادداشت کو مضبوط بناتا ہے، Stress Hormone (Cortisol) کم کرتا ہے، بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے خطرات گھٹاتا ہے۔
یعنی قیلولہ دراصل دماغ کا قدرتی Reset Button ہے۔ قیلولہ کا درست وقت شریعت، سیرت اور جدید سائنس تینوں میں تقریباً ایک ہی بتایا گیا ہے۔ زوالِ آفتاب کے قریب یا اس کے فوراً بعد دوپہر 12: 00 سے 2: 00 بجے کے درمیان۔
شرعی و سیرت کی روشنی میں اور علما کے مطابق قیلولہ نمازِ ظہر سے پہلے یا بعد کیا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کے بہت سے ممالک میں مختصر نیند کے لیے مخصوص مقامات بنائے جا چکے ہیں، جیسے:
جاپان (Nap Pods)
جنوبی کوریا (Nap Cafés)
برطانیہ (Nap Stations + NHS)
امریکہ & کینیڈا (Office Nap Pods)
یورپ کے متعدد ممالک
دبئی میں Sleep Lounges
یہ سہولتیں خاص طور پر کارپوریٹ دفاتر، یونائیورسٹیز، اسپتالوں اور عوامی مقامات پر ملتی ہیں، تاکہ لوگ بیچ دن میں چند منٹ کی نیند سے توانائی دوبارہ حاصل کر سکیں۔
"تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑے معرکے وہی لوگ سر کرتے ہیں جو سنتوں کے پابند ہوتے ہیں۔ پاکستان کی مشھور دینی و سیاسی رہنما جن کا تعلق کراچی سے تھا جی ہاں، مولانا شاہ احمد نورانیؒ صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تحریکِ ختمِ نبوت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، عالمی سطح پر اسلام کی نمائندگی کی، وہ قیلولہ کے انتہائی پابند تھے۔ بیرونِ ملک مسلسل سفر، طویل اجتماعات اور دعوتی سرگرمیوں کے باوجود وہ اس سنتِ نبوی ﷺ کو کبھی ترک نہیں کرتے تھے۔ ان کے قریبی رفقا کے مطابق قیلولہ ان کے نزدیک محض آرام نہیں بلکہ روحانی و جسمانی توازن کی بنیاد تھا۔ "یہی وہ راز ہے جو آج کی جدید سائنس کو تجربہ گاہوں میں اور اہلِ دل کو سجدوں میں سمجھ آتا ہے: جو شخص سنت کو تھام لیتا ہے، اللہ اس کے اعصاب، اس کے فیصلوں اور اس کے کردار کو سنبھال لیتا ہے۔ شاید اسی لیے ایسے لوگ نہ تھکتے ہیں، نہ بکھرتے ہیں اور نہ ہی تاریخ کے صفحات سے مٹتے ہیں"۔
"آج کی سائنس اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ہر سنت انسانی صحت، ذہنی سکون اور متوازن زندگی کے لیے نفع بخش ہے۔ جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آنے والے جدید ادوار میں بھی سنتِ نبوی ﷺ کی قدر و قیمت کم نہیں بلکہ مزید بڑھتی چلی جائے گی"۔

