Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Idrees Abbasi
  4. Poonam, Sarhad Aur Aik Adhoora Safar

Poonam, Sarhad Aur Aik Adhoora Safar

پونم، سرحد اور ایک ادھورا سفر

یہ اسی کی دہائی کی شروعات تھی اور ضیاء الحق کا دور تھا۔ مسز کھنہ ہمیشہ شام چار بجے سودا سلف لینے آتی تھی۔ آج ان کے ہمراہ ان کی دو ہندو سہیلیاں بھی تھیں۔ تینوں محو گفتگو تھیں اور بار بار مدراس کا نام لے رہی تھیں۔ والد صاحب کیش کاؤنٹر پہ بیٹھے نہایت شوق سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ جب ایک سہیلی نے سرنگا پٹم کا نام لیا تو والد صاحب بول پڑے۔

کیا مدراس کا جارج ٹاؤن بازار اب بھی ہے یا ختم ہوگیا ہے؟

اسی طرح انھوں نے سرنگا پٹم بارے دو تین سوال پوچھ لئے۔

اب حیران ہونے کی باری ان خواتین کی تھی اور ادھر میں حیرت زدہ والد صاحب، مسز کھنہ اور دیگر دو خواتین کی جوش و خروش سے بھرپور گفتگو سن رہا تھا۔

قصہ یہ تھا والد صاحب تقسیم سے قبل تقریباً تین سال انڈیا کے ان دو شہروں میں مقیم رہے۔ تقسیم سے پہلے یہ عام بات تھی کہ روزگار کے سلسلے میں راولپنڈی، مری اور کشمیر سے لوگ دہلی، مدراس، کرناٹک، میسور اور سرنگا پٹم تک جاتے ہوتے تھے۔

مسز کھنہ انڈین ایمبیسی اسلام آباد کے ایک سینئر اہلکار کی اہلیہ تھی۔ اسلام آباد کے اس پاش سیکٹر ایف سکس ون کی کوٹھیوں میں مقیم انڈین ایمبیسی کا تقریباً تمام سٹاف ہماری دوکان سے ہی سودا سلف لیتا تھا۔ بلکہ ہر ٹرانسفر ہونے والی فیملی اگلی نو تعینات فیملی کو بھی جاتے جاتے ہماری دوکان کا تعارف کرا جاتی اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا۔

انڈین گاہکوں کی کثرت کی وجہ سے انٹیلیجنس اداروں کے اہلکار بھی گاہے بگاہے ہماری دوکان کا چکر لگاتے اور ان اہلکاروں کی غیر محسوس طریقے سے گفتگو بھی سننے کی کوشش کرتے۔ وہ مینوئل ٹیکنالوجی کا دور تھا، کوئی موبائل فون یا واٹس ایپ کی سہولت نہیں تھی۔ ان اہلکاروں میں آئی بی کے ایک چکوال کے انسپکٹر غلام رسول بھی تھے جو لمبا کوٹ پہن کے مونگ پھلی چگتے رہتے اور ان کا تکیہ کلام ہوتا تھا۔

"راجہ جی کیہہ نویں تازی اے"۔

کافی دیر گپیں ہانکنے کے بعد وہ اپنی بھاری بھرکم بغیر کالی نمبر پلیٹ والی سرکاری موٹر سائیکل پہ بیٹھ کے روانہ ہو جاتے اور شام کو دو صفحات کا روزنامچہ درج کرکے کاروائی ڈال دیتے۔

والد صاحب کے انڈیا میں قیام بارے انکشاف کے بعد کھنہ فیملی کا عقیدت و احترام ان کے لئے بہت بڑھ گیا۔ مسٹر اینڈ مسز کھنہ کے ساتھ اکثر والد صاحب تقسیم سے پہلے والے ہندوستان بارے باتیں کرتے۔ مسز کھنہ نے تاہم والد صاحب کو بتایا کہ اب ہم مستقلاً دلی شفٹ ہو گئے ہیں۔ انھوں نے والد صاحب کو اپنا دلی کا ایڈریس بھی دیا کہ اگر کبھی آنا ہوا تو ہمارے ہاں ضرور آئیے گا۔

سولہ سال کی عمر میں تلاش روزگار کے سلسلے میں ٹرین میں سفر کرکے والد صاحب اٹاری سے ہوتے ہوئے امرتسر اور دلی پہنچے اور وہاں سے جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان کے علاقے کرناٹک، میسور اور پھر سرنگا پٹم جاپہنچے۔ اس وقت وہ وہاں اجنبی تھے اور کچھ عزیز وہاں کینٹینوں کا کاروبار کرتے تھے جن کے ساتھ انھوں نے کام کرنا تھا۔ سرنگا پٹم وہی علاقہ تھا جسے ٹیپو سلطان نے محفوظ جان کے وہاں ریاست میسور کا دارالحکومت بنایا تھا اور بلآخر انگریزوں سے جنگ میں شہید ہو کے آج اس کا مرقد وہیں پہ ہے۔

مسٹر اور مسز کھنہ کی ایک ہی اولاد تھی، ان کی نٹ کھٹ سی روشن آنکھوں والی بیٹی پونم جو اچھلتی کودتی دوکان پہ آتی اور چاکلیٹس اور چیونگمز شوق سے لیتی۔ پونم اگرچہ آٹھویں کلاس کی طالبہ تھی لیکن ہندوستان بارے اکثر چھوٹے چھوٹے سوالات کے جوابات مجھے تسلی بخش دیتی تھی۔ والد صاحب اور کھنہ کی انڈیا بارے گفتگو سن سن کے میرے اندر کہیں ایک خواہش جنم لینے لگی کہ کبھی موقع ملا تو انڈیا ضرور دیکھوں گا اور بالخصوص وہ علاقے جہاں والد صاحب رہ کے آئے اور آج بھی ان کی یادوں میں بسے ہیں۔

یہ جولائی 1980 کے دن تھے، اسلام آباد میں تیز بارشیں ہو رہی تھیں۔۔ ایک دن انسپکٹر غلام رسول نے ہمیں یہ اندوہناک خبر آ کے سنائی کہ پونم اپنے گھر کے لان میں لگے پول کے کرنٹ سے ہلاک ہوگئی اور اسلام آباد کے ہی شمشان گھاٹ میں آج اس کا کریا کرم کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر برق بن کر ہم سب پہ گری، اس دن والد صاحب بہت اداس تھے۔ کھنہ فیملی کے ساتھ ان کی کافی قربت تھی، مگر افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ اس حادثے کے فوری بعد ان کی ٹرانسفر کر دی گئی اور وہ دلی واپس چلے گئے ہیں۔

کچھ روز بعد ایک انڈین اہلکار نے ہمیں پونم کے نڈھال والدین کی فوٹو بھی دکھائی جس میں وہ پیتل کی کٹوری اٹھائے کھڑے تھے، جس میں پونم کی ارتھی جلائے جانے کے بعد اکٹھی کی گئی راکھ تھی، جو غالباً گنگا میں بہا دی گئی ہوگی۔ جیتی جاگتی، زندگی سے بھرپور پونم کو راکھ کے ڈھیر میں بدل کے اس کٹوری میں سما جانے کے عمل نے مجھے کئی دن تک وحشت زدہ کئیے رکھا اور مجھے Cremation (چتا جلانے کا عمل) بالکل نہ بھایا۔

کھنہ فیملی سے تو میری پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی مگر انڈیا جانے اور ان سب علاقوں کو دیکھنے کا فطری شوق میرے اندر پروان چڑھتا رہا۔ اگرچہ انڈیا جانا اس وقت بھی مشکل تھا، لیکن اتنا کبھی مشکل نہ تھا، جتنا اب ہے۔

1997 میں پھر قدرت نے مجھے موقع دیا۔ وزارت مذہبی امور نے اجمیر شریف میں اکتوبر میں ہونے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے عرس پہ خواہشمند زائرین کی درخواستیں طلب کر لیں۔ میرے دوست ارشاد نے جھٹ سے پروگرام ترتیب دے ڈالا۔ میں اس وقت سرکاری ملازمت کے سلسلے میں کہوٹہ میں تعینات تھا۔ تاہم میرا پرائیویٹ پاسپورٹ بنا ہوا تھا جو ہم نے مطلوبہ کاغذات کے اور فیس کے ساتھ منسٹری میں جمع کروا دیا۔ کچھ مدت بعد انڈین ایمبیسی سے ویزا لگ کے آ گیا اور یوں ہم تیاری میں لگ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ارشاد کے مشورے پہ ہم نے سو گرام کے سونے کا بسکٹ بھی خریدا جو اس وقت چالیس ہزار کا آتا تھا۔ پاکستانی سونے کی انڈیا میں بہت مانگ تھی اور یہ سونے کی ٹکیہ وہاں تقریباً اسی ہزار میں فروخت ہوتی تھی۔ زائرین اپنا زاد راہ نکالنے کے لئے یہی فارمولا اپناتے تھے۔

اکتوبر کے اوائل میں زائرین کو لاہور داتا صاحب دستار بندی کے لئے بلایا گیا۔ ہم پرجوش تھے۔ میں سوچ رہا تھا اگر دلی پہنچ گیا تو کوشش کروں گا کھنہ فیملی کو تلاش کروں اور پونم کی موت پہ ان سے تعزیت کروں، اگرچہ اس واقع کو گزرے اب سترہ برس ہو چکے تھے۔

داتا صاحب کی وسیع مسجد میں زائرین کی دستار بندی کا عمل شروع ہوا۔ لیکن سٹیج پہ پہلے اناؤنسمنٹ ہوئی کہ پہلے ان بائیس بندوں کے نام پکارے جائیں گے جن کی سپیشل برانچ نے کلئیرنس نہیں دی۔ میں ششدر رہ گیا جب تیسرے یا چوتھے نمبر پہ میرا نام پکارا گیا۔ میرا خیال تھا کہ میرا کوئی ہم نام ہوگا۔ مگر دوبارا جب تصدیق کی تو وہ میرا ہی تھا۔

یہ لمحات میرے لئے بہت شاکنگ تھے۔ ارشاد اور میرا ایک دوسرا دوست اپنے سادہ موبائل فون سے بار بار راجہ ظفر الحق کا نمبر ملا رہے تھے جو غالباً اس وقت وفاقی وزیر مذہبی امور تھے۔ مگر یہ سب اب کہاں ہونا تھا۔ دوپہر دو بجے سمجھوتہ ایکسپریس نے واہگہ بارڈر کراس کر جانا تھا۔ اب اس قسم کی کوشش کی گنجائش بھی نہ تھی۔

میرے سارے پلان پہ پانی پھر چکا تھا۔ کسی غلام رسول ٹائپ انسپکٹر نے ہو سکتا ہے میرے بارے میں معلومات کی ہو اور کہوٹہ تعیناتی کو اس نے ریڈ مارک لگا کے آگے بھجوا دیا ہو۔ کہوٹہ میں اس وقت حساس تنصیبات ہوا کرتی تھیں۔ بہرحال یہ میرا اندازہ تھا، ہو سکتا ہے ایسے نہ ہو، بلکہ ویسے ہی میں نچلے اہلکاروں کی ستم ظریفی کا شکار ہوگیا ہوں گا۔ یا پھر غلام رسول ٹائپ انسپکٹر نے چار انٹریاں کلئیر کرنے کے بعد مجھ پانچویں پہ حفظ ماتقدم کراس لگا دیا ہو۔

خیر بوجھل قدموں سے میں ارشاد کو الوداع کرکے باہر آ گیا۔ کھنہ صاحب کو ملنے اور پونم کی تعزیت کرنے کا پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔

انڈیا اور پاکستان کے تعلقات تمام تر اترائیوں چڑھائیوں کے بعد اس وقت معتدل تھے۔ جو بعد میں آنے والے وقتوں (سانحہ کارگل) اور سانحہ تاج محل ہوٹل ممبئی کے بتدریج خراب ہوتے چلے گئے اور پھر مودی کے پرائم منسٹر بننے کے بعد نکتہ اختتام پہ ہی چلے گئے۔

1992 میں جب میں اور میرا ایک دوست عبدالرزاق اپنے تیسرے دوست اقبال کو ملنے اس کے سیالکوٹ میں واقع سرحدی گاؤں ڈالو والی گئے تو وہ ہمیں وہاں "سچیت گڑھ" بارڈر لے گیا جہاں اتفاق سے ایک انڈین ریٹائرڈ کرنل اور اس کی فیملی آئی ہوئی تھی۔ درمیان میں ہمارے محض ایک بانس کا بیئریر تھا، جس کے ایک طرف ہم کھڑے تھے اور دوسری طرف وہ انڈین فیملی۔ ہماری سائیڈ پہ ہمارا فوجی جوان تھا اور دوسری طرف بی ایس ایف کا اہلکار۔ ہم چند ثانیے خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ ایک طرف ایک بڑھ کا ایک قدیم درخت تھا جس کا موٹا تنا پاکستان میں تھا مگر شاخیں اور پتے انڈیا میں جھکے ہوئے تھے۔

کرنل کی اہلیہ اداس نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی بولی "ہم تو ایک جیسے تھے، بول چال، رہن سہن، کھانا پینا بھی ایک ہی تھا، پر جدا کر دئیے گئے ہیں۔ یہ دیکھیں درخت بھی یہ ثابت کر رہا ہے کہ سرحدیں جدا نہیں ہو سکتی"۔

میں چاہنے کے باوجود اسے نہیں بتا پایا کہ ہم عوام تو آپس میں اتنی نفرت نہیں کرتے۔ کبھی کوئی انڈین لاہور آتا ہے تو لوگوں کا پیار اور محبت دیکھ کے ششدر رہ جاتا ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں ہم کیسا بدقسمت خطہ ہیں اور کیسی بدقسمت ہمسائیگیاں ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔ امرتسر لاہور سے آدھ گھنٹے کے فاصلے پہ ہے۔ اگر قائد اعظم اور نہرو کا کینیڈا امریکہ طرز کا پر امن بقائے باہمی والا فارمولہ پروان چڑھ جاتا تو کیسے ہماری زندگیاں آج مختلف ہوتی۔ ظاہر شاہ والا کابل اور قں دھار، شاہ ایران والا ایران اور نہرو والا ہندوستان ہمارے نصیب میں ہوتا تو اس پورے خطے کے لوگوں کی قسمت ہی بدل چکی ہوتی۔

بگاڑ اتنا بڑھ چکا ہے، نفرتیں اتنی پروان چڑھ چکی ہیں کہ اب کئی دھائیوں تک اس سارے منظر پہ یہ خونی دھند ہی چھائی رہے گی۔ ہم یہی حسرت لے کے اس دنیا سے چلے جائیں گے کہ بغیر ویزے کے صبح جا کے شام کو امرتسر سے واپس آ جائیں گے۔

بہت عرصہ قبل میں ایک دفعہ بینکاک سے ہزار کلومیٹر دور شمال میں مے سائی کے بارڈر پہ پہنچا۔ برما کا ویزا میرے پاس تھا مگر بارڈر پہ تعینات اہلکاروں نے محض پرچی دے کے ہمیں بارڈر ٹاؤن "ٹیچی لیک" میں داخل کر دیا۔

پھر میرے ذہن میں یہ سوال آیا وہ کون سے فرشتے آئیں گے جو انڈیا پاکستان کے بیچ اس طرح کا سافٹ بارڈر قائم کر دیں گے۔ مگر پھر خیال آیا ہاکس Hawks تو ہر دو طرف ہیں، جن کا کاروبار ہی جنگ، نفرت اور ہتھیاروں کی ریس پہ چلتا ہے، وہ کہاں یہاں کسی فرشتوں کو آنے دیں گے۔ قائداعظم کے مرنے کے بعد ہی پاکستان ان ہاکس کے سپرد ہوگیا اور دوسری طرف پڑوس میں بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ سافٹ بارڈرز ایک خواب ہی رہے گا، مگر خواب دیکھتے رہنے میں تو کوئی حرج نہیں، شائید کوئی نسل اس کی تعبیر پا لے۔

Check Also

Hasad Na Karen Mehnat Karen

By Shair Khan