AI Ke Ehad Ki Lazawal Dost
AI کے عہد کی لازوال دوست

فارسی کا مشہور قول ہے کہ "ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ"۔ کتاب سے بہتر ہم نشین تلاش کرنا فضول ہے، یہ ہر موقع پر ہی ساتھی اور رفیق ہے۔ بلاشبہ کتاب وہ بہترین دوست ہے جو کبھی دغا نہیں دیتا۔ اس سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے۔
تھامس کارلائل کے مطابق: "کتاب دماغ کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے جسم کے لیے غذا"۔ عربی شاعر متنبی نے درست کہا: "وخیر جلیس فی الزمان کتاب" کہ زمانے میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے علم اور تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔ فرانس کے انقلابی دانشور والٹئیر نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا: "تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتابوں نے ہی لوگوں پر حکومت کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے"۔
سقراط نے علم کو دولت پر فوقیت دی اور امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلپس نے کہا "پرانا کوٹ پہنو اور نئی کتاب خریدو"۔ علمی اور تاریخی شخصیتوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز وسعتِ مطالعہ میں پوشیدہ ہے۔ حکیم ابو نصر الفارابی رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کی روشنی میں کھڑے ہو کر مطالعہ کرتے تھے اور امام زہری کا حال یہ تھا کہ کتابوں میں محو ہو کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل کتب بینی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ تجزیہ کار اس تنزلی کی بڑی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی قوت خرید میں کمی، تیز رفتار طرزِ زندگی اور بالخصوص موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال شامل کرتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ کتابیں، جو کبھی شیشوں کی الماریوں کی زینت تھیں، اب سڑک کنارے فروخت ہو رہی ہیں، جو ایک گہری فکری تنزلی کی علامت ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن اس آسانی نے علم کی گہرائی اور اس کے لیے درکار غور و فکر کو متاثر کیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اوسطاً مطالعے کا رجحان ہم سے کہیں زیادہ ہے، جیسے انگلینڈ میں اوسطاً ایک فرد سال میں سات کتابیں اور امریکہ میں چار کتابیں پڑھتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر وقت ویڈیو گیمز، ویب سرچنگ اور چیٹنگ میں گزر جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف کی زندگی مطالعے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ امام غزالی نے جامعہ نظامیہ کی وائس چانسلر شپ چھوڑ کر دس سال غور و فکر اور مطالعے میں صرف کیے اور "تہافت الفلاسفہ" جیسی عظیم کتابیں تصنیف کیں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے زوال کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
مسلمانوں کا زوال اس کی واضح مثال ہے جب سقوط بغداد کے وقت عظیم کتب خانوں کو دریا برد کر دیا گیا اور فرات کا پانی کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا تھا۔ کامیاب لوگوں میں ایک عادت قدر مشترک ہے: کثرتِ مطالعہ۔ امریکہ کے 32ویں صدر روزویلٹ اپنی آپ بیتی میں اپنی کتب بینی کی خصوصیت کو "لامحدود" قرار دیتے تھے اور ایک ہی دن میں کئی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ وارن بفٹ، جو دنیا کے کامیاب ترین سرمایہ کاروں میں سے ہیں، اپنی کامیابی کا راز گہرے مطالعہ کو بتاتے ہیں اور اپنے دن کے 5 سے 6 گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔ بل گیٹس بھی ہر ہفتے ایک کتاب کا مطالعہ کرنا اپنی عادت میں شامل رکھتے ہیں۔
کتابوں کا مطالعہ نہ صرف ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتا ہے بلکہ یہ ذہنی تناؤ کو بھی دور بھگاتا ہے۔ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق مطالعے کو ترجیح دینے والوں میں تناؤ کی سطح 67 فیصد تک کم ریکارڈ کی گئی، جو کہ دیگر تفریحی سرگرمیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نمایاں کمی تھی۔ سوشل میڈیا کے سیلاب اور تیز رفتار زندگی کے باوجود، آج بھی کتاب کی اہمیت باقی ہے۔ ڈیجیٹل مواد اور معلومات کا انبار سہی، لیکن کتاب ایک منتخب، مکمل اور پرکیف تجربہ فراہم کرتی ہے۔ سکرین کی روشنی کے مقابلے میں کاغذ کا لمس، سیاہی کی خوشبو اور کتاب کا وزن جو فکری گہرائی اور یکسوئی فراہم کرتا ہے، وہ مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ کی دنیا میں مفقود ہے۔
اب یہ سوال کہ بک سٹریٹس (Book Streets) کیوں ضروری ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کتابوں کی دکانیں صرف خرید و فروخت کا مرکز نہیں، بلکہ یہ علمی و ثقافتی مراکز ہیں۔ یہ ایک ایسا محسوس مقام فراہم کرتی ہیں جہاں قاری کو مختلف عنوانات پر مبنی کتابوں کے درمیان چلنے، انہیں چھونے اور اپنے ذوق کے مطابق انتخاب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ تجربہ آن لائن شاپنگ یا ڈیجیٹل لائبریری فراہم نہیں کر سکتی۔ جس طرح فوڈ سٹریٹس ہمارے کھانے کے ذوق کی تسکین کرتی ہیں، اسی طرح بک سٹریٹس کا قیام نوجوانوں کی فکری اور علمی تسکین کے لیے ضروری ہے۔ یہ ماحول کتب بینی کے شوق کو فروغ دیتا ہے اور نوجوانوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیتا ہے تاکہ وہ علم کی روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کے عروج کے اس دور میں بھی کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی، بلکہ کئی حوالوں سے بڑھ گئی ہے۔ آرٹیفشل انٹیلجنس صرف ان معلومات کو پروسیس کر سکتا ہے جو اسے دی گئی ہوں۔ انسان کی تنقیدی سوچ، اخلاقیات اور گہرے فلسفیانہ خیالات کی بنیاد آج بھی عظیم کتابوں کے مطالعے سے ہی بنتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ اے آئی مواد تیار کر سکتا ہے، مگر کسی بڑے ادیب، فلسفی یا سائنسدان کی کتاب میں اس کی ذاتی فکر، زندگی کا نچوڑ اور جذبات شامل ہوتے ہیں جو AI کے الگورتھم سے پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ جان ملٹن نے کہا تھا کہ "ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے": اے آئی ہمیں فوری خلاصے اور معلومات کے ٹکڑے فراہم کرتا ہے، جبکہ کتاب کا مطالعہ توجہ اور ارتکاز کا طالب ہوتا ہے، جو کہ آج کے منتشر دور میں ایک اہم ذہنی ورزش ہے۔
آج جب ہمارے ارد گرد معلومات کا سیلاب ہے، تو ہمیں امام شافعی کے اس قول پر عمل کرنا چاہیے: "علم ایک شکار کی مانند ہے، کتابت کے ذریعے اسے قید کر لو"۔ مطالعہ کے لیے وقت نہ ہونے کا بہانہ دراصل ہماری ترجیحات کی کمی ہے۔ اگر ہم روزانہ صرف ایک گھنٹہ بھی مطالعہ کریں، تو ایک سال میں ہزاروں صفحات پڑھ ڈالتے ہیں، جو ہماری علمی اور فکری زندگی کو بدل سکتا ہے۔ کتابیں محض کاغذ کے اوراق نہیں، بلکہ تہذیب اور شعور کا تسلسل ہیں۔ بک سٹریٹس اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں، کیونکہ یہ وہ مقام ہیں جہاں انسان، کتاب اور علم کی خوشبو کا تعلق ٹوٹنے نہیں پاتا۔
سوشل میڈیا اور AI کے دور میں یہ بک سٹریٹس، فکری تنہائی میں انسان کی سب سے بڑی پناہ گاہ اور ترقی کی شاہراہ ہیں۔ حکومت کو چاہئے جیسے فوڈ سٹریٹس بنانے پر توجہ دی جارہی ہے ویسے ہی بک سٹریٹس بنانے پر بھی توجہ دی جائے اور کتابیں چھاپنے، بیچنے والوں کو بھی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ قلم و کتاب کا رشتہ ہماری نوجوان نسل تک منتقل ہوسکے۔ دنیا کے بڑے مصنفین کی کتابوں کو مقامی زبانوں میں ترجمہ اور اہم تحقیقی مقالہ جات کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کروانا اور شائع کروانا بھی اشد ضروری ہے تاکہ ہماری نئی نسل ترقی یافتہ اقوام کے تحقیق و تصنیف سے فائدہ اٹھا سکے۔

