Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Hasad Na Karen Mehnat Karen

Hasad Na Karen Mehnat Karen

حسد نہ کریں محنت کریں

کچھ لوگوں کو دوسروں کی ترقی واقعی ہضم نہیں ہو رہی۔ آنکھ اٹھاؤ تو ہر سمت پروفیشنل جلن کے بخارات پھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں وقت ہوتا ہے مگر ہمت نہیں زبان میں شور ہوتا ہے مگر عمل نہیں۔ کسی ایک کی کامیابی ان کے لیے خوشی نہیں بلکہ دل کی تیزابیت بن جاتی ہے۔ محنت کرنے والا جب ایک سیڑھی اوپر چڑھتا ہے تو حاسدین کے معدے میں مروڑ اٹھتا ہے۔ انہیں یہ سوال کبھی پریشان نہیں کرتا کہ وہ خود پیچھے کیوں رہ گئے انہیں بس یہ کھٹکتا ہے کہ سامنے والا آگے کیسے نکل گیا۔ یوں اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں کی کامیابی پر ڈال کر خود کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ اپنی توانائی تعمیر میں نہیں تخریب میں صرف کرتے ہیں۔ کھینچا تانی ٹانگ کھینچائی سرگوشیاں، منفی فقرے، تبصرے یہ سب ان کی روزمرہ محنت ہے۔ اپنی راہ بنانے کے بجائے دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھانا ہی ان کا پیشہ بن چکا ہوتا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے جو محنت سے اُگتا ہے وہ جلن کی تپش میں بھی مرجھاتا نہیں اور جو صرف حسد پر پلتا ہے وہ خود اپنی ہی آگ میں آخرکار راکھ ہو جاتا ہے۔ ترقی ایک خاموش عمل ہے اسے شور کی نہیں۔ صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور حسد ایک ایسی بیماری ہے جو مریض کو تو اندر سے کھا جاتی ہے مگر جس سے جل رہا ہو اس کا سایہ بھی چھو نہیں پاتی۔

انسان کی فطرت میں ایک ایسی آگ بھری ہے جو نہ تو بجھتی ہے اور نہ ہی اس کی لپٹیں کم ہوتی ہیں۔ یہ آگ ہے حسد کی جو دوسروں کی ترقی دیکھ کر بھڑک اٹھتی ہے۔ آج کی اس دوڑتی بھاگتی دنیا میں جہاں ہر کوئی اپنی منزل کی طرف لپک رہا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پاؤں کی زنجیریں توڑنے کی بجائے۔ دوسروں کے قدموں میں کانٹے بچھانے میں مصروف رہتے ہیں پروفیشنل جیلیسی یہ ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ روح کو کھا جاتا ہے اور اس کی تلخی سے نہ صرف حسود کا دل جلتا ہے بلکہ معاشرے کی بنیادوں کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔

تصور کیجیے ایک وسیع میدان کو جہاں کچھ لوگ محنت کی دھوپ میں پسینہ بہا کر اپنے خوابوں کے درخت لگا رہے ہیں وہ دن رات ایک کرکے تھکاوٹ کو شکست دے کر اپنی کامیابی کی فصل کاٹ رہے ہیں مگر اسی میدان کے کنارے کچھ سایہ دار درختوں تلے بیٹھے لوگ ہیں جو ان کی محنت کو دیکھ کر مسکراتے نہیں بلکہ ان کی جڑوں میں کیڑے ڈالنے کی ترکیب سوچ رہے ہوتے ہیں۔ یہ حسودین ہیں جن کے دل میں اپنی ناکامی کا غصہ بھرا ہے اور وہ اسے دوسروں کی ترقی پر الزام دے کر مطمئن ہوتے ہیں کیوں وہ اگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سوال ان کی راتوں کی نیند حرام کر دیتا ہے اور وہ اپنی توانائی کو کھینچا تانی میں ضائع کر دیتے ہیں ادب کی دنیا میں ایسے کرداروں کی کوئی کمی نہیں غالب کہتے ہیں۔۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

مگر حسد کا درد تو خود ساختہ ہے جو دوسروں کی خوشی دیکھ کر بڑھتا ہے۔ شیکسپیئر کے اوتھیلو میں ایاگو کا کردار اس جیلیسی کی زندہ تصویر ہے جو حسد کی آگ میں جل کر دوسروں کو بھی جلا دیتا ہے۔ ہمارے اپنے ادب میں بھی منٹو کی کہانیوں میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو معاشرتی حسد کی وجہ سے اپنی زندگیاں تباہ کر بیٹھتے ہیں یہ حسد نہ صرف ذاتی ہے بلکہ پیشہ ورانہ بھی، جہاں آفس کی کرسیاں پروموشن کی سیڑھیاں اور کامیابی کی چوٹیاں حسودوں کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتی ہیں کیا وجہ ہے اس حسد کی؟

شاید یہ کمزور خود اعتمادی کی پیداوار ہے جو شخص اپنی محنت پر یقین نہیں رکھتا وہ دوسروں کی کامیابی کو اپنی ناکامی کا آئینہ بنا لیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ اگر وہ اگے بڑھے گا تو میری جگہ کم ہو جائے گی مگر یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا کا آسمان اتنا وسیع ہے کہ ہر ستارہ اپنی جگہ چمک سکتا ہے۔ اپنی توجہ اپنے کام پر مرکوز کرنے کی بجائے وہ گپ شپ کی محفلوں میں سوشل میڈیا کی دیواروں پر اور دفتر کی گلیاروں میں دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتا ہے یہ ایک بیماری ہے جو نہ صرف فرد کو کھوکھلا کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو زہر آلود کر دیتی ہے۔

مگر امید کی ایک کرن ہے۔ حسد کی اس آگ کو بجھانے کا علاج ہے خود شناسی اور شکر گزاری جب انسان اپنی برکتوں کو شمار کرے اپنی محنت کو قدر دے اور دوسروں کی کامیابی کو اپنے لیے تحریک بنائے تو یہ حسد کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں اقبال کہتے ہیں۔۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

تو آئیے ہم حسد کی اس بیماری سے نکل کر محنت کی روشنی میں چلیں کیونکہ حقیقی ترقی تو وہی ہے جو دوسروں کو بھی اٹھائے نہ کہ انہیں گرانے کی کوشش کرے حسد کی تاریکی میں جلنے کی بجائے کامیابی کی روشنی بانٹیں اور دیکھیں کہ دنیا کیسے خوبصورت ہو جاتی ہے۔

Check Also

PIA, Qaumi Waqar Se Qaumi Nuqsan Tak

By Muhammad Umar Shahzad